وہ نہیں جائے گا
عمران خان کو ہٹانا اتنا بھی آسان نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں، وہ کوئی نواز شریف نہیں ہے کہ دن کو دھمکی دے اور رات کو پائوں پڑ جائے۔ اگر اس کو کسی نے ہٹانے کی کوشش کی تو وہ ایسی ٹکر لے گا کہ لوگ اگلے پچھلے سب ٹکرائو بھول جائیں گے اور یہ بات اسٹیبلشمنٹ بھی اچھی طرح جانتی ہے(اعتزاز احسن)جو کچھ اپوزیشن جماعتیں ہمارے سامنے ہیں، ان کے کارکنوں کی تعداد اور عوام میں مقبولیت اس سے توقع رکھنا کہ وہ احتجاج، جلسے اور جلوس کے ساتھ عمران خاں کو زچ کر سکتے ہیں یا اسمبلیوں کے اندر عدم اعتماد لا سکتے ہیں یہ کسی طور ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
عمران خاں نے تن تنہا صرف اپنے نوجوان کارکنوں کے ہمراہ، دو تہائی کی حکومت جسے پاکستان بھر میں ساری سیاسی پارٹیوں اور اردگرد کی بیرونی ایجنسیوں تک کی حمایت حاصل تھی انہیں جڑوں سے اکھاڑ کر باہر پھینک دیا۔ وہ اپنی حکومت بچا سکے نہ انتخاب اور اس کے بعد اس کا سامنا کرنے کی جرات ہوئی۔ ان کی حالیہ کوشش بھی سابق کی طرح نامرادی پر ختم ہو جائے گی۔ اس کالم کے آغاز میں پیپلز پارٹی کے ممتاز رہنما اعتزاز احسن کا ٹویٹ نقل کیا ہے۔ اعتزاز احسن عمران خان کے ہمسائے ہیں اور عمر میں ان سے سات آٹھ سال بڑے، انہوں نے اس کا بچپن، لڑکپن، جوانی، کھیل اور سیاست کو قریب سے دیکھا وہ اس عزم و ارادے، خوبیوں، خامیوں کو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں۔ ان کی رائے کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
متحدہ اپوزیشن، ایوان کے اندر ہو یا باہر پی ڈی ایم پیپلز پارٹی سمیت انہیں اپنی طاقت اور اہلیت پر خود بھی زیادہ اعتماد نہیں، وہ بزعم خود پراکسی بننے کی کوشش میں ہے۔ گزشتہ دنوں مسلم لیگ کے ایک با ہوش ممبر قومی اسمبلی سے ملاقات رہی۔ پہلے پہل وہ سیاسی حالات کے بارے رائے جاننے کے لئے سوالات کرتے رہے۔ عرض کیا عمران خاں اگر چاہے تو اپنی حکومت کی مدت بآسانی پوری کر لے گا مگر خیال کیا جاتاہے کہ وہ بلدیاتی انتخاب کروانے کی بجائے قومی انتخابات پہلے کروانا چا ہیں گے، اس کے لئے وہ مناسب وقت اور موسم کے انتظار میں ہے۔ اگلی حکومت بھی اسی کی ہو گی۔ اس کی وجہ حکومت کی کارکردگی سے اپوزیشن کی نااہلی اور بری شہرت کو زیادہ دخل ہے۔ دونوں بڑی پارٹیوں میں پیپلز پارٹی کی ساری توجہ دیہی سندھ میں اپنی صوبائی سیٹیں بچانے پر مرکوز رہے گی یہ غیر ممکن نظر آتا ہے کہ وہ آئندہ مدت کے لئے سندھ کی حکومت حاصل کر سکے گی۔
رہی مسلم لیگ ن، اس کی قیادت فرار ہو کر پاکستان سے باہر جا چکی ہے ملک کے اندر جو پارٹی کی رہنمائی کے لئے موجود ہیں ان کی اولین کوشش اڑان بھرتے لندن تک جانے کی ہے پھر کبھی لوٹ کے نہ آنے کے لئے، وہ تو عمران خا ن ہے جس نے ان کی راہ روک رکھی ہے، ورنہ وہ کب کے سدھار گئے ہوتے۔ الیکشن کے دوران خاندان کی لڑائی بیچ چوراہے کے لڑی جائے گی۔ اور اس لڑائی میں مریم اور نواز شریف کے مقابل حمزہ اور شہباز شریف کا پلڑا بھاری رہے گا۔ کیونکہ ممران اسمبلی کے پارٹی نشان کے لئے مرکز میں شہباز اور پنجاب میں حمزہ کے دستخطوں کی ضرورت ہو گی نہ کہ نائب صدر اور سیاست کے نااہل قرار پائے رہنما کی۔
ویسے بھی مسلم لیگ کا حلقہ اثر پنجاب کے چند اضلاع تک ہے اور الیکشن میں حصہ لینے والے مقامی لیڈر جو عوام سے رابطہ اور اثرورسوخ کے حامل ہیں ان میں بہت سے تحریک انصاف کی ٹکٹ کے عوض پارٹی چھوڑنے پر تیار ہو سکتے ہیں، وہ بولے، نہیں ایسا نہیں ہو گا، کہا اچھا دل پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری سے کہیے اگر آپ کو ایسی پیشکش کی جائے تو کیا کرو گے؟ اس پر وہ سوچتے رہے بولے کچھ نہیں، کیوں؟ اس لئے کہ پوچھنے والے کو ان کے حالات کی خبر ہے، پھر وہ میرے کان کے قریب آ کر آہستہ سے گویا ہوئے، جنرل باجوہ اور عمران کے درمیان اختلافات پیدا ہو چکے ہیں، اب اسٹیبلشمنٹ پہلے کی طرح اس کی پشت پر نہیں ہے وہ لوگ دوسری آپشن پر سنجیدگی سے غور کرنے لگے ہیں۔ گویا مسلم لیگ نواز کی امیدوں کا مرکز و محور اب بھی فوج کی درپردہ حمایت پر ہے، اپنی مقبولیت کوشش یا کارکردگی پر نہیں۔
عمران خان کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ کسی دوسری سیاسی جماعت کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کرے گی۔ اس کی امید رکھنا سادگی کی انتہا بلکہ بیوقوفی کی آخری حد ہے۔ عمران خان نے اپنی مختصر مدت حکومت میں بہت سے بحران دیکھ لئے، ایسے بحران جس سے بہت سی حکومتیں نمٹنے سے قاصر رہیں وہ ان بحرانوں میں بآسانی نکل گیا، اس بحران کو بھی ٹال دے گا، وہ مضبوط اعصاب کے ساتھ دھن کا پکا ہے کچھ کھونے کا اسے کوئی خوف نہیں اس کے پاس ہے کیا؟ جو کھو دے گا۔
خان نہ کہیں جا رہے ہیں نہ آرام سے ہیں۔ ان کے مسائل فوج سے نہیں نہ مستقبل قریب میں ہونگے۔ فوج جن خطرات کا سامنا کر رہی ہے بڑی جرات، دلیری سے کر رہی ہے وہ ملک کے اندر نہیں باہر سے ہیں، باہر کے خطرے سے نمٹنے کے لئے پاکستان کے پاس عمران سے بہتر کوئی سیاسی قیادت میسر نہیں۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ہمارے اردگرد جس طرح کے خطرات ہیں ان سے عہدہ برآ ہونے کیلئے اس حکومت کو جاری رکھنے کی ضرورت خود ریاست کو ہے۔ ورنہ عمران نے ایک سے زیادہ مرتبہ اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخاب میں جانے کا فیصلہ کیا تھا، اس فیصلے کو بدلوانے کے لئے خود اسٹیبلشمنٹ کو ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑا تھا۔ وہ حالات ابھی تک جوں کے توں ہیں۔ عمران خان کی شکل میں بہترین سیاسی قیادت موجود ہے جو ا امریکہ کو اس کی زبان میں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ نہ اس کی زبان میں لرزش نہ قدم ڈگمگائیں کیا پاکستان کے لئے اس بحران میں یہ خدمت شہباز شریف اور بلاول انجام دیں گے؟
پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی سمیت جماعت اسلامی بھی مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کے لئے نکل چکی ہیں۔ یہ احتجاجی خود بھی جانتے کہ مہنگائی صرف پاکستان ہی کا مسئلہ نہیں نہ ہی عمران خاں کی پیدا کر دہ ہے۔ جس طرح کورونا افغانستان اور امریکہ کے علاوہ مہنگائی کے خلاف حکومت نے اقدامات کئے یہ مسلم لیگ یا پیپیز پارٹی کے بس کی بات نہیں تھی۔ ان کے آقا و مولا امریکہ اور گہرے دوست مودی کی اینٹ کے جواب میں پتھر دے مارنا اسی کا کارنامہ ہے۔
موجودہ بحران اور اپوزیشن کی تحریک عمران کی حکومت کا آخری دن ہے۔ اس بحران کو آنا ہی تھا، ویسے بھی یہ تین مہینے یعنی اکتوبر، نومبر، دسمبر سیاسی سرگرمیوں اور احتجاجی پیشہ وروں کے خاص ہے۔ ہ سال یہ دن انہیں مصروفیات میں گزرتے ہیں، حکومت اس مشکل سے گزر جائے گی۔
موجودہ حالات اور آنے والے دنوں کیلئے تحریک انصاف کے پاس بہترین آپشن یہ ہے کہ وہ کسی مصلحت کے بغیر کھل کر کھیلے اپنی مرضی کا کھیل، اتحادیوں کی بلیک میل اور اپوزیشن کی مخالفت کو کسی خاطر میں لائے بغیر ان سب کو مکمل شکست ہو جائیگی یا وہ اس قدر زچ ہو جائیں کہ عمران خاں سے جان جھڑانے کیلئے تحریک عدم اعتماد کا سہارا لیں۔ حکومت کے اتحادیوں کو ساتھ ملا کر عمران خاں اپنے ہاتھوں اسمبلی توڑنے کی بجائے، اپوزیشن کے ہاتھوں انجام کو پہنچنے دے تو پھر جو ہو گا وہ سب دیکھیں گے، کیا دیکھیں گے؟