بلدیاتی انتخابات نہ کرانا غلطی تسلیم
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے آخر یہ حقیقت تسلیم کرلی کہ بلدیاتی انتخابات نہ کرانا حکومت کی غلطی تھی اور موجودہ حکومت کو اقتدار میں آنے کے بعد پہلے سال ہی بلدیاتی انتخابات کرا دینے چاہیے تھے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ بلدیاتی انتخابات کرانے کے وزرائے اعلیٰ بھی مخالف ہیں اور ہمارے ارکان اسمبلی پولیس اور پٹواری سے اوپر سوچنے پر راضی نہیں ہیں۔
ان کی ذمے داریاں مختلف ہیں۔ پاکستان کے آئین کے تحت وقت مقررہ پر ملک میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ضروری اور آئینی تقاضا ہے مگر بات یہ ہے کہ ملک میں کسی بھی جمہوری کہلانے والی حکومت نے اپنے دور میں ملک میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جو سراسر آئین کی خلاف ورزی تھی مگر ملک میں آئین کی خلاف ورزی پر سزا دینے والا کوئی ادارہ موجود نہیں، اسی لیے اس آئینی خلاف ورزی پر کسی بھی ایک وزیر اعلیٰ سے بازپرس نہیں ہوئی اور اگر ایسا ہو جاتا تو کسی وزیر اعلیٰ کی طرف سے یہ آئینی خلاف ورزی دوبارہ نہ ہوتی اور ملک میں وقت پر بلدیاتی انتخابات ہوتے رہتے۔
ملک میں عدالتی ریمارکس کو سیاسی حکومتیں سنجیدگی سے نہیں لیتیں اور مختلف بہانوں سے ٹال مٹول کرتی رہتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے 2015 میں ملک میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا جس پر صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات کرانا پڑے تھے جس کے بعد بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے اور پنجاب حکومت نے عدالتی حکم کے باوجود بلدیاتی ادارے بحال نہیں کیے۔
یہ معاملہ اب بھی عدالت میں ہے اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت اس لیے عمل نہیں کر رہی کہ پنجاب کے بلدیاتی اداروں میں واضح اکثریت مسلم لیگ (ن) کے منتخب عہدیداروں کی تھی اس لیے غیر قانونی طور انھیں ختم کردیا گیا تھا جب کہ کے پی کے، سندھ و بلوچستان میں ایسا نہیں ہوا۔
سندھ اور کے پی کے میں پی پی اور پی ٹی آئی کی اپنی شہری حکومتیں تھیں اس لیے انھیں برقرار رکھا گیا تھا جنھوں نے اپنی مدت پوری کی مگر انصاف کے دعویداروں نے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو آتے ہی توڑ دیا تھا اور ہٹ دھرمی یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود پنجاب کے بلدیاتی ادارے بحال نہیں کیے جا رہے اور سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہ کرکے پی ٹی آئی حکم عدولی کر رہی ہے مگر کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔ ملک میں غیر سول حکمرانوں کا بلدیاتی انتخابات باقاعدگی سے کرانے کا ریکارڈ کوئی بھی سیاسی حکومت نہیں توڑ سکی ہے جو جمہوریت کے دعویداروں کے لیے باعث ندامت ہے۔
وزیر اطلاعات کے بقول وزرائے اعلیٰ بلدیاتی انتخابات کے مخالف ہیں اور اس سلسلے میں ارکان اسمبلی کی سوچ پولیس اور پٹواری تک محدود ہے جب کہ ان کا مقام یہ نہیں ہے۔ انھیں عوام اسمبلیوں میں جاکر قانون سازی کے لیے منتخب کرتے ہیں بلدیاتی اداروں کے کرائے جانے والے کاموں کے لیے نہیں کہ وہ اسمبلیوں میں باقاعدہ جاکر قانون سازی کا اپنا اصل آئینی کردار ادا کریں مگر ارکان اسمبلی بلدیاتی نمایندوں والے کام خود کر رہے ہیں اور انھیں سڑکیں، نالیاں اور راستے بنانے سے زیادہ دلچسپی ہے کیونکہ ان کاموں کے لیے لوگ ان کے پاس آنے کے لیے مجبور ہیں اور ارکان اسمبلی اپنی حکومتوں سے ان بلدیاتی کاموں کے لیے کروڑوں روپے کے فنڈز ترقیاتی کاموں کے نام پر حاصل کرتے ہیں۔
اپنی مرضی کے ٹھیکیداروں سے اپنی مرضی کے تعمیری کام کراتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ان کا سیاسی اور مالی مفاد ایسے کاموں سے وابستہ ہے تو وہ کیوں اسمبلیوں کے فرائض ادا کریں گے۔ ارکان اسمبلی وہاں سے بھی رقم وصول کرتے ہیں اور بلدیاتی کاموں کا بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور حکومتیں انھیں خوش رکھنے کے لیے غیر قانونی طور انھیں ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈ دیتی ہیں جسے سپریم کورٹ غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ عمران خان پہلے اس فنڈ کے مخالف تھے مگر وہ بھی اپنے ارکان کو یہ فنڈ فراہم کر رہے ہیں۔
پنجاب حکومت نے اقتدار میں آ کر اگر بلدیاتی انتخابات 2019 میں کروا دیے ہوتے تو وہاں اس کے اپنے نمایندے منتخب ہوتے مگر ایسا نہیں ہوا۔ کنٹونمنٹس کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی حکومت پنجاب و کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات کبھی نہیں کروائے گی کیونکہ اب وہ بلدیاتی انتخابات کبھی نہیں جیت پائے گی۔ یہ غلطی وہ کرچکی ہے جو وزیر اطلاعات و وزیر بلدیات پنجاب تسلیم کر رہے ہیں مگر غلطی دیر سے تسلیم کی گئی وقت گزر چکا اور اس غلطی کی سزا عوام کو بھگتنا پڑ رہی ہے جس سے ارکان اسمبلی خوش ہیں۔