یہاں سے، وہاں تک
چوری، مقامی قبائل اور برادریوں کا فخر، پیشہ، انتقام، کبھی حریفوں کو نیچا دکھانے کا حربہ تھا، جاگیردار اور بڑے زمیں داروں کی سرپرستی میں آکر اس نے ادارے کی سی شکل اختیار کرلی تھی۔ اس میں بڑی حد تک نظم وضبط بھی پیدا کرلیا گیا تھا، چور گویا بڑے زمینداروں کے لاڈلے فنکار تھے، ان کی سرپرستی اسی طرح کی جاتی جس طرح بڑے نواب اور بادشاہ، شاعروں، ادیبوں، موسیقاروں اوردیگر ماہرینِ فن کی کیا کرتے تھے۔
دوردراز دیہاتوں میں چوروں کی سرپرستی کرنے والا رسہ گیر اور شہروں میں کم ضرر رساں جرائم کے اڈے یا پاڑے کا دادا گیر، دراصل ایک ہی قبیلے کے سرپرست ہیں۔ ان میں بس اتنا ہی فرق ہے جو ایک دیہاتی اور شہری میں ہونا چاہیے۔
ایک پرانے شہروں کی تنگ گلیوں کا باسی، تو دوسرا جنگل، بیلے، کھلی چراگاہوں بڑی حویلی اور وسیع وعریض اونچی دیواروں کے ڈیرے میں رہنے والا۔ جس طرح مختلف شہروں میں پاڑے کا کلچر اور پاڑے داروں کی نفسیات اور کام کی نوعیت میں تنوع ہے۔ اسی طرح رسہ گیری میں بھی بڑی وسعت پائی جاتی ہے، ہر علاقے اور صوبے میں اس کا رنگ ڈھنگ تھوڑا بدل جاتا ہے، جیسے ہر چالیس پچاس میل کے بعد لوگوں کی زبان اور لہجے بدلتے ہیں، اسی طرح رسہ گیری کچھ نہ کچھ بدل جاتی ہے لیکن اس کے بنیادی اصول اور قاعدے واضح ہیں، ان میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔
راوی کا مِہر، چناب کا مَہر، جہلم ندی پار کرکے "مہار" کہلاتا ہے، پنجاب کے آخری ضلع رحیم یار خان سے نکل کر سندھ میں داخل ہوں تو اس کا کمان دار سائیں یا سردار بن جاتا مگر یہاں پہنچ کر یہ پنجاب کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے، اس لیے کہ اب سردار کی سرپرستی میں چور نہیں ڈاکو ہیں، جو لاٹھی اور برچھی کی بجائے تلوار، خنجر اور کلہاڑیوں سے مسلح ہیں، چوروں اور ڈاکوؤں کی سرپرستی زمینداروں کے پاس ہے لیکن شہروں میں پاڑے کے کرتا دھرتا "پہلوان" ہوتے ہیں، استاد پہلوان، پاڑے یا ڈیرے کے سرپرستوں میں خاص طرح کی وضعداری قدرِ مشترک ہے، تحمل، بردباری، فیاضی، قوت برداشت، کارکنوں کی عزتِ نفس اور ضروریات کا پاس ولحاظ، کارکنوں کی کڑی تربیت کی جاتی۔ پاڑے کا ممبر ہو یا ڈیرے کا وہ اپنے اردگرد واردات کرنا تو دور کی بات، اپنے علاقے میں چوری، سینہ زوری، غنڈہ گردی ہونے بھی نہیں دیتا۔
پاڑے کے کلچر کو جاننے اور سمجھنے کے لیے "سب رنگ ڈائجسٹ" میں "بازی گر" کے نام سے ایک طویل کہانی چھپتی رہی۔ ہمارے زمانہ ٔ طالب علمی میں شاید کوئی کہانی اس طرح پڑھی گئی ہو، ہمارے دوست معروف ٹی وی میزبان اور کالم نویس "رؤف کلاسرا" تو آج تک اس کے جادو سے نکل نہیں سکے۔ اس داستان کو حال ہی میں کتابی شکل مِل گئی ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار "بٹھل" اگرچہ فرضی ہے پھر بھی پاڑے کے داداؤں کا صحیح نمائندہ۔ اسی طرح اردو ڈائجسٹ میں ایک کہانی نے "شکاری" کے نام سے بڑی شہرت پائی، "شکاری "بہاول پور کے ایک لکھاری لکھا کرتے تھے، ان کی وفات کے بعد فیصل آباد سے میاں محبوب جاوید تادیر اس کی اقساط لکھتے رہے۔ یہ داستان رسہ گیر اور اس کے کارندوں کے طریقِ کار کی عین عکاس ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک کے دوران دو پاڑے اور ان کے دادا سے تھوڑی راہ ورسم کا براہِ راست تجربہ ہے۔ ایک اڈہ پرانے شہر میں تھا، دوسرا داتا دربار کے پہلو میں۔ دونوں پہلوان تھے، اول الذکر دودھ دہی بیچا کرتے اور دوسرے کا چپل بنانے کا کارخانہ تھا، بازی گر " میں "بٹھل" متاثر کرنے والا شاندار کردار ہے، جسے ایک دفعہ پڑھنے کے بعد بھلایا نہیں جاسکتا مگر ہماری داستان میں ضلع جھنگ کا رسہ گیر"شیرا" جو دوسری طرف اپنے ہم پیشہ وہم مشرب سے گجرات میں جڑا ہوا تھا، بڑا ہی جان دار، شاندار، واقعاتی کردار ہے، جس کو چلتے پھرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
فرضی بٹھل کی ساری خوبیاں اس زندہ انسان میں موجود تھیں۔ متناسب قد کاٹھ، قدرے فربہ اندام، سرخ وسفید رنگت، بارعب شخصیت، روشن آنکھوں میں ٹٹولتی ہوئی نظریں، کلف لگا سفید لٹھے کا کھڑ کھڑاتا ہوا کرتا اور تہہ بند بڑے سے سر پر بہت بڑا دودھیا پگڑ، اس کے دبدبے اور شان کو بڑھاتا ہوا۔ اس کی برادری اور ارد گرد کے زمینداراسے بڑا "جرنیل آدمی" کہہ کر یاد کرتے ہیں، بازی گر، لکھنے والے نے "دادا گیر" سے "گیر" ہٹا کر "دادا" بنادیا۔ گیر کے ہٹ جانے سے بٹھل کی توقیر اور رعب میں اضافہ ہوگیا، اگر ہم اپنے کردار سے گیر ہٹائیں تو خالی "رسہ " رہ گیا، بے معنی اور مہمل۔ رسہ گیر لفظ میں وہ رعب اور وقار نہیں جو حقیقتاً ہمارے علاقے کے رسہ گیر "شیرا" میں تھا۔
شیرا کو انگریز حاکم کے دربار تک رسائی تھی، کمشنر، ڈپٹی کمشنر کے ہاں اسے کرسی پیش کی جاتی۔ ہر تہوار پر اس کی "ڈالی" کو شکرئیے کے ساتھ قبول کیا جاتا۔ ضلع بھر کے پولیس افسران اس کے مہمان بنتے۔ اس کی سفارش مانی جاتی، اس کے کہے کو کوئی سرکاری افسر ٹالتا نہیں تھا، سیاستدان ووٹ کی خاطر پھیرے لگاتے، پاکستان بننے کے بعد وزیر، کبیر کیا وزیراعلیٰ تک اسے آسانی رسائی حاصل تھی، سرکار کے ساتھ تعاون اور علاقے کی بہبود میں فیاضانہ حصے لیتے۔ شیرا اور اس نوع کے دیگر زمینداروں نے اپنے علاقے میں گویا بادشاہت قائم کرلی تھی، اپنی ریاست، جوبڑی اور حقیقی ریاست کے اندر ریاست تھی لیکن یہ چھوٹی ریاست، ریاست سے کبھی نہیں ٹکرائی۔ ان کی اپنی حدیں اور سرحدیں تھیں۔ طاقت واختیار تھا، حریف اور حلیف تھے، دوستیاں اور دشمنیاں تھیں، عروج وزوال تھا، مسابقت تھی، مقابلہ تھا، اپنی دولت وثروت، طاقت واختیار کے اظہار کے لیے جدا طریقے تھے، شیرا کے اصطبل میں بہترین گھوڑے، صحت مند بھینسیں، ہرنسل کے شاندار بیلوں کی جوڑیاں مگر ان کا فخر گھوڑوں میں تھا، دوڑ کے میدانوں میں، میدان مارتے ہوئے، لاہور اور سبّی تک سالانہ میلوں میں ان کے گھوڑے کے ناچ اور دوسرے کرتب میں ہمیشہ پہلا انعام پایا کرتے تھے، ان کا خاندان گھڑ دوڑ، نیزہ بازی اور گھوڑوں کے ناچ کی روایت نبھا رہا ہے۔
سبک رفتار گھوڑے، تازی کُتے، طاقت ور بیل جو کھیت میں ہل چلانے کا مقابلہ کبھی نہ ہاریں اور زیادہ دودھ دینے والی بھینسیں، یہی ان کے فخر مقابلے، مسابقت اور دشمنی کا میدان ہے۔ اسی میدان میں ان کی دوستیاں شروع ہوتیں، دشمنیاں پروان چڑھتیں۔ ان کے عروج اور زوال کا سفر بھی یہاں سے شروع ہوکر یہیں پر ختم ہوتا ہے۔
ان کے مقابلے دلچسپ، دوستیاں حیران کن، دشمنیاں منفرد اور عروج وزوال کے انداز پورے جہاں سے جدا ہیں۔ یہ مقابلے دن کی روشنی میلوں کی رونق بڑھاتے ہیں لیکن اکثر ان کا انجام رات کی تاریکی اور پر اسرار خاموشی میں ہوتا ہے۔