خطرناک ترین حملہ
رات بھر نیند نہ آئی۔ حملہ ہونے میں صرف دو دن رہ گئے تھے۔ دوسرا دن بھی اضطراب میں گزرا۔ شام ڈھلی تو کرب میں اضافہ ہو گیا۔ رات پھر پیچ و تاب میں بسر ہوئی۔ کل صبح اٹھا تو سب سے پہلے کیلنڈر دیکھا۔ امتِ مسلمہ پر خوف ناک حملہ ہونے میں چوبیس گھنٹوں سے بھی کم وقت رہ گیا تھا۔ وہ تو اخبار کھول کر دیکھا تو جان میں جان آئی!اللہ! تیرا شکر ہے ہمارے علماء خبردار اور ہوشیار ہیں۔ جنہوں نے اس سیلاب کے آگے بند باندھ دیا۔ ورنہ مذہب، ملت، قوم، پاکستان سب کچھ بہہ جاتا۔ جنہوں نے یہ خبر سن لی ہے وہ سجدہ ریز ہو جائیں، اور جوتاحال لا علم ہیں، وہ جان لیں کہ ایک نہیں، دو نہیں، پانچ نہیں، دس نہیں، پورے پچاس علماء نے ویلنٹائن ڈے کے حملے کے آگے بند باندھ دیا ہے۔ علما اور مفتیانِ کرام نے اپنے اجتماعی شرعی اعلامیہ میں جو نکات بیان فرمائے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔ اوّل:ویلنٹائن ڈے غیر اسلامی، مغربی اور اخلاق سوز تہوار ہے۔ دوم: حکومت اس پر پابندی لگائے۔ سوم:اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں مغربی ماحول پیدا کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ چہارم:پوری قوم اور مسلم نوجوان ویلنٹائن ڈے کا بائی کاٹ کریں۔ پنجم:مشترکہ بیان میں دکانداروں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ویلنٹائن ڈے سے متعلق اشیاء کو اپنی دکانوں پر فروخت نہ کریں۔ ہم ان سطور کے ذریعے مفتیان کرام کے اس اعلامیہ کی بھرپور تائید کرتے ہیں۔ ان مفتیانِ مذہب نے قوم کو بروقت متنبہ کر کے دین کا حق ادا کر دیا ہے۔ جب تک ہمارے مفتیانِ کرام سلامت ہیں، کوئی میلی آنکھ سے ہمارے مذہب کو نہیں دیکھ سکتا۔ تاہم اس ضمن میں کچھ عقل سے بے بہرہ لوگ اعتراض کریں گے۔ ایک اعتراض یہ ہو گا کہ ویلنٹائن ڈے منانے والا طبقہ تعداد میں انتہائی قلیل ہے۔ بڑے شہروں اور بڑے قصبوں میں رہنے والے چند فیشن زدہ مرد اور عورتیں ویلنٹائن ڈے مناتی ہیں۔ علماء کرام کا دوسری طرف حکم ہے کہ پوری قوم ویلنٹائن ڈے کا بائی کاٹ کرے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک مریض کو ڈاکٹر نے متنبہ کیا کہ دن میں دو سے زیادہ سگرٹ نہ پئے۔ اگلی بار ڈاکٹر کے پاس آیا تو اپنی مشکل بیان کی کہ میں تو سگرٹ نوشی کا عادی نہ تھا۔ آپ نے ایک دن میں دو سگرٹ پینے کا حکم دیا تو بہت مصیبت میں ہوں۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ میں سگرٹ نہ پیوں؟ اب اگر پوری قوم نے اس دن کا بائیکاٹ کرنا ہے تو لازم ہے کہ پہلے پوری قوم کو اس دن سے متعارف کرایا جائے۔ چھوٹے چھوٹے گائوں لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ شہروں میں بھی کثیر تعداد ویلنٹائن ڈے کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ علماء کرام کی خدمت میں اس اعتراض کا توڑ ہم پیش کیے دیتے ہیں۔ وہ یوں کہ تمام ائمہ اور خطیب حضرات جمعہ کے خطبات اور روزانہ کے درس میں اپنے اپنے حاضرین سے ویلنٹائن ڈے کا تعارف کرائیں۔ اس دن مغرب میں اور ہمارے ہاں مغرب زدہ طبقہ کیا کرتا ہے، یہ سب تفصیل سے بتایا جائے۔ اس طرح پوری قوم ویلنٹائن ڈے کے نام اور کام سے روشناس ہو جائے گی۔ اس کے بعد مفتیان کرام کا یہ حکم سنایا جائے کہ اب جب تم ویلنٹائن ڈے کے بارے میں سب کچھ جان چکے ہو تو اب بائی کاٹ کرو۔ اس کے جواب میں دلیل دی جا سکتی ہے کہ اب ویلنٹائن ڈے کا مسئلہ صرف شہروں اور بڑے قصبوں تک محدود نہیں، سوشل میڈیا نے اس مکروہ رسم کو گلی گلی، گھر گھر پہنچا دیا ہے۔ مگر یہ اعتراض سطحی ہے۔ 2018ء کے سروے کی رُو سے پاکستان کی کُل آبادی کا صرف بائیس فیصد حصہ انٹرنیٹ تک رسائی رکھتا ہے۔ یہ تو رسائی رکھنے والے ہوئے۔ ان میں سے تمام انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتے۔ انٹرنیٹ کو باقاعدگی سے استعمال کرنے والے پوری آبادی کا صرف اٹھارہ فی صد ہیں، رہا موبائل فون سے انٹرنیٹ کا استعمال۔ تو وہ صرف سولہ فیصد لوگ کر رہے ہیں۔ عملی مشکل یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے جو لوگ ویلنٹائن ڈے سے واقفیت رکھتے ہیں وہ سولہ فیصد سے زیادہ نہیں! اب جو اس بلا سے واقف ہی نہیں، وہ کیسے بائیکاٹ کریں؟ میں نے تو اس شرعی حکم کو بلا چون و چرا ماننے کا عزم کر لیا ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ اپنے محلے میں، زیر تعمیر مکانوں میں کام کرنے والے تمام مزدوروں، اردگرد کے ریڑھی بانوں اور دیگر ان پڑھ لوگوں کو اکٹھا کر کے ویلنٹائن ڈے کے بارے میں تفصیل سے بتائوں گا اور پھر شرعی اعلامیہ سنا کر ان سے بائی کاٹ کی اپیل کروں گا۔ کچھ نا عاقبت اندیش یہ بھی کہیں گے کہ ہمارے دکاندار ایک عرصے سے ایسی اشیا فروخت کر رہے ہیں جو انسانوں کو ہلاکت میں ڈال رہی ہیں۔ خوفِ خدا سے بے نیاز یہ تاجر خوراک میں ملاوٹ کر رہے ہیں۔ مرچوں سے لے کر آٹے تک، چائے کی پتی سے لے کر شہد اور دودھ تک۔ بیسن سے لے کر گھی تک۔ ہر شے ناخالص بیچ رہے ہیں۔ ادویات جعلی بنا اور فروخت کر رہے ہیں، یہاں تک کہ یہ ظالم معصوم شیر خوار بچوں کا دودھ تک خالص نہیں بیچتے۔ مگر آج تک ہمارے مفتیانِ عظام نے ان تاجروں کو اس حرام کاری اور حرام خوری سے منع نہیں کیا۔ یہ کم تولتے ہیں۔ بیچتے وقت شے کا نقص نہیں بتاتے۔ پورے ملک میں ناجائز تجاوزات پر قبضہ کر رکھا ہے۔ فٹ پاتھ، برآمدے، سڑکوں کی سڑکیں، انہوں نے ہڑپ کر رکھی ہیں۔ ٹیکس نہیں دیتے۔ پوری دنیا میں بازار صبح نو بجے کھلتے ہیں اور غروب آفتاب کے وقت بند ہو جاتے ہیں مگر یہ دیدہ دلیر دن کے بارہ بجے دکانیں کھولتے ہیں اور آدھی رات تک برقی روشنی استعمال کرتے ہیں، علماء کرام نے آج تک اس اسراف سے انہیں منع نہیں کیا۔ ان کم عقل معترضین کو ہم یہ جواب دینا چاہتے ہیں کہ بے وقوفو!جرم کی نوعیت پر غور کرو! ناخالص خوراک، جعلی ادویات اور معصوم بچوں کے لیے خراب دودھ بیچنا کوئی اتنا بڑا جرم نہیں، زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا؟ لوگوں کے گردے خراب ہوں گے۔ پھیپھڑے ناکارہ ہو جائیں گے۔ دل کی بیماریوں میں مبتلا ہو جائیں گے۔ معصوم بچے ملاوٹ والا دودھ پی کر زیادہ سے زیادہ مر ہی تو جائیں گے۔ اب ان معمولی معمولی غلطیوں پر دکانداروں کو کیا ٹوکنا! رہا ویلنٹائن ڈے تو بیوی یا منگیتر کو یا کلاس فیلو کو پھول پیش کرنے سے بڑا تباہ کن گناہ کیا ہو گا۔ پھر یہ بھی ہے کہ ویلنٹائن ڈے سال میں ایک بار منایا جاتا ہے۔ جب کہ ملاوٹ، کم تولنے اور ناجائز نفع خوری کا مکروہ کاروبار سارا سال جاری رہتا ہے۔ علماء نے تاجروں کو ملاوٹ سے اور دوسرے گناہوں سے اس لیے منع نہیں کیا کہ جو گناہ سارا سال کیا جاتا ہے وہ کم نقصان دہ ہوتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے زیادہ خطرناک ہے اس لیے کہ یہ سال میں صرف ایک دن کے لیے ہے۔ یہ باریک نکتہ یہ احمق سمجھتے تو اعتراض نہ کرتے۔ ہاں ایک عرض علماء کرام کی خدمت میں ہم بھی ضرور کریں گے کہ یہ جو حکم فرمایا ہے کہ دکاندار ویلنٹائن ڈے سے متعلق اشیا اپنی دکانوں پر فروخت نہ کریں، تو ازراہ لطف و کرم اگر ان اشیاء کی فہرست بھی شرعی اعلامیہ کے ساتھ جاری کر دی جائے تو تعمیلِ حکم میں سہولت رہے گی۔