Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Mujahid Barelvi/
  3. 5 July 1977 (2)

5 July 1977 (2)

5 جولائی 1977ء (2)

وقفہ آگیا?خدا کا شکر ہے اس کا سبب کورونانہیں بنا? مگر اپنے ارد گرد عزیز اور احباب اتنے متاثر ہوئے کہ قلم پکڑ ا نہیں جارہا تھا? دعویٰ تو کیا جارہا ہے کہ ایکٹو کیسز کی تعداد میں 43 فیصد کمی ہوئی ہے۔ مگر کورونا کے خوف اور خطرے نے ہر گھر میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔

ہفتہ گزشتہ میں 5 جولائی 1977 میں جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں بھٹو حکومت کے خاتمے، اور پھر بھٹو کے پھانسی لگنے کی تمہید باندھتے ہوئے، سندھ اور پنجاب کے سابق آئی جی حاجی حبیب الرحمان کی خود نوشت "کیا کیا نہ دیکھا تھا "کا سِرا ہی پکڑا تھا کہ ? کالم آخری سطروں پر آگیا۔

ایک مہربان دوست نے شکوہ بھی کیا کہ اب تاریخ کا حوالہ بھی ماضی کے پولیسیوں اور جنرلوں کی سوانح سے دیا جائے گا۔ معذرت کے ساتھ ایک تو مستند اور سینیئر صحافی منیر احمد منیر نے یہ کتاب مرتب کی ہے۔ دہائی قبل سابق آئی جی اور پی پی کے خاص آدمی راؤ ارشید نے بھی "جو میں نے دیکھا" وہ ریکارڈ فروخت ہوئی تھی، اور اس کی تردید بھی کبھی اور کہیں نہیں ہوئی ? سابق آئی جی حبیب الرحمان کی سوانح کو بھی شائع ہوئے سال ہونے کو آرہا ہے ? نہ کہیں تردید ہوئی اور نہ کوئی مقدمہ دائر ہوا۔ 5 جولائی 1977ء کے بیشتر کردار اب بھی زندہ ہیں۔ غلام مصطفی کھر، ممتاز بھٹو، سیف اللہ خاندان، تہمینہ درانی?

یوں بھی جب حاجی حبیب الرحمان یہ لکھتے ہیں کہ 5 جولائی کو بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی تیار ی مارچ 1977کے الیکشن سے پہلے ہی تیار ہوگئی تھی اور 30 جون کو مرحوم جنرل ضیاء الحق نے جنرل فیض علی چشتی کو ساری ذمہ داری سونپتے ہوئے سرگوشی میں یہ بھی کہہ دیا تھا، "مرشد مروا نہ دینا"۔۔۔ آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمان اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 563 پر لکھتے ہیں، اور یہ وہ عینی شاہد کی حیثیت سے 5 جولائی 1977سے صرف دو ماہ پہلے لکھ رہے ہیں کہ ضیاء ٹولہ کس مکاری سے سازش کررہاتھا:

"ہماری ہر ہفتے میٹنگ ہوتی تھی۔ 17مئی 1977ء کو ہماری اسلام آباد میٹنگ تھی ? میں تھا بطور آئی جی، سعید قریشی چیف سکریٹری اور جتوئی صاحب چیف منسٹر? ہم تینوں سندھ سے اور پنجاب کے چیف منسٹر صادق قریشی، چیف سکریٹری بریگیڈیئر مظفر اور آئی جی چوہدری فضل حق۔ ہمارے سامنے بیٹھی ہوئی تھی آرمی کی ٹیم۔

جنرل ضیاء الحق، جنرل (فیض) علی چشتی، جنرل سوار خاں، ایک جنرل قاضی بھی تھے اور پھر کمانڈر اِن چیف ایئر فورس کے، ایئر مارشل ذوالفقار اور نیوی کے ایڈمرل، وہ بھی بلائے ہوئے تھے۔

"ہماری میٹنگ شروع ہوئی ساڑھے چھ بجے۔ پالیسی یہ تھی کہ ہم سارے بیٹھ کے سچویشن کا تجزیہ کریں گے اور ڈِسکس کر کے یہ فیصلہ ہونا تھا کہ تینوں چیف (آرمی، نیوی، ایئر فورس ) اپوزیشن کے پاس جائیں گے اور اُن کو کہیں گے کہ ہم آپ سے گذارش کرتے ہیں قومی مفاد کی خاطر، پاکستان کی خاطر، کیونکہ رپورٹیں آرہی ہیں کہ شہری زندگی بالکل مفلوج ہوگئی ہے۔

کراچی پورٹ بند ہوگئی ہے۔ کوئی جہاز آنہیں رہا۔ کوئی جا نہیں رہا۔ اگر یہ صورتحال ایک دو ہفتے اور رہی تو پاکستان کی economyتباہ ہوجائے گی، ختم ہوجائے گی، پلیز مہربانی فرما کر کوئی فیصلہ کریں۔ مشکل کیا تھی، پرائم منسٹر اسی بات پر اڑے ہوئے تھے کہ میں فیصلہ اُس وقت کروں گا جب یہ میرے ساتھ آکر ٹیبل پر چائے پئیں۔ بھٹو صاحب کہتے تھے کہ میں نے پوری کوشش کرلی ہے کہ یہ ٹیبل پر آکے مجھ سے لے جائیں جو شرائط پیش کریں گے میں مان جاؤں گا۔ لیکن گلی کوچوں میں فیصلہ نہیں کرنا چاہتا۔ ہمارے پاس اسمبلی ہے الیکٹڈ۔ جو کچھ ہورہا ہے، شائد میں ساری شرطیں مان لوں، لیکن یہ بات تو کریں۔

قوم کو عادت پڑ گئی ہے، گلی کوچوں میں ہنگامے کرنے کی، تو تینوں چیف اِن کے پاس جائیں گے، اِن سے requestکریں گے۔ اگر وہ نہیں مانتے تو اُن کو وارننگ دیں گے کہ آپ دو دن کے اندر اندر پرائم منسٹر کے ساتھ ٹیبل ٹاک پر نہیں آئے تو We will use force(ہم طاقت استعمال کریں گے)۔ اور اُس فورس کے ذمہ دار صرف آپ ہوں گے۔ تو ہم بھٹو صاحب کا انتظار کررہے تھے۔ لیکن وہ لیٹ ہوگئے۔ کبھی لیٹ نہیں ہوتے تھے۔ اِس سے زیادہ امپارٹنٹ کیا میٹنگ ہوسکتی تھی۔ ساری آرمی کے ٹاپ کلاس بیٹھے ہوئے ہیں۔

دونوں صوبوں کے چیف منسٹر، آئی جی اور چیف سکریٹری بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ بات آرہی ہے قوم کے سامنے پہلی بار۔ اچھا، دروازہ کھلا، بھٹو صاحب اندر داخل ہوئے۔ آکے انہوں نے فائلیں میز پر پھینکیں اور کہا:

Gentlemen، I have decided to resign. My brother Zia ul Haq، you take over. The bloody people are not going to listen to me.There is no way out.

(حضرات، میں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے، اور میرے بھائی ضیاء الحق آپ اقتدار سنبھالیں۔ ظالم لوگ میری بات سننے کو تیار نہیں۔ اب اس کا یہی حل ہے۔ )

"جب انہوں نے یہ کہا، میرا تو رنگ فق ہوگیا۔ اب دیکھیں، ضیاء الحق اٹھے، دونوں ہاتھ ناف پر باندھے۔ اور یوں جھکے اور کہنے لگے:"سر، آپ نے کیا عجیب سی بات کردی ہے۔ سر آپ پاکستان کے پرائم منسٹر ہیں۔ آپ قوم کے لیڈر ہیں۔ آپ فخرِ ایشیاء ہیں۔ آپ اسلامک امہ کے چیئرمین ہیں۔ تمام اسلامی ملکوں کی آنکھیں آپ پر لگی ہوئی ہیں۔ سر، میں آپ کے ساتھ ہوں، پاکستان کی فوج آپ کے ساتھ ہے۔ آپ نے یہ کیا بات کردی ہے۔" یہ کہا اور بیٹھ گئے۔

"چشتی اٹھے، جنرل فیض علی چشتی۔ پہلے تو انہوں نے مونچھوں پر ہاتھ پھیرا، یہ ان کی عادت تھی اورانہوں نے ایسی بات کی کہ بالکل پانسہ الٹ گیا۔ انہوں نے کہا : سر، میں بحیثیت کور کمانڈر راولپنڈی آپ کو اپنی وفاداری کی یقین دہانی کراتا ہوں لیکن میں آپ کو اپنے کور کی لائلٹی ایشور نہیں کرتا۔"

"باقی کور کمانڈر بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں اپنی ذات کے متعلق کہتا ہوں کہ میں آپ کے ساتھ ہوں۔ آپ جہاں کہیں گے میں جاؤں گا لیکن میرے جو دوسرے افسر ہیں، جرنیل ہیں، ڈِو کمانڈر ہیں، بریگیڈ کمانڈر ہیں، اُن کی لائلٹی میں آپ کو ایشور نہیں کرتا، اس لئے کہ اُن کے ذہنوں میں rightly or wrongly یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ آپ نے الیکشن rigکئے ہیں۔ صحیح ہے یا غلط، لیکن اُن کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ آپ نے الیکشن rigکئے ہیں، اس لئے میں ان کی طرف سے آپ کو ایشورنس نہیں دوں گا۔"

"اب ضیاء الحق کا اپنا کورکمانڈرضیاء الحق کے برعکس یہ کہہ رہا ہے۔"(جاری ہے)

About Mujahid Barelvi

Mujahid Barelvi is a veteran journalist from Pakistan. He has a current, daily evening show, "Doosra Pehlu", for CNBC Pakistan. He founded Sonehra Daur Karachi in the 80's. Bankari was a monthly that would help a political activist know about the economic and fiscal realities.

Check Also

Balcony

By Khansa Saeed