نیکی کیا ہے
"تم مجھے بتاؤ نیکی کیا ہے" انہوں نے کتاب بند کی، عینک اتار کر میز پر رکھی اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گھورنا شروع کر دیا۔ میں اس اچانک اور بدیہی سوال پر تھوڑا پریشان ہوگیا، میں نے ایک لمحے کے لیے توقف کیا، نیکی کا مفہوم مختصر کرتے ہوئے عرض کیا: "ہر وہ عمل نیکی ہے جس میں آپ خدا کی اطاعت یا مخلوق کی خدمت کا عمل سر انجام دیتے ہیں۔ " انہوں نے میرا جواب سنا، اتفاق و اختلاف کیے بغیر کچھ دیر خاموش رہے اوربولے: "میں تمہیں سورۃ بقرۃ کی ایک آیت کی روشنی میں نیکی کا مفہوم سمجھاتا ہوں۔ "
میں انہیں سننے کے لیے ہی آیا تھا لہٰذا میں نے فوراً سننے کی پوزیشن سنبھال لی، وہ گویا ہوئے: "نیکی کا بہترین مفہوم اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرۃ کی آیت نمبر ایک سو ستتر میں بیان کیا ہے، پہلے میں اس آیت کا ترجمہ تمہارے سامنے رکھتا ہوں پھر میں اس کی وضاحت کی طرف آؤں گا۔ اس آیت کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے کہ اصل نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلوبلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ تم اللہ، قیامت، فرشتوں، کتابوں اور پیغمبروں پرایمان لاؤ اور اللہ کی محبت میں اپنا مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اورغلام لونڈیوں کی گردنیں آزاد کرانے میں خرچ کرو اور نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو۔ نیزوہ لوگ جو عہد کرکے اپنا عہد پورا کرتے ہیں اور مصیبت، سختی اور جہاد کے وقت صبرکرنے والے ہیں یہی لوگ سچے اور یہی پرہیزگار ہیں۔
یہ اس آیت کا بامحاورہ ترجمہ ہے اور اس آیت میں نیکی کے مفہوم کو بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے، مثلا آیت کے شروع میں بتایا گیا ہے کہ نیکی صرف یہ نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ لو۔ اس میں ددباتوں کی طرف اشارہ ہے، ایک صرف مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرکے سجدے کرتے رہنا اور نمازیں پڑھتے رہنا کافی نہیں جب تک عقائد ٹھیک نہ ہوں، اگر کوئی شخص سمجھتا ہے کہ اللہ کی توحید میں ملاوٹ کے ساتھ یا رسول اللہﷺ کی ختم نبوت پر ایمان کے بغیر یا آسمانی کتب اور آخرت کے تصور کے بغیر نیکی کرتا رہے تو اس کی نیکی عند اللہ مقبول نہیں ہوگی نیز صرف اپنی نیکی کو نیکی سمجھنا اور اس پر اتراتے ہوئے دوسروں کو حقیر سمجھنا بھی نیکی کا غلط مفہوم ہے اور اللہ کو ایسا نیک عمل پسند نہیں۔
دوسرا اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر عقائد بھی درست ہوں، مشرق و مغرب کی طرف منہ کرکے سجدوں کا بھی اہتمام ہو پھر بھی نیکی کا یہ کامل تصور نہیں اور اس ادھورے تصور کو آیت کے اگلے حصے میں پورا کیا گیا ہے۔ اگلے حصے میں بتایا گیا ہے کہ عقائد اور عبادات کے ساتھ نیکی کا کامل تصور یہ ہے کہ تم رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سوال کرنے والوں اور غلاموں باندیوں کا بھی خیال رکھو۔
اس فہرست میں سب سے پہلے رشتہ داروں کو بیان کیا گیا ہے، رشتہ دارں کی فہرست بہت طویل ہوتی ہے، یہ بھائی بہن سے شروع ہو کر چچا، پھوپھو، خالہ، ماموں اور پورے خاندان پر مشتمل ہوتی ہے لہٰذا اگر کوئی انسان سمجھتا ہے کہ محض مغرب کی طرف منہ کرکے سجدے کرنے اور نمازیں پڑھنے سے وہ نیک بن جائے گا تو اس کا نیکی کایہ تصور درست نہیں، جب تک وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش نہیں آتا، ان کا خیال نہیں رکھتا اور خوشی و غمی میں ان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا تو وہ نیک نہیں کہلا سکتا۔
رشتہ داروں کے بعد یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سوال کرنے والوں اور غلاموں باندیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، اگر کسی سماج میں ان تمام اصناف کا خیال نہیں رکھا جاتا، ان کی ضروریات پوری نہیں کی جاتی اور انہیں زندگی گزارنے کا حق نہیں دیا جاتا تو من حیث المجموع وہ سماج نیکی کے درست مفہوم سے نا آشنا ہے۔ " بات طویل ہو چکی تھی، میں ٹکٹکی باندھے انہیں دیکھ رہا تھا اور وہ اپنی ہی لے میں بولتے جا رہے تھے، وہ دوبارہ گویا ہوئے: "رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سوال کرنے والوں اور غلاموں باندیوں کا خیال رکھنے کو ہم خدمت خلق یااحترام انسانیت کا عنوان دے دیتے ہیں، تو آیت کے اس حصے کو اگرہم پچھلے حصے کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو نیکی کا درست مفہوم یہ بنتا ہے کہ نیکی صرف عبادات کا نام نہیں بلکہ عقائد کی درستی، عبادات اور احترام انسانیت یا خدمت خلق کا نام ہے۔
آج ہم نے نیکی کے تصور کو صرف عبادات تک محدود کر دیا ہے اور قرآنی اصطلاح کے مطابق ہم صرف مغرب کی طرف منہ کرکے سجدے کرنے کو عبادت سمجھتے ہیں، انسانیت کے ساتھ ہمارا برتاؤ کیساہے، ہمارے رشتہ دار ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں، ہمارے ہمسائے کے بچے بھوک سے نڈھال ہیں اور غریب فاقوں سے مجبور ہو کر خودکشی کر رہے ہیں ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ ہم ہاتھوں میں تسبیح گھمانے اور لمبے لمبے وظائف کو ہی نیکی سمجھتے ہیں جبکہ قرآن نیکی کے اس تصور کو ادھورا اور ناقص قرار دیتا ہے۔ " وہ پانی پینے کے لیے رکے، کچھ لمحے توقف کیا اور دوبارہ بولنا شروع ہوئے: "نیکی کے اس کامل تصور کی تصدیق اسوۃ نبویﷺ سے بھی ہوتی ہے، آپ نے پہلی وحی کا واقعہ پڑھا ہوگا، رسول اللہ ﷺ غار حرا سے واپس تشریف لائے تو کافی گھبرائے ہوئے تھے، حضرت خدیجہؓ نے آپﷺ کو تسلی دیتے ہوئے جو الفاظ کہے تھے وہ بہت اہم اور نیکی کے درست مفہوم کی نشاندہی کرتے ہیں۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے یہ نہیں کہا تھا کہ آپﷺ بہت زیادہ سجدے کرتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں اور خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں بلکہ انہوں نے آپﷺ کو ان الفاظ سے تسلی دی تھی کہ آپ لوگوں کے کام آتے ہیں، یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں، لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اوربھوکے اور نادار افراد کو کھانا کھلاتے ہیں اس لیے آپﷺ مطمئن رہیں اللہ آپﷺ کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہونے دے گا۔
آج ہم جن حالات کا شکار ہیں اس کی بہتری کی ایک صورت یہ ہے کہ ہم نیکی کے درست اور کامل مفہوم کو سمجھیں۔ خاص حالات میں نیکی کے کچھ پہلو زیادہ اہم ہوجاتے ہیں اور ان پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، مثلاً جہاد کے زمانے میں اگر کوئی شخص مسجد وخانقاہ میں بیٹھ کر اللہ ھو کی ضربیں لگانا شروع کر دے تو اس کا یہ عمل شریعت کی نظر میں مستحسن نہیں سمجھا جائے گا۔
آج ہمیں بھی نیکی کے کچھ خاص پہلوؤں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، مثلا ملکی صورتحال کے پیش نظر سفید پوش طبقہ فاقوں پر مجبور ہے، لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں اور اکثریت کو اپنی عزت اور اپنا بھرم قائم رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ ایسے میں صاحب حیثیت اور مالدار لوگوں پر فرض ہے کہ وہ نیکی کے درست اور کامل مفہوم کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں۔
پاکستان کے ہر شہر میں ایسے صاحب حیثیت اور مالدار لوگ موجود ہیں جو پورے شہر کا خیال رکھ سکتے ہیں۔ اب مسائل کا رونا رونے اور ذمہ داروں کو کوسنے کے بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے، حالات ہمیشہ ایسے نہیں رہیں گے لیکن تب تک عوام کو خودکشیوں سے بچانے اور ان کی عزت اور بھرم قائم رکھنے کے لیے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ " انہوں نے بات ختم کی اور میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے، میں نے ان کی آنکھوں میں چھپے سوال کو دیکھ کر عرض کیا کہ آج میں پہلی بار نیکی کے اس مفہوم سے آشناہوا ہوں۔ ایک اطمینان آمیز مسکراہٹ ان کے چہرے پر چھا گئی۔