خان کا متبادل
کئی عشروں کے بعد پاکستان میں بالکل نئی سیاسی صورتحال پیدا ہوچکی ہے"اسٹیٹس کو "برقرار نہیں رہ سکا، ملک کے اندر ہی نہیں، ہمارے ارد گرد اور پور ا کرہ ارض بھی بدل رہا ہے، نئی نسل کی سوچ، اندازے فکر، امیدیں اور طریقہ کار بھی بہت کچھ پہلے سے جدا اور انوکھا ہے۔ گذشتہ پانچ دہائیوں سے قومی سیاست پر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی اجارہ داری رہی، دونوں ایک دوسرے کے متبادل اور حریف، ان کے درمیان مقابلہ، قومی سلامتی، عوام کی بھلائی، بہتر قانون سازی یا معاشی ترقی کی بجائے اپنی اپنی قیادت کے لیے بذریعہ سیاست دولت وثروت میں اضافے کا مقابلہ تھا، حسن اتفاق کہ دونوں سیاسی جماعتوں نے فوجی حکومتوں کی کوکھ سے جنم لیا، دونوں کی پیدا کردہ قیادت کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا، وہ اپنے بل پر مقامی انتخاب میں کونسلر منتخب ہونے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے تھے، فوجی حکومتوں نے کسی استحقاق کے بغیر انہیں وزارتوں سے نوازا، ضلعی انتظامیہ کے تعاون اور سرپرستی نے انہیں سیاستدان بنادیا۔
ایک کی ناکامی اور نااہلی سے دوسرے کو موقع ملتا رہا، ناکام، نااہل، بدعنوان ہونے کے باوجود بہتر ترجیح دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے وہ زندہ رہی اور اقتدار کا کھیل دونوں کے درمیان چلتا رہا، ملک میں تین بلکہ چار دفعہ سیاستدانوں کے تلوّن، لڑائی جھگڑے، نالائقی، آمرانہ رویے اور لوٹ مار کی وجہ سے ملک میں مارشل لاء نافذ ہوا، ہر مارشل لاء اپنے پیچھے بدسے بدترین وراثت چھوڑ گیا، مارشل لاء یا فوجی حکومت عارضی بندوبست ہے، سیاسی حکومت کا متبادل نہیں، موجودہ حالات مارشل لاء کے لیے سازگار نہیں، نہ ہی دفاعی ادارے سیاست میں ملوث ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں، اگرچہ اپوزیشن کی خواہش ہے کہ ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ نوبت مارشل لاء تک آجائے مگر موجودہ حکو مت کو دفاعی اور خارجی محاذ پر بہترین کامیابیاں مل رہی ہیں، ایوب اور ضیاء الحق کی فوجی حکومتوں کے بعد پہلی مرتبہ کسی سیاسی حکومت کی موجودگی میں دفاعی ادارے نہ صرف پھل پھول رہے ہیں بلکہ خود انحصاری اور کفالت نے ان کے اعتماد میں قابل ذکر حد تک اضافہ کیاہے، یورپ اور امریکہ کا رویہ جارحانہ نہیں رہا، انڈیا کو ہر محاذ پر ہزیمت اٹھانا پڑی، پاکستان اور چین کے اتحاد نے دفاعی اور خارجہ تعلقات کی حکمت عملی کو استحکام بخشا، وہ باہمی اعتماد اور احترام کے ساتھ چل رہے ہیں، افغانستان میں بھارتی سازشوں پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے، را کی جارحانہ سازشیں اور خفیہ جنگوں کی حکمت عملی الٹ دی گئی ہے، پاکستان کی سرحدیں ہوائی ہوں، زمینی یا سمندری ہمیشہ کے مقابلے میں زیادہ محفوظ بنادی گئی ہے، ایران کے ساتھ تعلقات میں سردمہری ختم ہوگئی ہے، پاکستان کے دفاعی شعبے اور پیداوار میں قابل ذکر ترقی ہورہی ہے، دفاعی ہتھیاروں کی برآمدات اور آئی ٹی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، ان کامیابیوں کو مہنگائی اور مقامی اداروں میں بدعنوانی نے گہنارکھا ہے، بنیادی طور پر یہ دونوں بیماریاں صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے، اور صوبائی حکومتوں کے سربراہ عمران خان کے نامزد اور چہیتے سمجھے جاتے ہیں چنانچہ ان کی ناکامی عمران خان کے نام لکھی جاتی ہے۔
جمہوریت کی ناز برداری میں ہم نے مافیاز کو پنپنے کا موقع دیا، غداری کے مرتکب اور بھارتی ٹینکوں میں بیٹھ اقتدار میں آنے کا دعوی کرنے والوں کو وزارتیں سونپی جاتی رہی، عالمی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر امریکہ کے لے پالک اور مفادات کے محافظوں کو باری باری پانچ سال تک ملک کو لوٹنے کا موقع دیا ہے، ایم کیو ایم جو متعدد خفیہ ایجنسیوں کی "پراکسی "بن چکی تھی، اسے کراچی جیسے شہر میں بیسیوں برس کھل کھیلنے، غارت گری کرنے اور لوٹ مار مچائے رکھنے کا موقع دیا گیا، جیوے سندھ جیسے تنظیموں کو الیکشن لڑنے اور اسمبلیوں میں جانے کی اجازت بخشی، دہشت گرد فرقہ پرستوں کو اسمبلیوں میں بھیجا، وحشت بربریت نے ایک لاکھ پاکستانیوں کی جانیں نگل لیں، دوسو ارب ڈالر سے زیادہ نقصان ہوا، انہی سیاسی دہشت گردوں میں دس برس فوجی سربراہ پرویز مشرف کے بھی ہیں جو امن وامان قائم کرنے، کرپشن ختم کرنے کے نعروں کے ساتھ وارد ہوا اور ایم کیو ایم جسے دہشت گرد اور فسادی کہہ کر الطاف حسین کو لندن میں قتل کروانے کی اجازت کے طالب تھے، اقتدار میں آکر ان کا سرپرست بن گیا اور وکلاء تحریک کے دوران انہی کے ذریعے کراچی میں خون کی ہولی کھیلی اور آخر میں بیرونی مداخلت پر انہی لٹیروں سے این آر او کرکے انہیں دس برس کے لیے پھر پاکستان پر مسلط کر دیاگیا، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ان کے ساتھ پاسنگ کے طور پر لپٹی، ایم کیو ایم، فضل الرحمن، اے این پی اور اچکزئی ٹائپ سیاستدان سب بہتی گنگا میں ہاتھ رنگتے رہے، ان کے گھر دولت سے بھر گئے اور صحن پھیل کر پورے کے پورے صوبوں کو نگل گئے، اسٹیبلشمنٹ نے سارا کھیل آنکھوں سے دیکھا، بھگتا اور خاموش تماشائی رہنا پڑا کہ حالات ان کے لیے سازگار نہ تھے، پوری دنیا میں دوست کیا دشمن سب ان نام نہاد جمہوری حکمرانوں کے سر پرست تھے، اسٹیبلشمنٹ میں ایک قلیل تعداد بھی ان کی مددگار اور حصہ دار بن کر دولت وثروت کے مالک بن گئی، دانشور وں اور خبرنگار وں نے لٹیروں کی خوشہ چینی کی اور گرے پڑے ذروں کے عوض ان کے قصیدے لکھتے رہے اور ان کی کمزوریوں کو طاقت، جفا کو وفا اور غداری کو حب وطن کا تمغہ کہہ کر عوام کو گمراہ کرتے رہے، پورے کے پورے نشریاتی ادارے ان کے زرخرید غلام بن گئے، ان کی جڑیں گہری وسائل بے تحاشا اور ہاتھ لمبے تھے مگر ایک شخص نے ان کو چیلنج کیا، کرتا رہا، ڈٹ گیا، ڈٹا رہا، بالآخر انہیں شکست دی اور 2018ء میں عوام خصوصاً نوجوانوں کی مدد اور تعاون سے اقتدار میں آگیا، گزشتہ دنوں اسی کالم میں حمید گل اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سیاسی جماعت بنانے کے حوالے سے لکھا تھا کہ سیاسی خلا نہ ہونے کی وجہ سے فی الوقت نئی پارٹی کی تشکیل جان جوکھوں کا کام ہے، جب نواز شریف اقتدار میں ہوں اور بے نظیر اپوزیشن تب نئی سیاسی جماعت کی تشکیل ممکن تو ہے مگر اس کے لیے طویل اور صبر آزما انتظار اور جدوجہد کی ضرورت ہے مگر دونوں میں سے کوئی سیاسی جماعت زائد المیعاد ہونے کی وجہ سے بری طرح پٹ جائے تو سیاسی خلا پیدا ہوجائے گا، اس خلا میں نئی سیاسی جماعت اگر اس کے پاس پرکشش شخصیت ہو یا چند قابل بھروسہ تجربہ کار سیاستدانوں کا چھوٹا سا گروپ، تو ان کی قیادت میں پیدا شدہ خلاء کو پُر کیا جاسکتا ہے، چنانچہ عرض گزاری تھی کہ پیپلز پارٹی سندھ میں سمٹ گئی اس لیے بڑا سیاسی خلاء واقع ہوا ہے، عمران خان نے اس خلاء پُر کرنے کے لیے قدم بڑھادیا اور اس کی جگہ آج اقتدار کے مالک ومختار اور نواز شریف کا اکلوتا متبادل بن کر سامنے آیا، اب وہ اقتدار میں ہے اور نواز شریف عمر بھر کے لیے نااہل ہوکر اقتدار کی دوڑ سے باہر کردیا گیا ہے۔
عمران خان نے باون برس کے بعد اقتدار کے کھیل میں شریک سیاسی جماعتوں کو ٹھکانے لگادیا ہے چنانچہ ایک مجہول سا سیاسی اتحاد اس کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتا، یہ اتحاد اس کا متبادل نہیں، لیکن اسے ناکام بنانے کی کوشش کرسکتا ہے، اس کوشش میں اتحاد کو شکست ہوگی تو وہ بکھر جائے گا، کامیاب ہوا بھی تو بس اس حد تک ہوسکتا ہے کہ فوج مجبور ہوکر اقتدار ہاتھ میں لے لے، اور مارشل لاء نفاذ کے بعد بھی اتحادوں کا انجام پی این اے سے مختلف نہیں ہوگا۔ اتحاد بہر صورت بکھر جائے گا اور جب بھی سیاست بحال ہوگی تو عمران خان سامنے کھڑا نظر آئے گا۔ نواز شریف کی نااہلی کے بعد پھر سے سیاسی خلاء پیدا ہوچکا ہے اور اس خلاء کو کوئی نیا انتظام نئی سیاسی جماعت یا تحریک پُر کرے گی۔