Tuesday, 23 April 2024
  1.  Home/
  2. Mujahid Barelvi/
  3. So Bismillah

So Bismillah

سو بسم اللہ

خصوصی عدالت کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کا جو مختصر فیصلہ آیا، اُس میں تو محض سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ الزام یہ تھا کہ وہ 2007ء میں انہوں نے ایمرجنسی نافذ کرکے سنگین غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ مختصر فیصلے پر افواج ِ پاکستان کے ترجمان اور ایک بڑے عوامی حلقے کی جانب سے جو شدید رد عمل آیا، اُس پر ہمارے خصوصی عدالت کے چیف جسٹس مزید مشتعل ہوگئے۔ اتنے مشتعل کہ اٹارنی جنرل انور منصور بھی اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے چیف جسٹس وقا ر سیٹھ کی ذہنی کیفیت ہی پر اپنے تحفظات کا اظہار کردیا۔ جسٹس وقار سیٹھ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ سابق صدر مشرف کو ہر صورت میں گرفتار کریں۔ اور انہیں ڈی چوک اسلام آباد پرنہ صرف پھانسی دیں بلکہ ان کی لاش کو تین دن تک اسی چوک پر لٹکا رہنے دیں۔ چیف جسٹس وقار سیٹھ نے زندہ جنرل کے انتقال ہوجانے کی صورت میں مزید یہ حکم صادر فرمایا ہے کہ اس صورت میں انکی لاش کے ساتھ یہی سلوک کیا جائے۔

صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے کہہ سکتا ہوں اور اس کی تصدیق عدلیہ سے تعلق رکھنے والے معتبر اور سینئر قانون داں بھی فرمارہے ہیں کہ اس کی نظیر پاکستان ہی کیا، برصغیر بلکہ ساری دنیا میں نہیں ملتی کہ کوئی جج تمام آئینی، عدالتی، زبان کی حدود پھلانگ کر وہ زبان استعمال کرے کہ جو کوئی سڑک پر کھڑا ذہنی مریض ہی کرسکتا ہے۔ بلاشبہ جسٹس وقار سیٹھ کا یہ فیصلہ انتہائی تعصب اور انتقام میں دیا گیا ہے کہ خود انکے ساتھ بیٹھے ہوئے دو معزز جج صاحبان نے ان کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا۔ سوال یہ ہے کہ جسٹس وقار سیٹھ کا یہ خود اپنا ذاتی فیصلہ ہے کہ اس حوالے سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے کہ ایسے فیصلوں کے پیچھے کچھ ایسے محرکات اور عوامل ہوتے ہیں۔

میں جسٹس منیر کے اُس فیصلے کی جانب نہیں جاؤں گا جس سے ہماری عدلیہ نے پہلی بار دستور ساز اسمبلی کو توڑ کر جمہوریت کا گلا گھونٹنے کی بنیاد ڈالی۔ چلیں، یہ اخذ کرلیتے ہیں کہ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں ہمارے سیاست داں کیونکہ کسی آئین کو تشکیل دینے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ اور اقتدار کامضحکہ خیز میوزیکل چیئرز جاری تھا، اس لئے انہو ں نے جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں یہ فیصلہ دیا۔ مگر 1956ء کا آئین تو تشکیل پا ہی چکا تھا۔ جس کے تحت گورنر جنرل اسکندر مرزا صدرِ مملکت کا آئینی عہدہ سنبھا ل چکے تھے۔ اور آئندہ برس بالغ رائے دہی کی بنیاد پرانتخابات کرانے کا اعلان بھی کرچکے تھے۔ یوں جب برسوں سے محلاتی سازشوں میں مصروف جنرل ایوب خان نے وطن ِ عزیز میں پہلا فوجی مارشل لاء لگایاتو اگر اس وقت کی عدلیہ کے چیف جسٹس ہمارے قابل احترام جسٹس محمد منیر اس مارشل لاء کو سنگین غداری اور 1956ء کے آئین کو توڑنے کا مجرم قرار دیتے تو آج پاکستان کی سیاسی تاریخ سراسر مختلف ہوتی۔ مگر جسٹس منیر نے محض جنرل ایوب خان کے 1958ئکے مارشل لاء توثیق ہی نہیں کی بلکہ انہیں اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنے کا کُلی اختیار بھی دیا۔ یعنی آرمی چیف کے ساتھ ساتھ صدرِ مملکت بھی اور چیف ایگزیکٹو یعنی پرائم منسٹر بھی۔

چیف جسٹس اے آر کارنیلیئس کا نام ہماری عدالتی تاریخ میں بڑی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ مگر ہمارے معزز چیف جسٹس نے ایوب خان کو یہ بھی اختیار دیا کہ وہ 1962میں ایک ایسا آئین تشکیل دیں جس میں سرے سے جمہوریت کی روح ہی قبض کرلی جائے۔ یعنی ایک فرد، ایک ووٹ کی جگہ ایک ایسا سسٹم جس میں دس کروڑ کی جگہ صرف 80 ہزار لوگوں کو اس کا اختیار دیا گیا کہ وہ اپنا سربراہ مملکت چنیں۔ کیا جسٹس کارنیلیئس کا یہ فیصلہ سنگین غداری کے زمرے میں نہیں آتا؟

اور پھر جب جنرل ایوب خان کی جمہوریت ایک عوامی تحریک کے نتیجے میں دم توڑرہی تھی تو اُس وقت کے چیف جسٹس سمیت عدلیہ کے سرخیلوں کو اس بات کا موقع ملاتھا کہ اسی 1962ء کے لنگڑے لولے آئین کے تحت اس وقت کے اسپیکر کو ہی اقتدار سونپ دیتے۔ مگر، ہمارے اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس حمود الرحمان نے یحییٰ خان سے حلف لے کر اس غاصب کو وہی اختیارات سونپنے کی اجازت دیدی جو جنرل ایوب خان کے پاس تھے۔۔۔ غاصب یحییٰ خان کے ملک توڑنے، لاکھوں بنگالیوں کا خون بہانے کی ایک ایسی خونچکاں داستان ہے کہ اس پر تو یحییٰ خان کو ایک ایسی مثالی سزا دی جاتی کہ آئندہ کسی کی یہ جرأت و ہمت نہیں ہوتی۔ مگر یحییٰ خان بڑے باعزت طریقے سے ایک محفوظ مقام پر منتقل کردئیے گئے۔ اور المیہ دیکھیں کہ اس کو گارڈ آف آنر کیساتھ دفنایا گیا۔

اورپھرجنرل ضیاء الحق نے اس وقت ایک منتخب وزیر اعظم کا تختہ الٹا، کہ جب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تمام معاملات طے پا چکے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے محض اُس وقت کی منتخب حکومت کا تختہ ہی نہیں الٹا بلکہ ایک پاپولر عوامی قائد کو پھانسی چڑھا کر مستقبل کے لئے پیغام دیا کہ جو بھی منتخب عوامی قائد جنرل کو چیلنج کرے گا تو اسکے ساتھ ایسا ہی مثالی سلوک ہوگا۔۔۔ جنرل ضیاء الحق جیسے حکمراں کے آگے دیکھیں کس پائے کے چیف جسٹس سربہ سجود ہوتے ہیں۔ میری مراد جسٹس انوار الحق اور پھر جسٹس محمد حلیم سے ہے۔۔۔

ماضی کے ان تینوں سابقہ جنرلوں نے جو غاصبانہ قبضے کئے، اور جو آئین کی بالا دستی کو بوٹوں سے کچل کر اقتدار میں آئے۔۔۔ کیا یہ اتنی بڑی غداری نہیں تھی کہ انہیں بعد میں آنے والی جوڈیشری اگر علامتی طور پر سزائے موت نہ بھی دیتی تو کم از کم اپنے کسی فیصلے میں انہیں غاصب تو قرار دے ہی سکتی تھی۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سابقہ جنرلوں اور ججوں کی روایت کو بعد کے حکمرانوں نے بھی اور عدالتی بڑوں نے بھی برقرار رکھا۔ 90ء کی پوری دہائی میں سابق صدر غلام اسحاق خان بغیر وردی پہنے یہی سب کرتا رہا۔ اور ہمارے اس وقت کے معزز جج صاحبان اُس پر مہر ثبت کرتے رہے۔

آج جو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت دینے اور پھانسی پر لٹکانے پرشدید رد عمل سامنے آرہا ہے، تو اس کا سبب یہ ہے کہ یہ فیصلہ، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ انتہائی بغض اور انتقام پر مبنی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے جب اکتوبر 1999ئمیں ایک منتخب حکومت کو توڑا تھا تو انہوں نے اعلیٰ عدلیہ سے تین سال کی توسیع بھی لی تھی اور 2002ئمیں انتخابات بھی کرائے تھے۔ جس میں تمام سیاسی جماعتوں نے نہ صرف حصہ لیا بلکہ جنرل مشرف کے ان اقدامات کی پارلیمنٹ نے توثیق بھی کی۔ جنرل پرویز مشرف سے این آر او کرکے ہی پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تھی۔ اور بعد میں جو تسلسل سے انتخابات ہوتے رہے، یہ اسی جنرل پرویز مشرف کی روایت کے تحت تھے۔

About Mujahid Barelvi

Mujahid Barelvi is a veteran journalist from Pakistan. He has a current, daily evening show, "Doosra Pehlu", for CNBC Pakistan. He founded Sonehra Daur Karachi in the 80's. Bankari was a monthly that would help a political activist know about the economic and fiscal realities.

Check Also

Us Ko Ik Shakhs Samjhna To Munasib Hi Nahi

By Ilyas Kabeer