یہ کیسی سیاست ہے؟
سینیٹ الیکشن کے حوالے سے قارئین کو ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے تمام معلومات مل چکی ہیں، حالیہ الیکشن میں کچھ ایسی خامیاں اور برائیاں سامنے آئی ہیں جو مہذب معاشرے میں گالی گردانی جاتی ہیں، ان نقائص میں کچھ تو آئینی ہیں ان کو فوری دور کرنے کی ضرورت ہے مگر یہ پارلیمنٹ کا کام ہے، مگر اس کا کیا کیا جائے کہ یہ سقم ماضی میں سیاسی ادوار حکومت میں ہی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے اس وقت کی حکومتوں نے رکھے، کچھ اخلاقی برائیاں بھی سامنے آئی ہیں ان کو دور کرنے کیلئے سیاستدانوں کو اپنے روئیے تبدیل کرنا ہونگے اگرچہ وزیر اعظم عمران خان نے سینیٹ الیکشن میں خرید و فروخت روکنے کیلئے اوپن بیلٹنگ کی تجویز پیش کی، آرڈیننس کا اجراءکیا گیا مگر اپوزیشن نے میں نہ مانوں کی رٹ لگائے رکھی اور سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا، حالانکہ اگر کھلی رائے شماری ہوتی تو اپوزیشن کو بھی اپنے ارکان کے اِدھر ا±دھرہونے کا خدشہ نہ رہتا، مگر چونکہ ہمارے سیاستدان خود ایسے راستے کھلے رکھتے ہیں جن کے ذریعے سے دھاندلی یا ہارس ٹریڈنگ کی جا سکے، ان خامیوں کو قانون سازی کے بجائے ذہن سازی سے دور کیا جا سکتا ہے، جس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت اور سیاسی جماعتیں اپنے ارکان کی اخلاقی تربیت کریں۔
سپریم کورٹ نے اگر چہ حالات اور ماحول کے مطابق اس حوالے سے بہت مناسب رائے دی، اور گیند اٹھا کر سیاستدانوں اور الیکشن کمیشن کے کورٹ میں پھینک دی، معزز عدالت کے یہ ریماکس کہ اگرآئین میں خفیہ بیلٹنگ بارے ہدائت موجود ہے تو پھر سینیٹ الیکشن خفیہ ہی ہو گا، آئین کے احترام کا بہترین سبق ہے، جس کی تقلید سیاستدانوں کو بھی کرنی چاہئے، الیکشن کمیشن نے بھی سپریم کورٹ کی رائے کی روشنی میں سب کو سنا مگر تنگی وقت کا عذر پیش کرتے ہوئے سینیٹ کے انتخابات پرانے طریقے کے مطابق کرانے کا فیصلہ کیا، جسے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کمزور موقف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنے کے لیے ٹیکنالوجی موجود ہے، سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کو سینیٹ انتخابات منصفانہ، شفاف اور ایماندارانہ طریقے سے کرانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی ہدایات بھی جاری کی تھیں، الیکشن کمیشن نے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ سپریم کورٹ کی رائے کے عین مطابق سینیٹ کے انتخابات آئین اور قانون کے تحت خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوں گے۔
کمیشن نے منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کی غرض سے ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا جو ایف آئی اے، نادرا، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دوسرے ماہرین سے استفادہ کر سکے گی، آئندہ چار ہفتوں میں کمیٹی کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی، فواد چوہدری نے کہا کہ وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن کو اس سلسلے میں ہرممکن معاونت پیش کی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں اس کام کو سر انجام دینے کے لیے ٹیکنالوجی موجود ہے، انہوں نے کرنسی نوٹوں کی چھپائی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب پاکستان میں روزانہ لاکھوں نوٹ چھاپے جا سکتے ہیں تو 15، 16 سو بیلٹ پیپرز کیوں نہیں چھاپے جا سکتے؟ اب معاملہ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے درمیان ہے کیونکہ کمیشن کا کام صرف بیلٹ پیپر بانٹنا اور اکٹھے کرنا نہیں ہے بلکہ انتخابات کو شفاف اور منصفانہ بنانا بھی ہے۔
پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی کوششوں سے پر امن اور منصفانہ طور پر ارکان سینیٹ کو بلا مقابلہ منتخب کرا لیا گیا اور کسی طرف سے کوئی اعتراض آیا نہ کسی نے دھاندلی کا شکوہ کیا اور نہ خرید و فروخت کا کوئی امکان چھوڑا گیا، یہ پریکٹس دیگر صوبوں میں بھی اپنائی جا سکتی تھی، ایسا ہو جاتا تو سندھ میں تحریک انصاف کے تین ارکان منحرف نہ ہوتے، بلوچستان سے یار محمد رند اور نصیب مری بغاوت نہ کرتے، اوپن بیلٹنگ میں سب کھل کر سامنے آجاتے، کے پی کے میں مطلوبہ تعداد میں ارکان نہ ہونے پر زرداری اپنے دو سینیٹرز کامیاب نہ کرا پاتے، یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی گیلانی کی مخالفین کو یہ ہدایت دینے کی ضرورت نہ پڑتی کہ پارٹی امیدوار کے مخالف کو بیشک ووٹ نہ دو مگر اپنے پارٹی امیدوار کو دیا جانیوالا اپنا ووٹ ضائع کر دو اور نہ ووٹ ضائع کرنے کے گر سمجھانا پڑتے، پھر سب آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ووٹ کاسٹ کرتے اور قانون بھی وہ جو اپوزیشن نے اپنے دور میں منظور کرائے تھے۔
سپریم کورٹ کا آئین کے تحت خفیہ رائے دہی کا فیصلہ آتے ہی اسلام آباد میں ہلچل مچ گئی، جو بے مول تھے وہ ان مول اور جو بے وقعت تھے وہ گراں قدر ہو گئے، اپوزیشن جماعتوں میں تیاری ہو رہی ہے آنے والے دنوں کے خوش کن خیال سے نہال دکھائی دے رہے تھے، ان حالات میں حمزہ شہباز کی ضمانت پر رہائی نے بھی اندر کھاتے کچھ نہ کچھ ہونے کا پتہ دیا، کچھ لوگوں کو امید ہے کہ شہباز شریف بھی جلد باہر آجائیں گے، اگر شہباز شریف جیل سے باہر آگئے تو وہ مفاہمت کی راہ اختیار کر سکتے ہیں شہباز شریف باہر نہیں بھی آتے تو اب ان کے لیے حمزہ کے ذریعے پارٹی چلانا آسان ہو گا جبکہ مریم نواز کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا ضرور ہو سکتا ہے، دوسری جانب مریم نواز کے باہر جانے کی خبروں میں شدت آ رہی ہے، نواز شریف مطمعن اورآصف زرداری انتہائی مطمئن دکھائی دے رہے ہیں، مریم اگر باہر بھیج دی جاتی ہیں تو شہباز شریف سیاست کا رخ تبدیل کر سکتے ہیں، ہوائیں پتہ دے رہی ہیں سینیٹ انتخابات کے بعد اور لانگ مارچ سے پہلے کچھ اور تبدیلیاں بھی رونما ہو سکتی ہیں، وہ تبدیلیاں کچھ اور اعتدال پسندی کا تقاضا کر سکتی ہیں، پارلیمنٹ کو تھوڑی سی اور آزادی ان ہاؤس تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے جس کے لیے ن لیگ تیار نہیں، ماضی کے کچھ واقعات کی طرح امکان ہے کہ آصف زرداری قلیل المدتی سیٹ اپ کے لیے اپوزیشن کو تیار کر لیں اور شفاف انتخابات کی راہ ہموار ہو جائے، بہر حال اس ساری صورتحال میں اداروں کا آزاد اور معتدل رہنا ضروری ہو گا۔
اب تک کی اپوزیشن سیاست کا مرکز و محور عمران خان کی مخالفت رہا ہے، تحریک انصاف حکومت پر جو جو الزامات عائد کئے جا رہے ہیں وہ سب گر ماضی کے حکمرانوں نے بھی اپنائے مگر آج وہ حربے گالی بن چکے، اہم حکومتی رہنماءبھی شش و پنج کا شکار ہیں خاص طور پر تحریک انصاف میں موجود فصلی بٹیرے ادھیڑ بن کا شکار ہیں، سندھ اسمبلی میں ہونے والی مار کٹائی بھی اسی صورتحال کا پیش خیمہ دکھائی دیتی ہے، آئین میں جو ترامیم ضروری ہیں وہ تو اپنے وقت پر ہوں گی مگر وقت آگیا ہے کہ سیاستدان اپنے لئے ایک ضابطہ اخلاق مرتب کر کے اس پر عملدرآمد یقینی بنا کر سیاسی ماحول کو کشیدگی اور محاذ آرائی سے بچائیں ورنہ حالات اسی اور نوے کی دہائی کی سیاسی افراتفری کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔