Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Munir Ahmed Khalili
  3. Shaam, Baghawaton, Shorishon Ki Sarzameen

Shaam, Baghawaton, Shorishon Ki Sarzameen

شام: بغاوتوں، شورشوں کی سرزمین

سرزمینِ شام کی طویل تاریخ ہے۔ جغرافیائی محلِ وقوع کے لحاظ سے اس کے مغرب میں بحیرۂ روم، شمال میں تُرکیہ، مشرق اور جنوب مشرق میں عراق، جنوب میں اُردن اور جنوب مغرب میں اسرائیل ہیں۔

مختلف ادوار میں اس پر سومیریوں، ہیٹیوں، کنعانیوں، بابلیوں، مصریوں، فونیقیوں، آرمینیوں، اموریتیوں، ایرانیوں، یونانیوں اور بازنطینی رومیوں کی حکومت رہی۔ شام کی قدیم تاریخ چھوڑ کر اُس مُلک کی بات کریں، جسے امیر المؤمنین، حضرت عُمرؓ کی خلافت میں 636 عیسوی میں فتح کیا گیا اور وہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی۔

دمشق اُموی عہد سے لے کر آج تک مُلک کا دارالحکومت ہے۔ یہاں ایک عظیمُ الشّان مسجد، جامع اُموی اُسی طرح جلوہ گر ہے، جیسے اندلس میں مسجدِ قرطبہ وہاں اموی عہد کا نقشِ عظیم ہے۔ یہ مُلک اِمام ابنِ تیمیہؒ، اِمام قیّمؒ، اِمام ابنِ کثیرؒ کی یاد دِلاتا ہے۔ اس سے عظیم سیرت نگار، اِمام محمّد بن یوسف الصّالحی الشّامیؒ کے علاوہ سینکڑوں اہلِ علم کی یادیں وابستہ ہیں۔

بیسویں صدی کے تیسرے، چوتھے عشرے میں عرب دنیا (مصر) میں مصطفیٰ صادق الرّافعی اور عباس محمود عقاد سمیت وقت کے سب سے بڑے ادیبوں میں جو ادبی معرکے برپا تھے، اُن میں ایک طرف مصطفیٰ صادق الرّافعی تھے، جو اپنے اسلوبِ نگارش کی بنیاد پر پچھلی صدی کے "جاحظ" کہلاتے تھے۔

الرّافعیؒ کے لشکرکے سب سے بڑے"تیغ زن" محمّد علی طنطاوی تھے، جن کے اندازِ تحریر سے اپنے ادبی استاد ہی کا سحر انگیز رنگ جھلکتا ہے۔ شیخ علی طنطاوی، جنہوں نے ایک ادیب کے علاوہ ایک عظیم داعی اور مبلّغ کی شہرت بھی پائی، شام ہی سے تعلق رکھتے تھے۔ ان معرکوں میں سیّد قطبؒ، عقاد کے ادبی لشکرکے نام وَر تیغ زن تھے۔

شام، پہلی عالمی جنگ کے بعد سے آج تک، کم و بیش ایک سو سال سے بغاوتوں، شورشوں اور عدم استحکام کا شکار چلا آ رہا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا سرمایہ دارانہ اور کمیونسٹ، دو بلاکس میں تقسیم ہوگئی تھی۔ شام میں 1917ء کے بالشویک انقلاب کے ساتھ ہی دو لہریں ساتھ ساتھ بہنے لگی تھیں۔ ایک طرف پہلی عالمی جنگ کے بعد عثمانی خلافت کے جو حصّے بخرے کیے گئے، اُن ہی کی طرح شام میں بھی مسلم اُمّت کے مقابلے میں عرب قومیت کے بیج بوئے گئے۔

بیروت کی امریکن یونی ورسٹی نے عرب قوم پرستانہ جذبات کی آب یاری میں خاص کردار ادا کیا۔ بیروت، شام ہی کا حصّہ تھا، اِس لیے شام کے عیسائیوں اور مسلمانوں میں عرب"نیشنل ازم"کو فروغ ملا۔ دوسری لہر روس کے تابع اشتراکیت کی تھی۔ شام کی سیاست پر اشتراکیت کے گہرے اثرات بھی گزشتہ صدی کے تیسرے عشرے کے شروع ہی میں ظاہر ہونے لگے تھے۔

شریف حسین، شریفِ مکّہ عثمانی خلافت کے خلاف برطانیہ کا آلۂ کار بنا اور حجاز کے علاوہ شام اور عراق دونوں پر اپنے بیٹے، فیصل بن حسین کی بادشاہت کے بدلے برطانیہ سے سودے بازی کر لی۔ 25 جولائی 1920ء کو فرانس کے فوجی دستے شام میں داخل ہوئے اور شاہ فیصل حسین کو معزول کر دیا۔

اُس وقت وجود میں آنے والی عالمی تنظیم"لیگ آف نیشنز"نے قطعی طور پر غیر اخلاقی اور غیر قانونی طور پر "French Mandate for Syria and Lebanon"کے نام سے فرانس کو شام اور لبنان پر جوازِ انتداب بخش دیا۔ فرانس نے دمشق اور حلب کو دو الگ ریاستیں بنا دیا اور ساحلی علاقوں میں دروز اور علوی آبادی کو اُن کی جداگانہ شناخت فراہم کی۔ یوں، گویا شام میں نسلی اور مذہبی فرقہ وارانہ شجرکاری کر دی گئی۔ نسلی تکثیریت شام میں شروع ہی سے چلی آ رہی ہے۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan