جس پر احسان کرو، اس کے شر سے بچو
میاں نواز شریف اور ان کا خاندان موجودہ قیادت عسکری ہو یا سیاسی، اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، یہ بات پورے وثوق سے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کی اس قیادت نے میاں صاحب پر کوئی احسان نہیں کیا جو ان کا محسن نہیں اس کے لیے یہ بے ضرر ہیں، اس حوالے سے آنکھوں دیکھی، کانوں سنی، نذرِ قارئین ہے، محمد خان جونیجو نئے نئے وزیراعظم بنے تھے، میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب۔ قومی اسمبلی کے ابتدائی اجلاس میں مارشل لاء کے خلاف حاجی سیف اللہ نے تحریک استحقاق پیش کردی، قومی اسمبلی کے اسپیکر جناب فخر امام (جو وزیر اعظم جونیجو اور صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق کے امیدوار کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے)انہوں نے ایک مرتبہ پھر جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک استحقاق منظور کرلی اور اس پر بحث شروع کروادی، اسمبلی میں اس بحث پر وزیراعظم کافی پریشان تھے، چند دنوں بعد سینیٹ کا پہلا اجلاس ہونے جارہا تھا، اب جونیجو صاحب کو نئی فکر لاحق ہوئی، کہ اگر سینیٹ میں بھی ایسا کچھ ہوگیا تو جنرل ضیاء الحق کی طرف سے ان کے لیے مشکلات پیدا ہوجائیں گی کہ وزیراعظم پارلیمنٹ کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوئے چنانچہ انہوں نے اجلاس سے پہلے ممبران سینیٹ کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا اور ہر صوبے میں جاکر سینیٹرز سے ملاقاتیں کرنے لگے، ان کا پہلا پڑاؤ "لاہور "میں تھا، لاہور گورنر ہاؤس میں گروپوں کی صورت سینیٹرز کو بلایا گیا، پہلا گروپ سرگودھااور فیصل آباد ڈویژن کے سینیٹرز پر مشتمل ملنے کو آیا جن میں راقم بھی شامل تھا، سامنے رکھے مرکزی صوفے پر وزیر اعظم کے ساتھ گورنر جیلانی اور وزیر اعلیٰ نواز شریف تشریف رکھتے تھے، ان کے دائیں طرف حامد ناصر چٹھہ اور دیگر مرکزی وزیروں کے نشستیں تھیں، بائیں طرف صوبائی وزراء بیٹھے، سامنے کی کرسیوں پر ہم سینیٹرز بیٹھ گئے۔
وزیراعظم نے قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں ہونے والی بد نظمی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اب سینیٹ کا اجلاس شروع ہونے والا ہے، ہمیں مارشل لاء اٹھانے کے لیے آپ سے مشورہ کرنا ہے اور ساتھ ہی یہ کہ سینیٹ کے اجلاس میں کوئی ہنگامہ، بدمزگی اور خرابی نہ ہو، آپ مشورہ دیں ہم اجلاس کو کس طرح پرامن رکھیں، اب آپ اپنی تجاویز دیں، جس کی روشنی میں ہم سینیٹ کے بزنس کو آگے بڑھاسکیں۔
وہ ہماری تجاویز سننے کے لیے خاموش ہوئے، سینیٹرز میں سے کسی نے زبان نہ کھولی، چند لمحوں کے انتظار کے بعد جنرل جیلانی کی طرف اشارہ کرکے وزیراعظم سے پوچھا کہ یہ آپ کے دائیں طرف کون صاحب ہیں؟ اس پر جونیجو صاحب کچھ حیران ہوتے ہوئے کہنے لگے، یہ ہمارے پنجاب کے گورنر ہیں جنرل جیلانی۔ عرض کیا کہ اگر ہمیں مارشل لاء اٹھانے کے بارے میں بھی مشورہ کرنا ہے تو جنرل صاحب کو باہر بھیجئے، یہ سنتے ہی جنرل صاحب کی حالت جو ہوئی سو ہوئی مگر جونیجو صاحب گھبراکر اٹھے اور میری نشست پر آکر کان میں کہنے لگے، مجھے آپ سے تنہائی میں الگ بات کرنا ہے، جواباً اونچی آواز کہا کہ مجھے علیحدگی میں بات نہیں کرنی۔ یہ سنتے ہی وہ جس تیزی سے آئے تھے اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ واپس بیٹھ گئے۔ ماحول اچانک تناؤ کا شکار ہوگیا تھا، تجربہ کار عبداللہ روکڑی وزیر اعظم اور گورنر کی مدد کو آئے اور کہا کہ پنجاب کو اس سے پہلے ایسا اچھا گورنر کبھی نہ ملا، یہ بڑے معاملہ فہم، محنتی، ملنسار اور رحم دل ہیں۔ عرض کیا، روکڑی صاحب! آپ کا کیا ہے، آپ تو گورنر ملک امیرخان کے بارے اس سے زیادہ کہتے تھے۔
اب روکڑی وزیراعظم سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ یہ نوجوان پڑھا لکھا ہے، اعلیٰ خاندان سے لیکن ابھی کچھ جذباتی ہے، پھر ہمارے بڑے بھائی یٰسین صاحب کی تعریفیں کیں جن کے ہاں پیرپگارااور حسن محمود کے ہمراہ لندن مہمان رہ چکے تھے، جونیجو اور نواز شریف بھی انہیں اچھی طرح جانتے تھے بلکہ ڈاکٹر بشارت الٰہی یٰسین بھائی سے نواز شریف کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے ضیاء الحق کو سفارش بھی کرچکے تھے، اس مرحلے پر ہماری میٹنگ ختم ہوئی اور ہم ملاقات کے لیے منتظر دیگر سینیٹرز کے لیے نشستیں خالی کرکے اوپر کے ہال میں آگئے جہاں سب کے لیے ظہرانے کا انتظام تھا، جب ساری ملاقاتیں ختم ہوئیں تو وزیراعظم، گورنر اور وزیر اعلیٰ دیگر شرکاء کے ہمراہ بڑے ہال میں لنچ کے لیے تشریف لائے، وہاں بڑی گہما گہمی تھی، خوش گپیاں ہونے لگی، پہلی ملاقات کی باتیں باہر نکل چکی تھیں، نتیجہ یہ ہوا کہ ہر کوئی مجھ سے کتراتے ہوئے دور دور ہونے لگامگر حامد ناصر چٹھہ بڑی گرمجوشی سے آکر ملے اور کہا جیسا سنا تھا اس سے بہتر پایا۔
ٹہلتے ٹہلتے وزیر اعلیٰ نواز شریف بھی چلے آئے اور دبی زبان میں کہا آپ میرے ساتھ چلئے، کچھ باتیں کرنا ہیں، اس وقت تو معذرت کی لیکن اگلی صبح دس بجے ملاقات کا وعدہ کردیا، حسبِ وعدہ صبح دس بجے سیون کلب روڈ وزیراعلیٰ کے دفتر پہنچا تو داخلی دروازے کے ساتھ رکھے صوفوں پر پانچوں بزرگ سینیٹرز تشریف رکھتے تھے جو کل کی ملاقات میں ہمارے ساتھ شریک مجلس تھے، پوچھا کیسے آنا ہوا؟ بولے، نو بجے ملاقات کا وقت تھا مگر ابھی تک انتظار میں ہیں، اسی وقت بائیں طرف کمرے کا دروازہ کھلا اور نواز شریف آکر بغلگیر ہوئے، ہاتھ پکڑ کمرے میں لے گئے، بزرگ سینیٹرز بیچارے منہ دیکھتے رہ گئے، کمرے میں پہنچ کر توجہ دلائی کہ گھنٹہ بھر سے منتظر ہیں، پہلے ان کی بات سنیں مگر انہوں نے کوئی توجہ نہ دی اور مشروبات کا آرڈر دینے لگے، پہلے تازہ پھلوں کا جوس، کافی پھر جوس اور بہت سے لوازمات۔ یونہی ادھر ادھر کی باتوں میں آدھ گھنٹہ گزر گیا تو تنگ آکر پوچھا کہ کہیے، مجھے کیوں بلایا تھا؟ پہلے جھجکے اور شرمائے پھر بولے کہ جنرل جیلانی میرے محسن ہیں، ہمارا خاندان صنعتوں کے قومیائے جانے کی وجہ سے بڑی مشکل میں آگیا تھا، جنرل جیلانی صاحب نے ہماری صنعتیں واپس دلائیں، میں کبھی کونسلر بھی نہیں بنا تھا انہوں نے مجھے وزیر بنایا، الیکشن جیتنے میں مدد کی اور وزیراعلیٰ بننے میں بھی ان کا پورا تعاون ہے، لہٰذا میں اور میرا خاندان ان کا احسان کبھی اتار نہیں سکتا، وہ میرے اور پورے خاندان کے محسن ہیں۔
خیال تھا کہ اس تمہید کے بعد نواز شریف جنرل جیلانی کے بارے میں ہاتھ ہولا رکھنے کا کہیں گے۔ اس تمہید کے بعد پوچھا کہیے، اس میں، میں کیا خدمت کرسکتا ہوں؟ انہوں نے اوپر کہی بات زیادہ شدت سے دہرائی کہ خاندان پر احسان، میرے اوپر نوازشات، اعلیٰ عہدوں تک رسائی ان کے احسانات کے سامنے میری اور سارے خاندان کی گردنیں جھکی ہیں۔ عرض کیا، یہ سب اپنی جگہ مگر فرمائیے کہ میرے لیے کیا حکم ہے؟ بولے آپ ہم پر احسان کیجیے، پوچھا کیا کروں؟ بولے جنرل جیلانی کو گورنر شپ سے ہٹانے کے لیے میری مدد کریں۔ اب حیرت سے آنکھیں پھٹی تھیں، تعجب سے پوچھا مگر کیوں؟ بولے جس آدمی کے ہمارے خاندان پر اتنے بھاری احسانات ہیں ان کے ہوتے ہوئے میں کس چیز کا چیف منسٹر ہوں۔ ہوشیار کی سادگی بھی ملاحظہ کیجئے کہ جنرل جیلانی کے احسانات کا بدلہ چکاتے ہوئے اسی سانس میں تقاضا ہے کہ میں بھی ان پر احسان کروں۔
ایک دن سینیٹ کے اجلاس میں موصوف کی ٹیکسی سکیم اور لاہور اسلام آباد موٹروے میں کرپشن کی کہانی سنا رہا تھا، حسنِ اتفاق کہیے کہ وزیراعظم نواز شریف پارلیمنٹ کے چیمبر میں تقریر سن رہے تھے، غصے میں اٹھے اور سیدھا سینیٹ ہال میں چلے آئے اور حالتِ غضب میں تقریر جھاڑ ڈالی کہ میں نے یہ کیا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔ جوابی تقریر میں درج بالا واقعہ کہہ سنایا تو لال بھبھوکا چہرے کے ساتھ پیر پٹختے ہوئے ایوان سے رخصت ہوئے، اس طرح یہ داستان چلتے چلتے جنرل جیلانی تک پہنچ گئی، پھر یہ رکی نہیں آگے بڑھتی رہی??کس طرح؟ ؟