شیخ صاحب ، یہ آپ نہیں کر سکتے ؟ …(2)
وفاقی وزیر ریلوے محترم شیخ رشید کے نام پاکستان کے سب سے بڑے پبلک سیکٹر کے ادارے کے سُدھارکے لئے ایک محبت نامہ لکھا تھا۔ اور اس میں ممتاز بیورو کریٹ نے اپنی کتاب "دو مینار" میں ریلوے کے سنہری دور کے بارے میں جو ارشادات لکھے تھے، وہ بھی شیخ صاحب کی خدمت میں پیش کردئیے تھے۔ ایک زمانہ تھا کہ وزیر، مشیر، سرکاری افسروں کی میز پر اخباروں کامینار اُن کے سامنے ناشتے کی میز پر ہوتا۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے۔ اخبارات اگر آتے بھی ہیں تو سیدھے ردّی کی ٹوکری یا میز پر دھرے رہتے ہیں۔ اسمارٹ فون کھولا۔ اور سوتے، جاگتے سارا دفتر اور گھر اسی پر 24 گھنٹے چلتا ہے۔
اس لئے گزشتہ کالم لکھنے کے بعد سوچا کہ آگے بڑھ جاؤں۔ امریکی حسینہ کی سنسنی خیز ٹوئیٹ پر مرچ مسالہ لگاؤںکہ کراچی کے ممتاز ٹریڈ یونینسٹ اور ریلوے سے چار دہائی سے وابستہ منظور راضی کا پہلے فون اور پھر خط مل گیا۔ متعلقہ ادارے کے وزیر، مشیر، افسران ِ بالا کہاں اس پر توجہ دیں گے۔ مگر ہمارا کام"آہ و فغاں " پہنچانا ہوتا ہے تو ہمارے بھائی منظور راضی کی سنئے: "جہاں تک ریلوے کی موجودہ تباہی کا معاملہ ہے تو میرا تعلق ریلوے سے تقریباً 40سال پر محیط ہے۔ 23سال ملازمت کرتے ہوئے گزر گئے۔ یہ ملازمت بکنگ کلرک اور اسپیشل ٹکٹ ایگزامنر کی حیثیت سے کی۔ میرا تعلق براہ راست مسافروں، چلتی ہوئی ٹرینوں، ریلوے ملازمین کی یونین سے رہا ہے بلکہ میری پیدائش بھی سٹی ریلوے کالونی میں تقسیم سے قبل ہوئی تھی۔ اس وقت پاکستان ریلوے میں ملازمت کرنا باعث ِ فخر تھا۔"پاکستان ریلوے کی عمر اس وقت 73ہورہی ہے جبکہ ریلوے کو ایجاد ہوئے تقریباً دو سو سال سے زائد ہوگئے ہیں۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان کو وراثت میں ملنے والا واحد ادارہ پاکستان ریلوے تھا۔ جو مکمل طور پر بنا بنایا ملا تھا۔ جس کے تقریباً 1لاکھ 80ہزار ملازمین تھے، 12ہزار 6سو24 کلومیٹرٹریک اور اُس وقت850ریلوے اسٹیشن تھے۔ اس کے علاوہ ریلوے کی بڑی بڑی ورکشاپ، ریلوے ہیڈ کو ارٹرز سمیت ڈویژنل سپریٹنڈنٹ کی عمارتیں ریلوے کے بنگلے، کوارٹرز، ریسٹ ہاؤسز، بڑے بڑے اسپتال، اسکولز، بلڈنگز، پھر ریلوے کا ٹریک، انجن بگیاں، مال گاڑی کا ڈبے، آئل کی اسپیشن بگیاں تھیں۔ ملک بھر میں پھیلی ہوئی ریلوے کی بے پناہ زمین موجود تھی، غرض یہ کہ ریلوے ایک فعال اور خودمختار ادارہ تھا۔ اس وقت ریلوے میں مسافر حضرات کے لئے ایئر کنڈیشنڈ سفید رنگ کے ڈبے تھے، برف لگا کر ٹھنڈا کرنا صرف خیبر میل اور بولان میں انتظام تھا، فرسٹ کلاس، سیکنڈ کلاس، انٹر کلاس اور درجہ سوئم کی ٹکٹیں اور ڈبے موجو د تھے۔ یہ ادارہ 1972ء تک بغیر خسارے کے چلتا رہا۔ ریلوے کی آمدنی کا بڑا انحصار گڈز ٹریفک سے ہوتا تھا جہاں کراچی کی بندرگاہ سمیت گڈز اور آئل کی تقریباً 12تا 15ٹرینیں روزانہ اندرون ِ ملک آتی جاتی تھیں، جبکہ ریکارڈ آمدنی ہوتی تھی لیکن حکمرانوں کی عدم توجہی کی وجہ سے یہ ادارہ آہستہ آہستہ تباہی کی طرف چل پڑا۔ ریلوے میں خسارے، چوری، لوٹ مار، کرپشن اور اس کو تباہ کرنے میں جہاں حکومتوں کا ہاتھ رہا، وہاں انتظامیہ اور حکومت کی ناقص منصوبہ بندی نے بھی ریلوے کو تباہ کردیا۔ ــ
" 1۔ سب سے پہلے ریلوے ٹریک کو ڈبل کرنا چاہئے تھا۔ موقع بھی تھا، فنڈ بھی تھا۔ زمین بھی تھی۔ مگر اس کے برخلاف لاہور تا خانیوال الیکٹرک ٹرین سسٹم کو ترجیح دی گئی۔ خانیوال تا لاہور الیکٹرک کا کام کیا گیا۔ اس وقت کروڑوں روپے لاگت آئی۔ الیکٹرک انجن لگائے گئے۔ مگر یہ منصوبہ آگے تک نہ جاسکا۔ اور فیل ہوگیا۔ اور آج تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ ــ"2۔ پھر طے کیا گیا کہ ریلوے میں چھوٹی لائن، نیروگیج پشاور ڈویژن سے ختم کر کے بڑی لائن ڈالی جائے۔ اور اس سلسلہمیں کروڑوں روپیہ خرچ کیا گیا۔ چھوٹی لائن اکھاڑی گئی، اسٹیشن، بلڈنگز اور کوارٹرز بنائے گئے اور پھر اس منصوبے کو چھوڑ دیا گیا۔ اور آج تک یہ نامکمل اور بند پڑا ہوا ہے۔"3۔ بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں طے کیا گیا کہ کراچی کینٹ اسٹیشن کو ایشیاء کا سب سے بڑا اسٹیشن بنایا جائے گا۔ جس کے 16پلٹ فارم ہوں گے۔ اس مقصد کے لئے گولف گراؤنڈ کی زمین حاصل کی گئی۔ ریلوے کا جنرل اسٹور جو کینٹ اسٹیشن کے ساتھ تھا، اس کو ریتی لائن ٹرانسفر کیا گیا۔"4۔ فیصلہ کیا گیا کہ سرکلر ریلوے کو چلا یا جائے۔ 1970ء میں اس منصوبے کو مکمل کیا گیا۔ کئی کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔ مگر آج کراچی سرکلر ریلوے کی کیا حالت آپ کے سامنے ہے ریلوے کو ماڈرن بنانے کے لئے ملازمین کی تنخواہوں کے بل کو جدید طریقہ ٔ کار پر بنانے کے لئے اکاؤنٹس کو ماڈرنائز کیا گیا۔ مگر بعد میں یہ بھی غلط ہوا۔"5۔ ضیاء الحق کے دور میں گڈز ٹریفک کے مقابلے میں جنرل سعید قادر نے جو وفاقی وزیر ریلوے بھی تھے، این ایل سی کو لاکھڑا کیا۔ اور گڈز ٹریفک کا بیڑا غرق کردیا۔"6۔ ریلوے ریزرویشن کو بہتر کرنے کے لئے ریرویشن آفس کو کمپیوٹرائز کرنے کے لئے دفاتر کو (اے سی سی ) کیا گیا۔ کمپیوٹر خریدے گئے جو بعد میں خراب ہوگئے۔ دوسری مرتبہ جل گئے۔ پھر تیسری مرتبہ پھر چلائے گئے اور اب خراب حال ہے۔ بعد میں ریلوے کے لئے پراکس نامی ادارہ تشکیل دیا گیا۔ ریل کوپ بنائی گئی۔ غرض یہ کہ اس قسم کے کئی پراجیکٹس نے ریلوے کا بیڑا غرق کیا۔ اب ریلوے کا یہ حال ہے کہ ریلوے میں تین قسم کی ریزرویشن ہوتی ہیں۔ ایک ریزرویشن ریلوے خود کرتی ہے، دوسری ریزرویشن (سی بی اے) سٹی بکنگ ایجنسی کے تحت ہوتی ہے، تیسری ریزرویشن پراکس نامی پرائیویٹ ادارہ کرتا ہے جبکہ لوگوں کو پھر بھی ریزرویشن آسانی نے نہیں ملتی۔ جبکہ گاڑیاں لیٹ آتی جاتی ہیں، ان میں ٹوٹ پھوٹ، پانی و بجلی کانہ ہونا بلکہ بعض ٹرینوں میں تو اکثر پائے دان غائب ہیں یا ٹوٹے ہوئے ہیں۔ پہلی مرتبہ حکومت کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے اعلان کیا کہ وہ ریلوے پر خصوصی توجہ دیں گے۔ اور اس سلسلے میں انہوں نے لاہور ریلوے ہیڈ کوارٹرز آفس میں افسران سے خطاب کرتے ہوئے ریلوے کی مدد کرنے، اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے 3ارب 17کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا۔ مگر وہ کہاں خرچ ہوا، یہ آج تک نہیں معلوم۔ ان چند گزارشات پہ عمل کر کے ریلوے کی بہتری کے لئے اقدامات کئے جاسکتے ہیں :"فوری طورپر ریلوے ٹریک کو ڈبل کیا جائے"ریلوے ٹریفک کو مضبوط کیا جائے"تمام ٹرینوں میں ڈائننگ کا ر سروس فراہم کی جائے "تیز رفتار ٹرینیں چلائی جائیں "ریلوے ورکشاپس میں نئی کوچز بنائی جائیں "ریلوے کی قیمتی زمین ناجائز قابضین سے خالی کراکر اس پر بڑے بڑے پلازہ تعمیر کر کے کرائے پر چلائے جائیں، نیز بند کئے گئے سیکشنوں کی زرعی زمین پٹے پر دے کر رقم وصول کیاجائے۔"کرپشن اورٹھیکیداری نظام کا خاتمہ کیا جائے اور کمیشن سسٹم ختم کیا جائے۔
"سفر کے دوران سروس کی خرابی، ڈائیننگ لائٹ نہ ہونا، لٹرین میں پانی نہ ہوا، سیٹیں ٹوٹی پھوٹی ہونا، کھڑکی دروازے ٹوٹے ہونا، ریلوے اسٹیشنوں پر ٹھنڈے پانی کے کولر نہ ہونا، پانی کی عدم دستیابی، گاڑیوں میں ڈائننگ کار نہ ہوا۔ پھر اسٹیشنوں پر اچھا اور معیاری کھانا نہ ہونا، خراب چائے اور کولڈ ڈرنک کی فراہمی، ڈبوں میں صفائی ستھرائی کا فقدان شامل ہے، ریلوے کو بہتر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ :
"ریزرویشن کرنے والے ادارے، ریل کوپ اور سٹی بکنگ ایجنسیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ افسران کی فوج ظفر موج کو کم اور اچھے اور ایمان دار افسران کی حوصلہ افزائی کی جائے، ریسٹ ہاؤسز کو ختم کر کے ریلوے ملازمین کی سہولتیں بحال کرنا۔ ریلوے کے اعداد و شمار کے مطابق 1959ء میں کل ریلوے ملازمین کی تعداد 165892تھی جبکہ 1984-85میں 125416تھی۔ پھر 1996-97ء میں 104281تھی۔ دسمبر1999ء میں گھٹ کر 94000رہ گئی ہے۔ جبکہ نومبر2001ء میں ریلوے ملازمین کی تعداد کم ہو کر 80ہزا ر رہ گئی ہے اور اب یعنی 2020ء میں 76ہزار ہے۔ جبکہ موجودہ خسارہ 134ارب روپے ہے۔"
شیخ صاحب یہ کر سکتے ہیں یا نہیں، ہم تو عرض کئے چلتے ہیں۔