Tuesday, 16 April 2024
  1.  Home/
  2. Mujahid Barelvi/
  3. Wazir e Azam Ki Darkhwast

Wazir e Azam Ki Darkhwast

وزیر اعظم کی درخواست

تحریک انصاف کے سربراہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کم و بیش تین گھنٹے درجن ایک چینلوں کے سینیئر اینکروں کے سامنے نہ صرف ان کے تیکھے سوالوں کے جوابات دیتے رہے، وہیں بڑے خلوص اور درد مندی سے اِن سے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے تعاون کی درخواست بھی کرتے رہے۔ وزیر اعظم پاکستان کا زیادہ زور اپنے خطاب میں ہمارے محترم علمائے کرام سے تھا کہ وہ رمضان کے مبارک مہینے میں اول تو نماز اور تراویح گھر میں ادا کریں اور اگر یہ فریضہ انجام دینا بھی چاہتے ہیں تو حکومت کی جانب سے دی گئی ہدایات پر عمل کریں۔۔۔ تاہم دوسری ہی سانس میں وزیر اعظم عمران خان نے بڑی بے بسی سے کہا کہ انہیں علم ہے کہ علمائے کرام اس پرعمل نہیں کریں گے۔

وزیر اعظم سمیت تمام ہی صاحب الرائے اورصاحبان ِ ایمان کی اپیل پر پہلی رمضان اور بعد میں کتنا عمل کیا جائے گا۔۔۔ اس پر اس وقت کچھ کہنا مشکل ہے کہ اس سے پہلے ہی یہ کالم ادارتی انچارج کے سپرد کر چکا ہوں گا۔ خدشہ بہر حال وہی ہے جس کا اظہار وہ 23 اپریل کی ٹیلی تھان میں کرچکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں وزیر اعظم کی یہ کوئی تیسری ٹیلی تھان ہے۔ 92 اخبار سے وابستگی ہے اسی لئے شائد اسے تعصب کے زمرے میں لیا جائے۔۔۔ مگر صف ِ اول کے ایک چینل اور پھر درجن بھر چینلوں پر ہونے والی ٹیلی تھان کے مقابلے میں 92 چینل کی ٹیلی تھا ن میں جو عطیا ت جمع ہوئے۔۔۔ اس سے فرق صاف ظاہر ہے کہ وزیر اعظم کے ساتھ ٹیلی تھان میں ناظرین کی جانب سے 92 چینل پر جو زیادہ اعتماد کا اظہار کیا گیا، اس کا ایک سبب یہ تھا کہ یہ سیاست سے بالاتر تھی۔۔۔ دوسرے اس میں ایسے بچگانہ، بلکہ چاپلوسانہ سوال نہیں کئے گئے کہ یہ "آپ تسبیح میں کیا پڑھتے رہتے ہیں؟ "

معذرت کے ساتھ، اس نازک وقت میں جب کہ ساری دنیا اور پاکستانی قوم ایک شدید آزمائش سے گذر رہی ہے۔۔۔۔ کسی تنازع میں نہیں پڑنا چاہ رہا تھا۔ مگر تین گھنٹے کی مشقت میں صرف 57کروڑ کے عطیات کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے مولانائے خاص نے اپنے خطاب میں جو "پھڈا " ڈالا۔۔۔ اس سے معذرت کے ساتھ اگرگُریز ہی کرتے تو مناسب تھا کہ پاکستان میں صاحب ِ حیثیت افراد اور ادارے پہلے دن ہی سے ریلیف کی مہم میں انتہائی خاموشی سے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ اور اکثریت یہ کارِ خیر اس طرح کررہی ہے کہ حقیقی معنوں میں دوسرے ہاتھ کو اس کا پتا نہیں چلتا۔۔۔

جہاں تک ہمارے محترم علامہ طارق جمیل نے گڑگڑاتے۔۔۔ بلکہ آنسوؤں کی جھڑی لگانے سے پہلے جو خطاب کیا، اِس نے ایک ایسا تنازع چھیڑدیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک طوفان کھڑا ہوگیا ہے۔ علامہ طارق جمیل نے اپنی علمیت اوراُس سے زیادہ اپنی خطابت سے ملک گیر بلکہ عالمی شہرت حاصل کی ہے۔ اِس سے یقینا اِن کے حاسدوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مگر حضرت مولانا کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔ کہ یوٹیوب پر ان کے فالوورز کی تعداد 3کروڑ40لاکھ کے ریکارڈ کو چھو رہی ہے۔

خود ان کے کہنے کے مطابق صرف 18 سال کی عمر میں والد صاحب نے سن1972میں انہیں گھر سے نکال دیا تھا۔ گھر کے معاملات کسی کے بھی ہوں اس پر پبلک میں گفتگو نہ کی جائے تو مناسب ہے۔ تھر پارکر سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم ان کے لاکھوں معتقدین میں سے ایک تھے۔ اور اِن کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ جب سندھ کے وزیر اعلیٰ ہوئے تو جمعے کے جمعے اُنہیں امامت اور خطابت کے لئے خاص طور پر مدعو کرتے۔ بعد میں یہ سلسلہ حضرت مولانا طارق جمیل نے جاری رکھا۔ دروغ ہرگردن راوی وزیر اعلیٰ ارباب رحیم نے حضرت مولانا کی ملاقات سابق صدر جنرل پرویز مشرف سے کروائی۔ اور یوں انہیں اسلام آباد کے مقتدر حلقوں میں ایک مختصر عرصے میں اتنی پذیرائی حاصل ہوئی کہ ایوان اقتدار کے سارے دروازے اِن کے لئے وا ہوتے گئے۔ مولانا طارق جمیل کے عقیدت مندوں میں مشہور پاپ سنگر جنید جمشید نے حضرت مولانا کے ہاتھ پر بیعت کرکے اپنی نعتوں اور رمضان ٹرانسمیشن سے بعد میں بڑی شہرت پائی۔ جوان مرگی میں جنید جمشید کی مو ت پر مولانا طارق جمیل کا خطبہ بڑا رقت آمیز تھا۔

مولانا طارق جمیل کے حلقہ ٔ خاص میں تحریک انصاف کے سربراہ محترم عمران خان کب شامل ہوئے، اس کے ماہ و سال پر تاریخ خاموش ہے۔۔۔ کہ 2011 سے جولائی 2018 میں ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے تک میں خاں صاحب کی ہر بڑی ریلی کی لائیو کوریج کرتا تھا۔ 2014 کے دھرنے کے دوران بھی اسٹیج پر ان کی رونمائی نہیں ہوئی۔ مگر جب خان صاحب کی دوسری بیگم ریحام خان کی شادی اور طلاق کا قضیہ چھڑا تو مولانا طارق جمیل کے نام کی سن گن سنائی دی۔۔۔ اور اب تو خیر حالیہ دنوں میں بنی گالہمیں ان کی آمد و رفت وزیر اعظم کے مشیروں اور وزیروں سے زیادہ ہوتی ہے۔ مولانا طارق جمیل کا جو یہ طول طویل قضیہمیں لے بیٹھا۔۔۔ تو اس کاسبب 20 اپریل کی ٹیلی تھان کے بعد ان کا خطاب تھا۔ جس میں انہوں نے یہ فتویٰ دیا کہ وزیر اعظم عمران خان کو اجڑا چمن ملا، کہاں تک آباد کرے گا۔۔۔

مزید فرمایا، آپ اکیلے اور دیانتدار ہیں۔ ساتھ ہی مولانا طارق جمیل کا فرمانا تھا کہ اس وقت سارے چینلوں پر جھوٹ بولا جارہا ہے اور ایک بڑے چینل کا مالک کہتا ہے کہ جتنا جھوٹ بولو، اتنا ہی چینل ریٹنگ لے گا۔ مولانا طارق جمیل نے ساتھ ہی ان چینلوں کی مزاحمت کی جو بے حیائی اور عورتوں کو ناچتے گاتے دکھاتے رہے ہیں۔ مذکورہ ٹیلی تھان کے بعد اس میں بیٹھے بیشتر اینکر اپنے اپنے پروگراموں میں آہ و زاریوں میں مصروف تھے۔ اور ایک چینل پر تو ہمیشہ غصیلے نظر آنے والے ن لیگی رکن اسمبلی رانا ثناء اللہ اتنا آگے بڑھ گئے کہ غصے میں کہا، "آپ دیکھیں گے کہ ہم اس مولانا کا کیا حشر کرتے ہیں۔"اتنا کچھ لکھنے کے بعد لگتا ہے کہمیں نے بھی رائی کو پہاڑ بنا دیا۔ Poor مولانا کا اس طرح ذکر تو کر بیٹھا۔ مگر کورنا نے گھر میں جس طرح نظر بند کیا ہوا ہے اِس میں لکھتے ہوئے تواز ن قائم کرنا مشکل ہورہا ہے۔

مگر بصد احترام اپنے وزیر اعظم سے یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ ساری دنیامیں نہ تو اس طرح کے ٹیلی تھان ہو رہے ہیں اور نہ ہی اس طرح گھنٹوں کے حساب سے سربراہ ِ مملکت اسکرینوں پر عطیات جمع کرتا نظر آتا ہے۔ اور جو اگر ڈالروں میں ضرب دیا جائے تو ایک کروڑ ڈالر بھی نہیں بنتا۔ بہتر یہ ہے اور جو آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہوں گے کہ اس وقت ہمیں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک جیسے دوست اداروں اور ملکوں کی مدد کی ضرورت ہے۔۔۔

About Mujahid Barelvi

Mujahid Barelvi is a veteran journalist from Pakistan. He has a current, daily evening show, "Doosra Pehlu", for CNBC Pakistan. He founded Sonehra Daur Karachi in the 80's. Bankari was a monthly that would help a political activist know about the economic and fiscal realities.

Check Also

Sapiens

By Arif Anis Malik