پنجاب اور موجودہ بیوروکریسی
پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار جب تخت لاہور پر متمکن ہوئے تو بہت سوں کو تکلیف ہوئی تھی، ایک نیا چہرہ کسی مووی میں بھی ہو تو شروع میں لوگوں کو اس کی کارکردگی کم ہی پسند آتی ہے، اگر اس نئے چہرے کے کام میں جان ہو تو رفتہ رفتہ وہی کردار چھا جاتا ہے اور جان نہ ہو تو وہ قصہ ماضی بن جاتا ہے۔ عثمان بزدار بھی اڑھائی سال پہلے نئے نئے تھے، ان کا موازنہ ان سے پہلے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ کیا جاتا تھا، جو اس صوبے پر کئی کئی دہائیوں تک بادشاہت کرتے رہے تھے، بادشاہت اور عوامی سیاست میں بہت فرق ہوتا ہے، بادشا ہ قسم کا وزیر اعلیٰ مطلق العنان ہوتا ہے اور عوامی وزیر اعلیٰ اپنے وزیر اعظم، ارکان اسمبلی اور عوام کو جوابدہ ہوتا ہے۔ عثمان بزدار کی کارکردگی اب لوگوں کو پسند آرہی ہے مگر اب ان کی لگائی ہوئی بیوروکریسی پر بڑی تنقید ہو رہی ہے کہ فلاں افسر اچھا تو فلاں برا ہے۔ سیکرٹریوں، کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں پر الزام لگائے جاتے ہیں کہ وہ کام نہیں کرتے یا پھر پیسے لے کر کام کرتے ہیں۔
پچھلی حکومت میں تعلقات کی بنا پر پرائز پوسٹوں پر موجیں کرنے والے اب ایک ریٹائرڈ افسر مجھے کہہ رہے تھے، گورایہ صاحب اب پیسے لے کر ڈپٹی کمشنر لگائے جاتے ہیں، میں نے ان سے مذاق میں پوچھ لیا آپ سے قابل اور اہل افسر پچھلے دور میں راندہ درگاہ تھے مگر آپ میں کیا خاصیت تھی کہ ٹاپ پوسٹنگز ان کی بجائے آپ کو ملتی تھیں؟ میں نے ان سے کہا کہ جن ڈپٹی کمشنروں کو میں جانتا ہوں ان میں سے تو کوئی پیسے دے کر نہیں لگا، میں اپنے ابائی ضلع قصور کی حال ہی میں تعینات خاتون ڈپٹی کمشنر آسیہ گل کو جانتا ہوں، انتہائی محنتی، مثبت سوچ اور کام کرنے والی ہیں۔ انہوں نے محکمہ لوکل گورنمنٹ میں انتہائی جانفشانی سے کام کیا، اب ضلع قصور کی سرکاری زمینوں پر ناجائز قابضین سے قبضے چھڑانے کے لئے متحرک ہیں، خاتون ہو کر مرد وں سے زیادہ کام کر رہی ہیں۔
ڈپٹی کمشنر لاہور مدثر ریاض ملک، ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ اصغر جوئیہ یا پھر ڈپٹی کمشنر ننکانہ صاحب راجہ منصور ہوں یہ سب اپنی محنت اور کارکردگی کے بل بوتے پر لگائے گئے ہیں، ہاں سیاسی باسز کی چوائس کے مطابق ہیں اور اس پر تو پابندی نہیں اور ان سب کے باس کمشنر لاہور ڈویژن ذوالفقار گھمن تو قانون ضابطے پر چلنے والے سخت گیر، محنتی اور اچھے افسر ہیں، ان جیسوں پر پیسے د ے کر لگنا یا پیسے لینے کا الزام تو دور کی بات یہ تو کسی کو پیسے لینے بھی نہیں دیتے، اصل میں ہماری بد قسمتی ہے کہ جو افسر قانون ضابطے کے مطابق کام کرے وہ ہمیں پسند نہیں آتا اور جو افسر ہماری منشا کے مطابق کام نہ کرے اس کے بارے کہہ دیتے ہیں کہ وہ کام ہی نہیں کرتا۔ کسی بھی افسر کی کارکردگی کو جانچنے کے لئے مختلف پیمانے ہوتے ہیں اس کے کسی ایک فعل سے اس کو اچھا یا برا افسر ڈیکلیئر نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بات درست ہے کہ اس وقت بیوروکریسی میں سب اچھا کی رپورٹ نہیں ہے مگر اب بھی کلیدی عہدوں پر وہی افسر چھائے ہوئے ہیں جن کی میاں شہباز شریف تعریفیں کیا کرتے تھے۔ ایک صاحب مجھے کہہ رہے تھے کہ چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک سے بالا بالا کام ہو رہے ہیں، انہیں تو کوئی پوچھتا ہی نہیں وہ تو زیرو کر دیئے گئے ہیں، میں ہنس پڑا اور کہا جواد رفیق ایک دھیمے مزاج کا افسر ضرور ہے جس دن اسے زیرو کرنے کی کوشش ہوئی یا اس سے بالا بالا کام ہوئے وہ یہ عہدہ ہی چھوڑ دے گا، یہ اس کے لئے آخری عہدہ نہیں ہے ابھی تو اس کی سروس کے چار سال باقی ہیں۔ اسی طرح ایوان وزیر اعلیٰ میں طاہر خورشید اور ساجد ظفر ڈل جیسے محنتی اور قابل افسر بیٹھے ہیں، ایوان وزیر اعلیٰ پچھلے دو اڑھائی سالوں میں اتنا متحرک نہیں تھا جتنا اب ہے۔ ملک، صوبہ، ضلع ہو یا پھر تحصیل کوئی ایک انتظامی یونٹ بھی منظم اور منضبط سسٹم کے تحت ہی چلائے جا تے ہیں، ممکن نہیں کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مسائل کو قواعد و ضوابط کے بغیر حل کیا جا سکے، اجتماعی زندگی کو ایک نظم اور نسق کے تحت رکھنے کیلئے قوانین بنائے جاتے ہیں ریاستی امور چلانے کیلئے آئین تشکیل دیا جاتا ہے، محکمے آپریٹ کرنے کیلئے قواعد و ضوابط ترتیب دئیے جاتے ہیں، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی ترقی تعمیر خوشحالی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے جن ممالک نے آئین و قانون اور قواعد کے تحت اجتماعی اور انفرادی زندگی بسر کی کامیابی ان کی جھولی میں آگری، اور جن قوموں نے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون اپنایا وہ جنگل بن گئے، شرف انسانیت وہاں نہ رہا، آدمیت کا احترام بھی عنقاءہو گیا۔
ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم نے قواعد و ضوابط تو ترتیب دیئے مگر ان کی تشریح کےلئے محتاج ہوتے ہیں، ہم اپنا موازنہ ترقی یافتہ ان ممالک سے کرتے ہیں جہاں آئین تک غیر تحریری ہوتا ہے مگر ہمیں روزانہ اپنے لکھے ہوئے آئین کی تشریح کے لئے بھی اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ ریاستی معاملات طے کرنے ہوں یا پھر دفتری امور چلانے ہوں، ان کے لئے کوئی نہ کوئی قواعد و ضوابط ضروری ہوتے ہیں، مگر ہمارے ہاں گنگا ہمیشہ الٹی ہی بہہ رہی ہوتی ہے، آئین ہے قانون ہے قاعدے اور ضابطے ہیں مگر امور سلطنت چلانا ہمارے لئے دشوار تر ہو چکا ہے، روز مرہ کے امور کی انجام دہی کیلئے شہری کئی کئی روز دفاتر کے چکر لگاتے ہیں، یہ سب کام اگر قاعدے سے انجام دئیے جائیں تو جائز کام پل بھر میں اور ناجائز کام ممکن ہی نہ ہو سکے، آئین میں ہر ایک کا اختیار طے کر دیا گیا ہے مگر طاقتور طبقہ کسی کا اختیار تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں، اور تمام اختیار اپنے ہاتھ میں رکھنے کیلئے دن رات ہاتھ پاؤں مارتا ہے، اس کیلئے غیر قانونی ذرائع اختیار کرنے سے بھی گریز نہیں برتا جاتا، سابق حکمران شریف خاندان نے بیو روکریسی کو اپنا آلہ کار اور ذاتی ملازم تصور کر کے معاملات پر گرفت مضبوط کی، اس رویے اور طریقہ کار نے بیوروکریسی کے تاروپود ڈھیلے کر دئیے، جس کے نتیجے میں حالیہ حکومت کو معاملات کو درست ڈگر پر لانے کیلئے ڈھائی سال سے تگ و دو کرنا پڑ رہی ہے۔
وزیر اعلیٰ صوبہ کے آئینی اور انتظامی معاملات کا سربراہ ہے تو چیف سیکرٹری دفتری معاملات کا، چیف جسٹس صوبہ کی عدلیہ کا نگران اور سر خیل ہوتا ہے، اگر یہ تینوں ادارے اپنی حدود و قیود میں رہ کر فرائض منصبی کی ادائیگی بجا لائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ صوبائی، شہری اور دیہی مسائل کو مختصر مدت اور کم سے کم وسائل میں حل نہ کیا جا سکے، ماضی کے حکمرانوں نے قوانین کو مسترد کر کے زبانی احکا مات کے تحت ملکی اور صوبائی نظام چلایا اور اس کا سب سے زیادہ نقصان بیوروکریسی ہی اٹھا رہی ہے۔