گمشدہ سیاسی فکر
دہشت گردی کے حالیہ واقعات بالخصوص بلوچستان اور سندھ میں نسل پرستوں کی طرف سے دہشت گردانہ کارروائیوں سے دو پہلو نمایاں طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ پہلا یہ کہ دہشت گردی کا خطرہ چاہے وہ مذہبی شدت پسندوں کی طرف سے ہو یا پھر قوم پرست تشدد پسندوں کی طرف سے ابھی تک موجود ہے۔ دوسرے یہ کہ دہشت گردی کے حالیہ اسباب کو محض طاقت کے استعمال سے ختم کرنا ممکن نہیں بلکہ اس کے لئے جامع حکمت عملی جس میں مصالحت اور مذاکرات دونوں شامل ہوں اس کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں ریاست نے نیم دلی سے سطحی سیاسی آپشن ضرور استعمال کئے ہیں جس کی وجہ سے نتائج مبہم ہیں۔ ریاست کی طرف سے معاملات کے سیاسی حل سے گریز کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسا کرنے سے دہشت گردوں میں ریاست کی کمزوری کا احساس تقویت پکڑ سکتا ہے جبکہ اس طرز عمل کے ناقدین کی دلیل ہے کہ شدت پسندوں سے سیاسی مذاکرات سے ریاست کا اعتماد بحال ہو گا اور دہشت گردوں کے تحفظات دور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ لیکن ریاستی اداروں کا خیال ہے کہ وہ ان مسائل کو طاقت کے استعمال سے حل کر سکتے ہیں جہاں تک ماضی میں سیاسی طور پر معاملات طے کرنے کی کوششوں کی بات ہے وہ بھی اس حکمت عملی کے تحت بروئے کار لائی گئی تھیں۔
سندھ میں دہشت گردی کے واقعات کو تو قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہی نہیں سمجھا جا رہا البتہ بلوچستان میں کارروائیوں کو نچلے اور درمیانے درجے کا خطرہ تسلیم کیا جا رہا ہے۔ باوجود اس بات کے بہت ہی کم امکان ہے کہ مستقبل قریب میں اس قسم کے دہشت گردی کے واقعات کا تدارک ممکن ہو سکے۔ سکیورٹی کے مستقل انتظامات کی بھی اپنی سیاسی اور معاشی قیمت ہوتی ہے اور اس سے معاشرے بالخصوص نوجوانوں میں غم و غصہ پیدا ہوتا ہے۔ بلوچستان میں بی ایل اے ایک بڑی پرتشدد تنظیم ابھر کر سامنے آئی ہے اور اس نے بلوچستان میں کارروائیوں میں خاص طور پر سی پیک کے بعد اپنی کارروائیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ بی ایل اے نے سی پیک کو ٹارگٹ کرنے کے لئے مجید بریگیڈ کے نام سے ایک الگ فورسز قائم کی ہے۔ جو مسلسل چائنہ کے مفادات پر حملے کر رہی ہے۔ کراچی سٹاک ایکسچینج پر حملہ بھی مجید بریگیڈ کی کارروائی تھی۔ گو پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے بروقت کارروائی کرکے حملہ ناکام بنا دیا تاہم دہشت گردعالمی توجہ حاصل کرنے کا اپنا ہدف پانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
حالیہ چند ہفتوں میں سندھ میں امن عامہ اور تشدد کی کارروائیاں کافی عرصہ بعد شروع ہوئی ہیں حالانکہ سندھ میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں کوئی مذہبی گروپ ملوث نہ تھا۔ سندھ کے قوم پرستوں نے جون میں سندھ کے مختلف علاقوں میں پانچ کارروائیاں کر کے اندرون اور بیرون ملک توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ سندھو دیش انقلابی آرمی اور سندھو دیش لبریشن آرمی نے کراچی لاڑکانہ اور گھوٹکی میں رینجر اور احساس پروگرام سنٹر پر حملے کئے ہیں۔ گزشتہ مہینے میڈیا رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ کا جئے سندھ قومی محاذ سمیت ان دونوں گروپوں کو اینٹی ٹیررازم ایکٹ 1997ء کے تحت کالعدم قرار دینے کا فیصلہ بھی سامنے آیا ہے۔ سندھ کے تشدد پسند گروہوں کی کم شدت کے حملے کی ایک تاریخ رہی ہے۔ البتہ جون میں کئے جانے والے حملوں کی شدت اور تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ سندھ کے شدت پسندوں کے حملوں میں اضافے کی وجہ ان کی بلوچستان کے شدت پسندوں سے معاونت اور الحاق ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایس ایل اے اور ایس آر اے نے بلوچستان لبریشن آرمی سے گٹھ جوڑ کیا ہے جو ایس ایل اے اور ایس آر اے کے کارکنوں کو سندھ میں حملے میں لاجسٹک سپورٹ کے عوض تربیت فراہم کر رہی ہے۔ اس اتحاد کے اثرات مستقبل میں نمایاں ہونا شروع ہو جائیں گے۔ سندھ کی شدت پسند تنظیمیں مڈل کلاس اور تعلیم یافتہ طبقے میں سرایت کر رہی ہیں تاہم ان علیحدگی پسند تنظیموں کی سیاسی منظر نامے میں کوئی اہمیت دکھائی نہیں دیتی۔ بلوچستان کی صورتحال سندھ سے یکسر مختلف ہے جہاں عوامی تحفظات گہرے ہیں اور صوبے میں قوم پرستوں کی مزاحمت کی بھی پرانی تاریخ ہے۔ سیاسی حکومتوں نے مصالحت کی کوشش بھی کی مگر رائیگاں گئی۔ 2008ء میں پاکستان پیپلز پارٹی نے آغاز حقوق بلوچستان کے نام سے بلوچستان کے لئے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا۔ اسی طرح وزیر اعظم نواز شریف نے بھی 2015ء میں پرامن بلوچستان پروگرام کے ذریعے ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کی۔ بعد میں تحریک انصاف نے بھی اس پروگرام کو جاری رکھا ہوا ہے، اس پروگرام کے ساتھ نیشنل ایکشن پروگرام بھی جاری ہے جس میں صوبائی حکومتوں کو سیاسی معاملات سیاسی انداز میں حل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو مذہبی دہشت گردوں کے ساتھ اکٹھا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ بلوچستان میں عدم استحکام کی وجوہات خالصتاً معاشی اور سیاسی ہیں اور ان کا حل بھی سیاسی ہی ہونا چاہیے تاہم سیاسی مصالحت کے عمل میں بھی قومی سلامتی کا پہلو غالب رہا ہے۔
گزشتہ ادوار میں سابق وزراء اعلیٰ اسلم رئیسانی اور ڈاکٹر عبدالمالک نے قومی مصالحت کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اس کو بھی بلا کسی جواز کے ختم کر دیا گیا۔ سکیورٹی ادارے سرنڈر کی پالیسی کو فوقیت دے رہے ہیں اور ہتھیار ڈالنے والوں کے لئے مراعات کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ اب پرامن بلوچستان پروگرام کا محور یہی سرنڈر پالیسی ہے باوجود اس کے کہ سیاسی قیادت اور تجزیہ کاروں کی اکثریت اس کو ناکام سمجھتی ہے۔ بہت سے سردار اور سیاسی رہنما مالی فوائد حاصل کرنے کے لئے جعلی طور پر ہتھیار ڈالنے کی تقاریب ترتیب دیتے ہیں جبکہ باغی، جس کو فراری کہا جاتا ہے، بہت ہی کم مقدار میں ہتھیار ڈال رہے ہیں۔
گزشتہ برس بلوچستان حکومت نے 2200فراریوں کو نوکریاں دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس بارے میں اس کے سوا 50فیصد اخراجات وفاقی حکومت نے اٹھانے پر آمادگی ظاہر کی ہے جبکہ یہ رقم بھی 200ملین بنتی ہے لیکن صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ابھی تک یہ رقم جاری نہیں کی گئی اور صوبائی حکومت اپنے وسائل سے یہ پروگرام چلا رہی ہے۔ ہتھیار ڈالنے والے جنگجوئوں کی بحالی اور آباد کاری صوبائی حکومت کے لئے چیلنج بن چکی ہے۔ ہتھیار ڈالنے والوں کو ڈیتھ سکواڈ ٹارگٹ کرنے سے ہتھیار ڈالنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، یہ ڈیتھ سکواڈ بھی اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہے ہیں جس سے سکیورٹی اداروں کی نیک نامی متاثر ہوتی ہے۔ حکومت بلوچستان عوام کی جائز شکایات دور کرنے میں ناکام ہے۔ نواب اختر مینگل نے پی ٹی آئی سے اپنی راہیں جدا کر لی ہیں اور اس کی وجہ وفاق کے اپنے وعدوں پر عملدرآمد سے گریز بتائی ہے۔ اختر مینگل کے حکومت سے معاہدے کی 6شقیں تھیں۔ جن میں گمشدہ افراد کی بازیابی، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد، بلوچستان کے لئے وفاق میں ملازمتوں میں چھ فیصد کوٹہ اورصوبے میں پانی کی قلت کے خاتمے کے لئے ڈیموں کی تعمیر شامل تھی۔ وفاق کے ان مطالبات پر کان نہ دھرنے سے بلوچستان کی عوام کے اچھا پیغام نہیں گیا۔ بلوچستان کے شدت پسندوں کو اور کیا چاہیے ہو گا، جب وفاقی حکومت ان کے بیانیہ کو ہی مضبوط کرنے پر تلی ہوئی ہے۔