ضیا شاہدبھی چلے گئے
چیف ایڈیٹر خبریں اور جدید صحافت کے بانی ضیا شاہد کی رحلت کی خبر عام ناظرین کیلئے ایک اطلاع مگر مجھ جیسے صحافت کے طالب علموں کیلئے کسی سانحہ سے کم نہ تھی، اخبارات کے قارئین اور شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کے نزدیک ضیا شاہد صرف صحافی نہ تھے بلکہ"اپنی ذات میں انجمن تھے"انہوں نے زندگی میں بیک وقت متعدد سمتوں میں کام کیا اور ہر جہت ایک باقاعدہ شعبہ تھی۔ آج صحافت کے بحر بے کراں پر نگاہ دوڑائیں تو پانی کی طرح ضیا شاہدبحر صحافت میں ہر سو دکھائی دیتے ہیں۔ ضیا شاہد بلا شبہ مجھ جیسے ہزاروں صحافیوں کے استاد اور مربی کا درجہ رکھتے ہیں، اگر کہا جائے کہ ضیا شاہد وہ شخصیت ہیں جنہوں نے تن تنہا صحافت میں انقلاب برپا کیا اور اخبار کو خواص کے ڈرائنگ روم کی میز سے اٹھا کر عوام کی چوپالوں، تھڑا ہوٹلوں کی صفوں اور عام لوگوں کی نگاہ کا مرکز بنایا، سڑک پر رکشہ ٹیکسی ڈرائیور سواری کے انتظار میں کھڑا ہے تو اخبار کے مطالعہ میں مصروف ہے، ریڑھی بان کو گاہک کا انتظار ہے تو وقت گزارنے کیلئے اخبار کا مطالعہ اس کا محبوب مشغلہ ہے، اور عام شہری کو اخبار کا قاری بنانے کا سہرا بھی ضیا شاہدکے سر بندھتا ہے۔
1990ءمیں پنجاب یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی تو انہی دنوں روزنامہ پاکستان کی اشاعت و طباعت کا اہتمام بہت کرو فر سے محترم ضیا شاہد کی سربراہی میں کیا جا رہا تھا، راقم نے بھی درخواست دیدی ضیا شاہد نے خود انٹر ویو کیا اور اللہ پاک کی کرم نوازی سے میں سلیکٹ ہو گیا، اس ناطے میرے پہلے ایڈیٹر ضیا شاہد تھے، وہ صرف ایڈیٹر نہ تھے بلکہ استاد تھےِ، صحافت میں ہم جیسے نو وارد ان سے اتنا ڈرتے تھے جتنا پہلی جماعت کا طالب علم اپنے استاد سے، ان کی نظر میں خبر کی اہمیت بہت زیادہ تھی، کسی دوسرے اخبار میں کوئی خبر ہو اور ہمارے پاس نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ہوتا تھا، روزانہ صبح اٹھنے کے بعد ہمارا پہلا کام اخبارات کا مطالعہ ہوتا تھا اور ہم دل میں دعائیں پڑھ رہے ہوتے تھے کہ ہماری کوئی مسنگ نہ ہو، کسی خبر کی مسنگ پر وہ رپورٹر کی باقاعدہ کلاس لیتے تھے، اچھی خبر آنے کے بعد وہ شاباش بھی دیتے، خبر کی ہر جہت کا جائزہ لیتے اور صرف خبر کی اشاعت تک محدود نہ رہتے بلکہ اس کے فالو اپ کو زیادہ اہمیت دیتے، ان کا کہنا تھا یہ وقوعہ تو رونماءہو چکا اور سب کو علم بھی ہو گیا خبر یہ ہے کہ اب کیا ہوگا یا ہونے والا ہے اصل خبر یہ ہے، سیاستدانوں کے بیانات ان کی نگاہ میں کبھی خبر نہ تھے، بڑے سے بڑے لیڈر کی عام باتوں کو وہ عام ہی لیتے مگر کسی عام بندے کی بڑی بات کو اہمیت دیتے، دو سطر کی خبر کو مکمل خبر بنانے کا گر ہمیں ضیا شاہد نے سکھایا، ضیا شاہد چونکہ بنیادی اور فطری طور پر صحافی تھے، اس لئے انہوں نے اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی بھی تربیت اسی نہج پر کی جس کا نتیجہ ہے کہ ملک بھر کے اخبارات میں آج روزنامہ پاکستان اور روزنامہ خبریں سے تربیت یافتہ اور ضیا شاہد کے تیار کردہ صحافی ہی اہم اور کلیدی عہدوں پر دکھائی دیتے ہیں، اگر ضیا شاہد کو صحافت اور صحافیوں کا آسمان کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
روزنامہ پاکستان سے علیحدگی کے بعد ضیا شاہد نے خبریں کا ڈول ڈالا اور پاکستان میں اپنے ہاتھوں سے تیار کردہ ٹیم کو ساتھ لے آئے اور اسی ٹیم کیساتھ خبریں کی اشاعت کا آغاز کیا اور پاکستان کی طرح خبریں کو بھی ایک کامیاب اخبار بنایا، یہ سب ان کی محنت اور ذہانت کا نتیجہ تھا، دو سال کے مختصر عرصہ میں دو کامیاب اخبار متعارف کرانا ضیا شاہد ہی کا طرہ امتیاز ہے جواور کسی کے حصے میں نہیں آیا، ضیا شاہد نے صحافت کو صرف معلومات کے ذریعے تک محدود نہیں رہنے دیا، بلکہ صحافت کے ذریعے خدمت کی روایت قائم کی، ظالم کیخلاف مظلوم کا ساتھ، اور صرف خبر دینے کی حد تک نہیں بلکہ خبر دینے کے بعد مظلوم کی داد رسی اور ظالم کو سزا ملنے تک خبر کا فالو اپ ضیا شاہد کا ہی کام تھا۔ صحافت کو سماجی خدمت کا ذریعہ بنا نابھی ضیا شاہد ہی کا اعزاز ہے، کسی مظلوم کی خبر کی اشاعت کے بعد اہل خیر حضرات سے اس کی مدد کی اپیل اور مدد کو یقینی بنانا ضیا شاہد کی صحافت کا بنیادی مقصد تھا، جہاں ظلم وہاں خبریں کا نعرہ اسی وجہ سے آج بھی زبان زد عام ہے اور جس کو کہیں سے انصاف نہیں ملتا وہ خبریں سے رابطہ کر کے انصاف کے حصول کا امید وار بن جاتا تھا۔
ضیا شاہد نے قومی مسائل کو بھی اپنی صحافت کا مرکز بنایا، پانی کا ضیاع اور قلت عالمی مسئلہ ہے اور پاکستان بھی اس مسئلہ کا شکار ہے مگر کسی صحافی نے اس حوالے سے حکمرانوں اور قوم کی رہنمائی نہ کی مگر ضیا شاہد نے پانی کے مسئلہ کو اس انداز سے اٹھایا کہ مدت بعد پاکستانی شہریوں کو سندھ طاس معاہدے کی حقیقت سے آشنائی ہوئی، اس حوالے سے ضیا شاہد نے باقاعدہ ایک کتاب بھی مرتب کی، صرف یہی نہیں ضیا شاہد نے صحافتی خدمات کیساتھ متعدد کتابو ں کی تصنیف بھی کی، انٹر ویوز میں جدت کے بانی بھی ضیا شاہد ہیں، جمہوریت کیلئے بھی ان کی جدو جہد سنہری الفاظ میں لکھی جائیں گی اور اس جرم میں وہ بھٹو دور میں جناب مجیب الرحمٰن شامی کیساتھ شاہی قلعہ کے مہمان بھی رہے، اپوزیشن کے جلسوں میں زوردارآواز میں جمہوریت دشمنوں کو بھی للکارتے رہے، لیکن سیاستدانوں کی غلطیوں سے بھی صرف نظر نہ کیا اور جہاں کسی سیاسی حکمران نے ملک وقوم کیخلاف فیصلے کئے ضیا شاہد ننگی تلوار بن کر سامنے آئے۔
صحافت اور سیاست، سماج اور معاشرہ اس عظیم انسان کے ہمیشہ قرض دار رہیں گے، جس انداز سے ضیا شاہد نے زندگی بسر کی وہ بھی ایک تاریخ ہے، "یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں "ضیا شاہد یہ کہتے کبھی نہ شرمائے کہ ابتدائی زندگی میں انہوں نے دن رات محنت کی، تعلیمی اخراجات پورے کرنے کیلئے اپنی خوش خطی کا جلوہ دیواریں لکھ کر دکھایا، اخبارات اور رسائل کیلئے مترجم کی حیثیت سے کام کیا اور اس کے باوجود ایم اے اور بی اے آنرز میں گولڈ میڈلسٹ تھے، ان کی خدمات کے اعزاز میں حکومت پاکستان نے انہیں اعلیٰ ترین سول ایوارڈ نشان امتیاز سے نوازا، لیکن ان کا اصل اعزاز یہ ہے کہ وہ ایک عرصہ اخبارات، تصانیف اور قارئین کے دلوں کی دھڑکنوں میں زندہ وسلامت رہیں گے اور ہم جیسے صحافت کے طالب علم ان کے ہمیشہ مشکور اور ممنون رہیں گے، ان کے ساتھ میں نے کلیدی عہدے پر کام کیا ہے بڑی یادیں ہیں جو کسی وقت لکھوں گا، ابھی تو ان کے غم میں دل بھاری ہے، دعا ہے اللہ کریم ضیا شاہد کی غلطیوں، کوتاہیوں سے صرف نظر کر کے ان کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے اور ورثاءکو صبر جمیل عطا فرمائے۔