سیا سی بحران اور پنجاب کا کردار
ملک میں پیدا ہونے والے حالیہ سیاسی بحران کے حل میں پنجاب کا کردار انتہائی اہم رہا، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور سپیکر چودھری پرویز الٰہی نے پر امن اورتنازعات سے عاری سینیٹ الیکشن کامیابی سے کرائے، پنجاب کی نشستوں پر تو چودھری پرویز الٰہی کی برد باری اور فیض عام فارمولے نے مثالی پر امن الیکشن کرا کے ناقدین کے منہ بند کر دئیے، یہ صورتحال پتہ دیتی ہے کہ پنجاب کا کلہ اب بھی مضبوط ہے، اس کا کریڈٹ سردار عثمان بزدار اور چودھری پرویز الٰہی کی مشترکہ کاوشوں کو نہ دینا زیادتی ہو گی۔ چودھری پرویز الٰہی حکومت کے مضبوط اتحادی ہیں انہوں نے سپیکر کی حیثیت سے حکومت کو بے شمار دفعہ بحران سے نکالا، سیاسی طور پر بھی جتنا پنجاب کو وہ سمجھتے ہیں اس وقت شائد ہی کوئی اور سمجھتا ہو۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ چودھری پرویز الٰہی کو تمام معاملات کے لئے اعتماد میں لیا کریں اور اگر ان کے کوئی مطالبات ہیں تو انہیں ترجیہی بنیادوں پر حل کریں، چودھری پرویز الٰہی کے صاحبزادے چودھری مونس الہٰی ایک تجربہ کار پارلیمنٹیرین ہیں، ان کو وفاقی وزیر بنائیں گے تو نہ صرف پنجاب کے معاملات بہتر ہوں گے بلکہ وزیر اعظم اور اتحادیوں کے اعتماد میں بھی اضافہ ہو گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی سیاسی اور انتظامی معاملات میں اب نکھر گئے ہیں۔ جس طرح ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اسی طرح ہر حکمران، ہر وزیر اعلیٰ کی کامیابیوں کے پیچھے اس کے پرنسپل سیکرٹری کا ہاتھ ہوتا ہے۔ موجودہ سیا سی بحران کے حل میں پنجاب کی حد تک وزیر اعلیٰ بزدار کے پرنسپل سیکرٹری برائے وزیر اعلیٰ طاہر خورشید کا کردار بھی انتہائی اہم اور شاندار رہا، انہوں نے نہائت ذہانت اور محنت سے ارکان اسمبلی کو راضی رکھا، کسی کو ناراض نہ ہونے دیا سب کے جائز کام فوری کرائے اور جو فوری نہ ہو سکتے تھے ان کی فائلوں کو تیزی سے آگے بھیجا، جس کی وجہ سے ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی کو کسی قسم کے خدشات لاحق نہ ہوئے، انہی خوبیوں کی بناءپر ان کے اپنے ساتھی کچھ بیوروکریٹ ان سے حسد کرتے ہیں، مگر طاہر خورشید نے خود کو ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر اور کوآرڈینیٹر تسلیم کرایا، ان کی وجہ سے وزیر اعلیٰ اور پنجاب حکومت کی بہت سی دیکھی اور ان دیکھی مشکلات دور ہو گئیں، اس کے علاوہ پچھلے دنوں لوکل گورنمنٹ بل اور جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو موثر اور مضبوط بنانے میں بھی طاہر خورشید نے مثبت کردار ادا کیا، ضروری ہے کہ وزیر اعلیٰ طاہر خورشید جیسے افسروں کی ٹیم بنائیں تاکہ ان کی حکومت کی کارکردگی بہتر سے بہتر ہو۔ پنجاب میں مضبوط بیوروکریٹس کی ٹیم اس لئے بھی ضروری ہے کہ اپوزیشن وزیر اعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے میں ناکامی کے بعد وزیر اعلیٰ بزدار کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، اپوزیشن کے خیال میں وزیر اعلیٰ نے دو ڈھائی سال محنت کے بعد اپنے اعتماد کے جن بیورو کریٹس پر مشتمل انتظامی ٹیم تشکیل دی ہے وہ ان کو مضبوط سے مضبوط تر کر رہی ہے، اگر پنجاب پر عمران خان کی گرفت مضبوط رہی تو پھر ان کو آئندہ الیکشن میں بھی اقتدار سے باہر کرنا ممکن نہیں ہو سکے گا لہٰذا پنجاب میں تحریک انصاف کوکمزور کرنے پر اپوزیشن اپنی تمام توجہ مرکوز کرنے کی تیاری کر رہی ہے، لیکن اگر عثمان بزدار کی انتظامی ٹیم مضبوط ہوئی تو ان کی حکومت کو تو کوئی خطرہ نہیں ہو گا بلکہ مرکز اور دیگر صوبوں میں بھی تحریک انصاف کی بنیادیں مضبوط ہو جائیں گی، اپوزیشن قومی اسمبلی میں بھی خلل ڈالنے کیلئے منصوبہ بندی کر رہی ہے، اس کیلئے سپیکر اسد قیصر ان کا پہلا ٹارگٹ ہو سکتے ہیں، لیکن اس کوشش کو بھی مضبوط بیوروکریسی کے ذریعے ہی ناکام بنایا جا سکتا ہے جو ارکان اسمبلی کو خوش رکھے اور ان کو ناراض نہ ہونے دے۔ تحریک انصاف اور اتحادیوں کے اکثر ارکان کو ایوان وزیر اعظم کے اہم افسران سے بہت شکوے ہیں جن کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا ہے جب کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے اس موقع پر اجلاس کا بائیکاٹ کیا، خصوصی اجلاس میں وفاقی وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے آئین کے تحت اعتماد کے ووٹ کے لیے قرار داد پیش کی، تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کے 178ارکان نے وزیر اعظم پر اعتماد کا اظہار کیا، اجلاس میں ان دو ارکان نے بھی شرکت کی جو سینیٹ الیکشن کے دوران علی گیلانی کی خرید و فروخت مہم کا بھی حصہ رہے، باقی 14ارکان کون ہیں جنہوں نے پارٹی امیدوار حفیظ شیخ کے بجائے یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا، ان کیخلاف کیا کارروائی ہوتی ہے اس بارے میں ابھی پارٹی قیادت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا، بحرحال وزیر اعظم اعتماد کا ووٹ لیکر قوم کے سامنے سرخرو ہو گئے، اگر چہ اخلاقی طور پر اپوزیشن کو اس اجلاس میں شرکت کرنا چاہئے تھی کیونکہ اعتماد کا ووٹ لینے کا شوشہ ان کی طرف سے چھوڑا گیا، اب کہتے ہیں کب عدم اعتماد لانا اور کس کیخلاف اس کا فیصلہ ہم کریں گے، اپوزیشن گیلانی کی کامیابی کو ہی اپنی فتح اور عدم اعتماد قرار دے رہی ہے، مگر اس الیکشن میں کی جانے والی ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے خاموش ہے جس کیلئے خود نواز شریف اور زرداری مشورے اور اتفاق رائے سے 17ویں ترمیم لیکر آئے تھے۔
یہ صورتحال ہمارے سیاسی زعماؤں کی بے اصولی کی ایک گھناؤنی مثال ہے، ایک طرف آئین کی بالادستی کا شور و غوغا دوسری طرف آئین کی کھلے بندوں خلاف ورزی اور اس پر ڈٹے رہنا اخلاقی پستی کی بد ترین مثال ہے، تحریک انصاف اور اتحادیوں کو 180ارکان کی حمایت حاصل ہے، سپیکر اسد قیصر اس تحریک کا حصہ نہیں بن سکتے تھے، جبکہ ایک رکن غیر حاضر رہے، وزیر اعظم کو 171ارکان کی حمائت کی ضرورت تھی مگر 178ارکان نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا، وزیر اعظم اب عدم اعتماد کی تحریک سے آئندہ چھ ماہ کیلئے محفوظ ہو چکے ہیں کہ آئین کے تحت ایک مرتبہ وزیر اعظم اعتماد کا ووٹ لے لے چھ ماہ تک ان کیخلاف تحریک عدم اعتماد نہیں لائی جا سکتی۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی غیر موجودگی میں اس اجلاس کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی، سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد کی جنرل سیٹ پر یوسف رضا گیلانی کی کامیابی ہی قومی اسمبلی کا وزیر اعظم عمران خان پر عدم اعتماد کا اظہار تھا، تاہم حزب اختلاف کے رہنما قومی اسمبلی کے بائیکاٹ سے متعلق فیصلے کی منطق کے بارے میں سوالات ٹالتے رہے، منطق کچھ بھی ہو اصل میں اپوزیشن رہنما جانتے تھے کہ وزیر اعظم اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، اور ان کی سبکی ہو گی لہٰذا خجالت مٹانے کی غرض سے اپوزیشن نے بائیکاٹ کا کھمبا نوچا، اور اب اپنی پالیسی میں نظر ثانی کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی کیخلاف عدم اعتماد لانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔