کالم نگاری کے 20 سال
پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان کی حکومت کا آخری دور تھا اور ملک بھر کی طرح راقم کے آبائی شہر شکارپور میں بھی جنرل ایوب کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا اور انھی دنوں شکارپور میں متعدد اہم واقعات ہوئے، جن کی کوئی خبر کہیں شایع نہ ہوئی حالانکہ ان دنوں دو بڑے اردو اخباروں سمیت سندھی اخبارات کے نمایندے شہر میں موجود تھے۔
شکارپور بے شمار بنیادی مسائل کا بھی شکار تھا، یہ وہی شہر تھا جو قیام پاکستان سے قبل اہم ضلعی حیثیت رکھتا تھا جس کی ضلع حدود نوابشاہ اور دادو تک وسیع تھیں جو سندھ کا پیرس کہلاتا تھا۔ انگریزوں نے دریائے سندھ کے قریب ہونے کے باعث شکارپورکی جگہ سکھر کا انتخاب کیا اور شکارپور کی تحصیل سکھر کو ضلع بنادیا تھا۔
راقم الحروف نے 1967 میں اسرائیلی جنگ ختم ہونے کے بعد اپنی پہلی تحریر بچوں کے صفحے پر عرب اسرائیل جنگ پر ہی لکھی تھی اور دو سال تک اپنے شاہ لطیف کالج سے ہی تحریری سلسلہ جاری رکھا پھر اپنے شہر کی خبریں کسی اخبار میں شایع نہ ہونے پر 1969 میں کراچی کے ایک چھوٹے اخبار سے رپورٹنگ کا آغاز کیا اور 1990 میں ملک کے ایک بڑے اخبار کے رپورٹر کے طور پر اپنے شہر کی خبریں مسلسل اور تقریباً روز شایع کرائیں اور 21 سال تک اپنے شہر کی ترجمانی کا حق بطور رپورٹر اور چار سال یوسی کونسلر بھرپور طریقے سے ادا کیا۔
1990میں میرا شہر بھی لسانی آگ میں جلنے لگا تھا اور دوسروں کے ساتھ اپنا آبائی شہر چھوڑ کر کراچی منتقل ہونا پڑا تھا اور سات ماہ تک حالات میں بہتری نہ آنے پر شکارپور مستقل چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ 30 دسمبر 1990کو بڑے اخبار کی نمایندگی سے استعفیٰ دے کر صحافت سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی تھی۔ غالباً 1998 میں روزنامہ ایکسپریس کراچی کا اجرا ہوا تھا جسے 23 سال گزر چکے اور یہ ایکسپریس ہی تھا جس نے بھرپور مقابلہ کیا اور قومی اخبارات میں اپنی منفرد حیثیت منوائی تھی جب کہ لاہور کا کوئی اخبار کراچی میں جگہ نہ بنا سکا تھا۔
راقم الحروف نے صحافت کے 52 سالوں اور روزنامہ ایکسپریس میں کالم لکھنے کے 20 سالوں میں تین فوجی اور بھٹو، جونیجو، بے نظیر، نواز شریف اور (ق) لیگ اور آصف زرداری کی جمہوری کہلانے والی تمام حکومتوں میں میڈیا پر اس قدر غیر علانیہ اور علانیہ سنسر شپ کی سختی کبھی نہیں دیکھی جتنی تبدیلی حکومت کے موجودہ تین سالوں میں دیکھی۔
ملک بھر کا میڈیا، وکلا، سول سوسائٹی و سیاسی حلقے تبدیلی حکومت کی مجوزہ میڈیا اتھارٹی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں مگر حکومت بضد ہے کہ اتھارٹی سے سب کو فائدہ اور جھوٹی خبروں کو روکنا ممکن ہوگا۔ حکومتی اور اتھارٹی مخالف حلقے اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
مجوزہ میڈیا اتھارٹی کے بل یا آرڈیننس کی تفصیلات سے صرف حکومت ہی آگاہ ہے اور دوسرے سب لاعلم ہیں۔ جنرل ایوب دور کے پریس آرڈیننس کی منسوخی سے ملنے والی میڈیا آزادی تبدیلی حکومت میں ایک بار پھر غصب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ راقم کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ جنرل پرویز کے دور میں میڈیا کو جو آزادی تھی وہ تبدیلی حکومت میں میڈیا کو حاصل نہیں اور جو ہے وہ مسلسل سلب کی جا رہی ہے۔
رپورٹنگ کے دو عشروں میں صرف خبریں ہی لکھی جاتی تھیں جب کہ کالم نگاری کے دو عشروں میں سیاسی اور دیگر معاملات پر اپنی رائے کے اظہار کا بھرپور موقعہ ملا اور روزنامہ ایکسپریس میں اظہار رائے کی مکمل آزادی رہی۔