انکشافات کا موسم
حضرت عبد اللہ بن عمر تشریف فرما تھے، ایک صاحب تشریف لائے، اجازت مانگی اور مجلس میں بیٹھ گئے۔ مجلس میں کوئی مسئلہ زیر بحث تھا، بات مکمل ہوئی تو حضرت عبد اللہ بن عمرآنے والے کی طرف متوجہ ہوئے۔ اجنبی نے بولنے کی اجازت چاہی اور عرض کیا:"حضرت میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں " آپ نے ہاں میں گردن ہلادی، وہ بولا:" اگرانسان حالت احرام میں مکھی یا مچھر مار دے تو کیا اس پر گناہ اور جرمانہ لازم آئے گا۔"عبد اللہ بن عمر نے پوچھا:"تمہارا تعلق کہاں سے ہے۔" اجنبی نے جواب دیا:"میں عراق سے حاضر ہوا ہوں۔" آپ نے حاضرین مجلس کو متوجہ کیا اور بولے:"اس شخص کو دیکھو! یہ مکھی اور مچھر کے خون کے بارے میں سوال کر رہا ہے حالانکہ یہی لوگ تھے جنہوں نے رسول اللہ کے لخت جگر کا خون کیا تھا، میں نے رسول اللہ کو یہ کہتے سنا تھا یہ دونوں حسن و حسین میرے لیے دنیا کی کلی ہیں۔"
اجنبی نے جواب سنا تو گردن جھکا دی، حضرت عبد اللہ بن عمر کا مقصود اہل عراق کے طرز فکر پر تنقید کرنا تھا کہ یہ لوگ معمولی مسائل پر تو اتنی حساسیت دکھاتے ہیں مگر جو مسئلہ ام المسائل بنا اور امت آج تک اس مسئلے کے آفٹر شاکس سے باہر نہیں آئی اس پر انہوں نے کبھی غور نہیں کیا۔ مجھے عبد اللہ بن عمر کا یہ واقعہ پچھلے کچھ دن سے مسلسل یاد آرہا ہے اور اس کی وجہ اکیسویں صدی کے مشہورو مقبول، ہر دلعزیز اور وژنری " لیڈر " عمران خان کے حالیہ بیانات ہیں۔ عمران خان صاحب کی اصل لیڈر شپ جاگ اٹھی ہے، ان پر معرفت کے دروازے کھل چکے ہیں اور اب انہیں یہ راز معلوم ہو گیا ہے کہ ملک کیسے ترقی کرتے ہیں۔ ابھی کل ہی ان پر یہ راز منکشف ہوا کہ ملک دھرنوں سے نہیں بلکہ لانگ ٹرم منصوبوں سے ترقی کرتے ہیں، اس کے ساتھ انہیں یہ بھی الہام ہوا کہ پانچ سال میں جادوئی ترقی ناممکن ہے اور لانگ ٹرم منصوبوں کے لیے پانچ سال کا عرصہ بہت کم ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ان پر یہ رازبھی منکشف ہوا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے خود کشی کی نوبت نہیں آتی بلکہ بندہ صحیح سلامت اور پہلے سے زیادہ ضدی اور ڈھیٹ ہو جاتا ہے۔
یہ راز بھی منکشف ہوا کہ ایک لیٹر پٹرول پر 47روپے ٹیکس لینے والی حکومت چور نہیں مجبور ہوتی ہے اور انہیں یہ بھی اندازہ ہوگیاکہ بجلی کے بل جلانے اور بجلی سستی کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ ان کے وزیرو ں اور مشیروں پر بھی انکشافات ہونا شروع ہو گئے ہیں اور انہیں بھی اب یہ راز معلوم ہو گیا ہے کہ حکومت کے پہلے دن تو کیا ڈھائی سالوں میں بھی دو سوا رب ڈالر منہ پر نہیں مارے جا سکتے۔ انہیں الہام ہونا شروع ہو گیا ہے کہ تبدیلی دو چار دن کا کھیل نہیں بلکہ طویل مدتی منصوبوں سے آیا کرتی ہے اور طویل منصوبوں کے لیے سیاسی و سماجی استحکام ضروری ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی کے عام ورکر اور عوام الناس تو معرفت و ادراک کے اعلی ترین درجات پر کھڑے ہیں اور انہیں تبدیلی کے مالہ و ما علیھا کا بھر پورا دراک ہو چکا ہے۔ رہے ان کے حق میں بولنے اور لکھنے والے تو ان میں سے اکثریت "تبدیلی " کی حقیقت جان کر توبہ تائب ہو چکی ہے سوائے مستقل مزاج قسم کے خوش فہموں سے۔
عمران خان صاحب کے حالیہ بیانات صرف بیانات نہیں بلکہ علی الاعلان یہ ان کا اعتراف شکست ہے، وہ اپنی زبان سے یہ اقرار کر رہے ہیں کہ میں ان ڈھائی سالوں میں کچھ نہیں کر سکا۔ اہل دانش اور میرے جیسے سرپھرے 2014 سے لکھ رہے ہیں کہ عمران خان کے پاس وژن ہے نہ ٹیم، انہیں اندازہ ہی نہیں کہ ملک کے اصل مسائل کیا ہیں اور انہیں کیسے مخاطب بنانا ہے۔ عمران خان نے کرپشن کا چورن بیچا اور وہ بک گیا، اصل مسائل پس منظر میں چلے گئے اور قوم تبدیلی کے انتظار میں بیٹھ گئی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ملک ڈھائی سالوں میں ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکا، ترجیحات کے غلط تعین نے ہمیں مکھی اور مچھر کے دم میں الجھا دیا اور اصل مسائل کی طرف ہماری توجہ نہیں گئی۔
کسی ملک کا بنیادی مسئلہ سیاسی و سماجی استحکام ہوتا ہے جو ہمارے ہاں پچھے دس سالوں سے نہیں آنے دیا گیا، 2014 سے یہ ملک حالت نزع میں ہے، پہلے دھرنے تھے، بعدمیں پانامہ کا ڈرامہ آگیا اور 2018 سے جو صورتحال ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ مجھے یا د ہے 2014 میں جب عمران خان صاحب نے دھرنا دیا تھا تب پاکستان سرمایہ کاری بورڈ نے بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں دو سو چالیس سے زائد ملکوں کے نمائندے شریک ہوئے تھے، نواز شریف کانفرنس سے خطاب کر کے باہر نکلے تو صحافیوں اور سرمایہ کاروں نے انہیں گھیر لیا کہ ملک میں سرمایہ کاری کیسے آئے گی، تب نواز شریف نے عمران خان سے اپیل کی تھی کہ ملک میں سیاسی استحکام آنے دیا جائے تاکہ یہ ملک آگے بڑھ سکے مگر عمران خان صاحب باز نہیں آئے اور آج وہ یہی مطالبہ اپوزیشن سے کر رہے ہیں اور اب ان پر یہ راز منکشف ہوا ہے کہ ملک ایسے ترقی نہیں کرتے۔
پچھلے ڈھائی سالوں کے تجربات کے بعد عمران خان صاحب پر معرفت و ادراک کے جو در وا ہو رہے ہیں اہل دانش روز اول سے انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے مگر وہ لیڈر ہی کیا جو کسی کی سن لے۔ اگرموجودہ حکومت کے ڈھائی سالوں کا ماحصل نکالیں تو خان صاحب کا یہی معرفت و ادراک برآمد ہو گا۔ کیا بہتر نہیں تھا کہ اس ملک کو تجربہ گاہ بنانے کی بجائے چلنے دیا جاتا اور صحیح سمت آگے بڑھنے دیا جاتا۔ خان صاحب کے حالیہ بیانات اور ان کے اعتراف شکست کے بعد، ملک کے یہ ڈھائی سال برباد کرنے کا تاوان ہر اس شخص پر آنا چاہئے جس نے "تبدیلی " کے لیے راستہ ہموار کیا تھا۔ خان صاحب نے پچھے دس سالوں میں کرپشن کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن ٹرانسپریسی کی حالیہ رپورٹ نے ثابت کر دیا کہ کرپشن اصل مسئلہ نہیں بلکہ مسائل کی جڑیں کہیں اور ہیں۔ اس ملک کا اصل بحران عدم استحکام ہے، جس دن اس میں ملک میں سیاسی و سماجی استحکام آگیا اس دن یہ ملک صحیح سمت کی طرف چل پڑے گا۔ پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ میں ایوب خان کے دور کو سنہری دور کہاجاتا ہے، اس دور کے سفارت کا روں کا ڈائیلاگ ہوا کرتا تھا کہ مستقبل میں کراچی، دبئی یا نیویارک کون سا شہر زیادہ ترقی یافتہ ہوگا۔ اس دور میں شروع ہونے والے دنیا کے سول انجینئرنگ کے سب سے بڑے پروجیکٹ تربیلا اور منگلہ ڈیم کو دیکھنے کے لیے آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس آیا کرتے تھے۔ ضیاء الحق کے دور حکومت میں بھی پاکستان نے ریکارڈ ترقی کی، ایٹم بم بھی اسی دورانیے میں بنا اور ہم نے سپر پاور سوویت یونین کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
مشرف دور تو ابھی کل کی بات ہے، ہماری موجودہ حکومتوں کا سارا سٹرکچر مشرف دور کا دیا ہوا ہے، ہمارے اکثر ادارے بھی مشرف دورمیں بنے اور میڈیا اور انفارمیشن کا انقلاب بھی مشرف دور کی باقیات میں سے ہے، ان تینوں ادوار میں ملک کیوں آگے بڑھا؟ اس کا واحد اور حتمی جواب سیاسی استحکام اور لانگ ٹرم دور حکومت ہے، ہم جب تک اس نکتے کو نہیں سمجھیں گے یہ ملک آگے نہیں بڑھے گا۔ عمران خان پر انکشافات کا موسم اترا ہے، الہامات کی برسات جاری ہے کاش وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرلیں کہ انہوں نے ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیل کر اس ملک اور تئیس کروڑ عوام سے زیادتی کی ہے، اگر وہ ایسا کر لیتے ہیں تو شاید عوام"تبدیلی " کے گناہ کو بھول کر انہیں قبول کرلیں ورنہ اب عمران خان کے پاس کچھ نہیں بچا۔