اعتدال کا سفر
صحافی نے مولانا مودودی ؒسے سوال کیا:"سر تبلیغی جماعت نے نئی بدعات شروع کر دی ہیں، یہ فضائل اعمال، چلہ اور دیگر معمولات کو فرض کا درجہ دیتے ہیں اور انہوں نے دین میں نئے نئے اضافے کر دیے ہیں آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے۔" مولانا مودودی ؒنے بڑے تحمل اور پرسکون لہجے میں جواب دیا:"جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعت دونوں دینی جماعتیں ہیں، شاید آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ جماعتِ اسلامی اور تبلیغی جماعت میں کوئی اختلاف ہے، ہم نے کوئی دکان نہیں کھول رکھی کہ جس نے ہماری دکان سے سامان نہیں خریدا وہ ہمارا دشمن ہے، جماعتِ اسلامی اور تبلیغی جماعت دونوں اسلام کی خدمت کے لیے اْٹھے ہیں، وہ بھی اللہ کی طرف بلا رہے ہیں اور ہم بھی۔"مولانا مودودی ؒنے کچھ دیر توقف کیا اور دوبارہ گویا ہوئے:" آپ خود غور کریں میں کیوں اِن سے خفا ہو سکتا ہوں، کیا نماز کی طرف دعوت دینی اتنی بری ہے کہ مجھ پرغصہ سوار ہو جائے؟ کیا کلمہ شہادت پڑھانا اور اس کی تعلیم دینا اتنا بڑا گناہ ہے کہ میں ان پر اپنا جام غضب انڈیلنے پر تل جاوں؟ میں اسلام کا داعی ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ وہ میرا ہی کام کر رہے ہیں، وہ کوئی زنا، شراب نوشی، کفر و شرک کی دعوت نہیں دے رہے کہ وہ ایک صف میں کھڑے ہو جائیں اور میں دوسری صف میں کھڑا ہو جاؤں۔ ہم سب اسلام ہی کی صف میں کھڑے ہیں اور ہمارے مقابل کفر اور جاہلیت کی صف ہے۔"
مسلمانوں کی چودہ سوسالہ تاریخ میں جس چیز نے انہیں سب سے زیادہ نقصان پہنچایا وہ مذہبی، سیاسی اور فرقہ وارانہ اختلافات ہیں اور ان اختلافات کی شروعات خلافت راشدہ کے بعدسے ہو گئی تھیں۔ پہلے بنو امیہ اور بنو عباس ایک دوسرے سے نبرد آزما رہے اور بعدمیں صلیبی جنگوں نے مسلمانوں کو یکسو نہ ہونے دیا۔ صلیبی جنگوں سے فرصت ملی تو اسلامی سلطنتوں نے ایک دوسرے پر حملے شروع کر دیے، 1258 میں عباسی سلطنت کاخاتمہ اسی سیاسی کشمکش کا لازمی نتیجہ تھا۔ پندھویں صدی میں سلطنت عثمانیہ کے مستحکم ہونے کے بعد اس کشمکش میں کچھ ٹھہراؤ آیا۔ مشرق وسطیٰ میں
خلافت عثمانیہ اور برصغیر میں مغلیہ سلطنت نے جوسیاسی استحکام پیدا کیا اس کے نتیجے میں یہ علاقے دنیا کے ترقی یافتہ خطے بن کر ابھرے۔ یہ وہ دور تھا جب پورپ کو ترقی کی ہوا نہیں لگی تھی اور امریکہ ابھی آنکھیں کھول رہا تھا۔ دنیا سلطنت عثمانیہ اور برصغیر پاک و ہند کے خطوں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتی تھی۔ پھر برصغیر میں 1857 آیا اور خلافت عثمانیہ 1922 میں انتقال کر گئی، یہ سب کیوں اور کیسے ہوا؟ اس کا دو حرفی جواب سیاسی اختلافات اور حصول اقتدار کی کشمکش تھی۔
انیسویں اور بیسویں صدی تک سیاسی اختلافات عروج پر رہے اور جب اقتدار جاتا رہا تو مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات نے اس کی جگہ لے لی، سلطنت عثمانیہ عرب خطوں میں بٹ گئی اور برصغیر دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث میں تقسیم ہو گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ تقسیم مزید گہری ہوتی گئی اور آج ہم یہاں کھڑے ہیں کہ کوئی بھی کسی بھی وقت دوسرے کو کافر قرار دے سکتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ کفر کے فتوے کے ساتھ اس کی جان بھی لی جا سکتی ہے اور ایسا شب و روز ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز سے مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات میں جو شدت آئی ہے ہم بطور خاص اس کانشانہ بنے ہیں، پچھلے دس بیس سالوں میں فرقہ واریت کے نام پر سینکڑوں اہل علم اور عوام الناس کا خون بہایا گیا اور یہ آگ آج بھی ٹھنڈی نہیں ہوئی۔ ہر مسلک اور فرقے نے اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا رکھی ہے اور ان مسجدوں کے منبر و محراب سے وہ کچھ صادر ہوتا ہے کہ الامان! کیا ان رویوں کے سا تھ ہم آگے بڑھ سکتے ہیں اور کیا اس مزاج کے ساتھ سماج قائم رہ سکتا ہے۔ ایک طرف ہم نیل کے ساحل سے تا بخاک کاشغر کے ترانے گاتے ہیں اور دوسری طرف ایک ہی ملک میں امن و سکون سے نہیں رہ سکتے، کیا کوئی قوم اور ملک قول وفعل کے اس تضاد کے ساتھ دو انچ بھی آگے بڑھ سکتے ہیں۔
آج اہل علم کو یہ بات سمجھنے اور سماج کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اختلافات کا ہونا کوئی معیوب نہیں بلکہ یہ کائنات کی واقعاتی حقیقت ہے، دنیا کا سارا نظام اختلاف کی بنیاد پر چل رہا ہے، پھول کی حفاظت کے لیے کانٹا نہ ہو تو پھول کا وجود ناممکن ہے، دن کے ساتھ رات نہ آئے تو یہ زمینی سیارہ اور اس پر بسنے والے سات ارب انسان بے بس ہو جائیں۔ اگر چوبیس گھنٹے رات ہی رات ہو تو فصلیں اور اناج ناپید ہوجائیں اور انسان بھوک سے مر جائیں، اس لیے زندگی کا حسن اسی میں ہے کہ اسے اختلافات سمیت قبول کیا جائے۔ لازم ہے کہ ہم اپنے مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات میں بھی اس اصول کو قبول کریں اور اسے کائنات کی واقعاتی حقیقت کے طور پر تسلیم کرلیں۔ ہم اپنے بنیادی اعتقادات پر قائم رہیں اور فروعات میں دوسرے مسالک کو بھی سپیس دیں۔ اس وقت من حیث القوم ہمیں ضرورت ہے کہ ہم فروعی مسائل میں جہاد برپا کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے مسلک کااحترام کریں اور فرقوں اور مسلکوں میں بٹی امت کو صرف "ایک امت" بنانے میں کردار ادا کریں۔
تیرھویں صدی عیسوی میں عباسی سلطنت کے زوال کے وقت جو حالات درپیش تھے آج من حیث الامہ ہم انہی حالات سے دوچار ہیں، مسلم ملکوں کے حکمران اپنا اقتدار بچانے کے لیے ضمیر فروشی کی ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔ عرب ممالک امریکہ کی گود میں پنا ہ ڈھونڈ رہے ہیں، افریقی ممالک اور ان کے مسلم عوام غربت سے مجبور عیسائی مشنریوں کے ہاتھوں اپنا ایمان بیچ رہے ہیں اور انڈونیشیا، مصر، ترکی اور پاکستان جیسے بڑے ملک داخلی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی سیاست دانوں کی باہمی کشمکش نے پچھلے چھ سال سے ملک کو جام کیا ہوا، یہ ملک آج بھی دو ہزار چودہ میں کھڑا ہے جبکہ دنیا دوہزار پچاس کی پلاننگ میں مصروف ہے۔ رہی سہی کسر مسلم ممالک میں موجود فرقہ وارانہ کشیدگی نے پوری کر دی ہے، سعودی عرب ایران سے خائف ہے، ایران اپنے جارحانہ عزائم کی وجہ سے عرب ممالک کے لیے خطرہ ہے، شام فرقہ واریت کی آگ میں جل کر بھسم ہو چکا ہے، لبنان میں اس آگ کو ہوا دی جا رہی ہے اور پاکستان میں پچھلے دس بیس سال سے اس آگ کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ لازم ہے کہ ہم اعتدال کے راستے کے مسافر بن کر نئے سفر کا آغاز کریں، بصورت دیگر تقدیر اپنا فیصلہ سنا کر رہتی ہے اور تاریخ ایسے فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔