سیاسی گرما گرمی
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی قیادت آخر کار اجتماعی استعفوں پر متفق ہو گئی، لیکن اس کیساتھ جو راہ اپنانے کی تیاری کی گئی ہے اس کا نتیجہ ملک میں سیاسی خلفشار اور تصادم کی شکل میں نکل سکتا ہے، میاں نواز شریف نے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں ایک مرتبہ پھر مقتدر ادارے کو نام لئے بغیر تنقید کا نشانہ بنایا، مولانا فضل الرحمٰن بھی ان کے ہمنواءدکھائی دئیے، دلچسپ بات یہ کہ استعفوں پر اتفاق رائے کے باوجود اتحاد کی دو بڑی جماعتوں میں اختلاف دکھائی دیا، نواز شریف نے ان ہاؤس تبدیلی کیلئے تحریک عدم اعتماد لانے کی زرداری کی تجویز سے اتفاق نہ کیا۔ سابق صدرآصف زرداری نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ اپنے استعفے بے شک پارٹی سربراہ کو پیش کر دیں مگر سپیکر صاحبان کے حوالے کرنا آخری آپشن ہونا چاہیئے اور اس سے قبل مرکز اور پنجاب میں عدم اعتماد کی تحاریک پیش کی جائیں اس کیلئے اگر پنجاب میں مسلم لیگ ق کو ساتھ ملا یا جائے تو کامیابی ممکن ہے، مگر نواز شریف نے اس سیاسی اور جمہوری حل کو در خور اعتناءنہ جانا اور برملاکہا جو قوت عمران خان کو لے کرآئی ہے وہ تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
مولانا فضل الر حمٰن بھی عدم اعتماد تحریک کے حامی تھے، مگر نواز شریف نے ان کی بات کو بھی اہمیت نہ دی، اس موقع پر یہ خدشہ بھی پیش نظر رہا کہ اس تحریک کے نتیجے میں مارشل لاءکا نفاذ ہو سکتا ہے، جس پر نواز شریف خاموش رہے مگر فضل الر حمٰن نے واضح کہا کہ ایسا ہواتو جتنے ذمہ دار عمران خان ہونگے اتنی ہی ذمہ داری ان کو لانے والوں پر بھی عائد ہو گی۔ محسوس ہوتا ہے میاں نواز شریف فوری اقتدار کا ہما اپنے کاندھے پر بٹھانا چاہتے ہیں ورنہ ان کی خواہش کہ کوئی سیاسی حکومت بننے کے بجائے ملک میں مارشل لاءہی لگ جائے تاکہ ان کو مقدمات، ریفرنسز اور سزاؤں سے نجات مل سکے، یا کچھ ریلیف ہی مل جائے جیسے مشرف دور میں ملک بدر کر دیا گیا تھا، آصف زرداری مگر فوری طور پر سندھ حکومت کی قربانی دینے کو آمادہ نہیں، مولانا فضل الرحمٰن نے اس حوالے سے ایک انٹر ویو میں اس خدشہ کی تائید کی ہے۔
میاں نواز شریف نے اجلاس میں ایک اور تجویز پیش کی ہے کہ تمام اتحادی جماعتیں دس سالہ معاہدہ کریں جس کے تحت جو بھی حکومت بنے گی اس کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں گے اور اس کیخلاف کسی تحریک کا حصہ نہیں بنا جائے گا، اس تجویز کے پس پردہ ان کا یہ یقین ہے کہ عام الیکشن میں مرکز اور پنجاب میں انہی کو کامیابی ملے گی، سندھ وہ پہلے ہی دل وذہن سے نکال کر پیپلز پارٹی کو دے چکے ہیں اور ان کو سندھ سے کوئی دلچسپی بھی نہیں، ان کی نظر مرکز اور پنجاب پر ہے، تمام پارٹیاں مل کر بھی کے پی کے میں حکومت نہ بنا سکیں تو شائد وہ تحریک انصاف کا حق حکمرانی تسلیم کر لیں، بلوچستان میں کبھی بھی کسی پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کر کے تنہا حکومت نہیں بنائی بلکہ مخلوط حکومت بنی تاہم یہ صوبہ بھی ان کی فہرست میں نہیں ہے، دس سالہ معاہدہ کی تجویز کا مقصد مستقبل قریب میں اپنے خلاف کسی ممکنہ ردعمل کی راہ روکنے کےلئے دی گئی ہے تاکہ وہ اقتدار میں آکر وہی مطلق العنانی قائم کر سکیں، جس کا انہوں نے ہمیشہ مظاہرہ کیا۔
اجلاس کی اندرونی کہانی کے راویان کے مطابق اگر چہ اجتماعی استعفے لینے کا مشترکہ فیصلہ ہو چکا مگر یہ کب سپیکر صاحبان کو پیش کئے جائیں گے اس پر کوئی بات نہیں ہوئی، گمان ہے کہ آصف زرداری سندھ اسمبلی کے اپنے ارکان کے استعفے بغیر کسی واضح یقین دہانی کے سپیکر کو پیش نہیں کریں گے اور جب تک استعفے سپیکر صاحبان کے سپرد نہیں کئے جاتے ان کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں، یوں یہ اجلاس بھی اندر خانے اختلافات کا شکار ہی رہا اور جو فیصلے مشترکہ ہوئے وہ نا مکمل اور مبہم ہیں۔
اپوزیشن اتحاد کے دیگر اہم فیصلوں میں تمام بڑے شہروں میں جلسوں کا انعقاد اور ملک بھر میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام کی کال دینا ہے جس کی تاریخ کا اعلان سٹیئر نگ کمیٹی کے اجلاس کے بعد ہو گا، اہم ترین فیصلہ جنوری 2021ءمیں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا ہے اگر چہ اس کی بھی فائنل تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا، لیکن یہاں سے تصادم اور انتشار کا راستہ کھلے گا اگر حکومت لانگ مارچ کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالتی اور ہجوم کو وفاقی دارالحکومت میں داخل ہونے اور کسی خاص مقررہ مقام پر دھرنا دینے کی اجازت دے دیتی ہے تو یہ مارچ اسلام آباد میں داخلہ کے بعد مقررہ مقام تک محدود نہیں رہے گا کہ نواز شریف جس قدر تلملا رہے ہیں وہ کارکنوں کو آگے سے آگے بڑھنے پر اکسائیں گے جس کے نتیجے میں فورسز کو حرکت میں آنا پڑے گا اور اگر یہ ہجوم بے قابو ہو گیا تو فوج کا طلب کیا جانا ناگزیر ہو جائیگا، جس کے بعد بھی ہجوم قابو نہ آیا تو پھر اگلا اقدام کیا ہو گا یہ نواز شریف اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں کیلئے خفیہ راز نہیں، حکومت بھی جانتی ہے کہ کیا ہو سکتا ہے۔
حکومت کی سیاسی دانشمندی کا بھی اب امتحان ہے، صورتحال کا مقابلہ کرنے کا آسان حل تو یہ ہے کہ اپوزیشن کے کارکنوں کو ان کے شہروں میں ہی روک دیا جائے، اسلام آباد میں داخلے کی اجازت ہی نہ دی جائے، اس مقصد کیلئے رینجرز اور ایف سی کی خدمات پہلے سے ہی حاصل کی جا سکتی ہیں کہ پولیس کے لئے ہجوم بیکراں کو روکنا ممکن نہیں ہو گا، دیگر شہروں میں جلسوں کی کھلی اجازت دینے میں کوئی حرج نہیں ہو گا، مگر اسلام آباد سے ان کو دور رکھا جائے، کہ اگر کسی مذموم سازش کے تحت اس ہجوم میں شامل تخریب کاروں نے حساس ادارے کی کسی تنصیب پر ہلہ بول دیا تو حالات کو کنٹرول کرنا کسی کیلئے ممکن نہیں رہے گا اور وہی ہو گا جو نواز شریف کی خواہش ہے یعنی ماشل لاءکا نفاذ، آصف زرداری اس پلان سے کچھ نہ کچھ آگاہ ہیں اس لئے بہت احتیاط سے آگے بڑھ رہے ہیں بولتے بھی نپا تلا ہیں، اور اگر نواز شریف نے اپنی مرضی ٹھونسنے کی کوشش کی جو اب تک وہ کر رہے ہیں تو اپوزیشن اتحاد کا وجود تسبیح کے دانوں کی مانند بکھر سکتا ہے۔