اپوزیشن ،حکومت دونوں پریشان
اپوزیشن جماعتوں کے الائنس پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں پارلیمنٹ سے استعفوں کے معاملے پر بظاہر اختلافِ رائے کے بعد ایوانِ بالا سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف کے عہدے پر بھی اختلاف رائے سامنے آ رہا ہے، سینیٹ میں دوسری بڑی جماعت پیپلزپارٹی کا یہ موقف ہے کہ سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف کا عہدہ اس کا حق ہے جب کہ مسلم لیگ(ن)کا موقف ہے کہ معاہدے کے تحت اس عہدے پر مسلم لیگ(ن)کا حق ہے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سینیٹ کا یہ عہدہ دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات کو بڑھا سکتا ہے جس سے پی ڈی ایم کی سیاست کو نقصان پہنچ سکتا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حال ہی میں سابق صدر آصف علی زرداری کے نواز شریف کو وطن واپس آنے پر زور دینے کے معاملے پر بھی مسلم لیگ (ن)اور پیپلزپارٹی کے درمیان نوک جھوک جاری رہی تھی، تاہم اب سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات کی وجہ بن رہا ہے، تجزیہ کار کہتے ہیں کہ دونوں جماعتوں کے درمیان اس معاملے سے تلخی میں اضافہ ہو گا جو اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے لیے اچھا شگون نہیں ہے، حالیہ عرصے میں آصف علی زرداری کی طرف سے نواز شریف پر تنقید کے معاملے میں دونوں جماعتوں کے درمیان تلخی بڑھی ہے اور اس کے بعد اب سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر پر تنازعہ پی ڈی ایم اتحاد کے لیے مشکلات بڑھا سکتا ہے۔
یوسف رضا گیلانی اگر چیئرمین سینیٹ کا الیکشن جیت جاتے تو صورتِ حال مختلف ہوتی لیکن اب موجودہ حالات میں اختلافات بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں، بعض ماہرین کے مطابق پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا جھکاؤ اب مسلم لیگ(ن)کی طرف زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اتوار کو انہوں نے لاہور میں مریم نواز اور حمزہ شہباز سے ملاقات کر کے مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر اپنے کارکن بھیجنے کا اعلان کیا ہے، ادھر حکومت کا کہنا ہے کہ مریم نواز پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کو اپنی کرپشن چھپانے کے لیے استعمال کر رہی ہیں، پیپلزپارٹی نے سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو ہی سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر نامزد کیا ہے، تاہم مسلم لیگ(ن) کا موقف ہے کہ پی ڈی ایم اجلاس میں طے پانے والے فارمولے کے تحت اس عہدے پر مسلم لیگ (ن)کا حق ہے، مسلم لیگ(ن) نے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے لیے اعظم نذیر تارڑ کو نامزد کیا ہے، لیکن پیپلز پارٹی نے نہ صرف اسے مسترد کر دیا تھا بلکہ اس پر احتجاج بھی کیا تھا کیوں کہ اعظم نذیر تارڑ بینظیر بھٹو قتل کیس کے ملزمان بعض پولیس افسران کے وکیل تھے۔
پی ڈی ایم نے اب تک کافی کامیابیاں سمیٹی ہیں، لیکن تازہ اختلافات اس اتحاد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، اپوزیشن اتحاد میں تقسیم ہوئی تو حکومت کو فائدہ ہو گا، اطلاعات کے مطابق سینیٹ میں لیڈرآف دی اپوزیشن کے عہدے کے لیے دونوں جماعتوں نے چھوٹی سیاسی جماعتوں سے رابطے شروع کردئیے ہیں اور بلاول بھٹو زرداری جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے ملنے کے لیے منصورہ لاہور بھی گئے، حکومت مخالف سیاسی کھیل کا رخ ڈی کی دوسری جانب ہو چکا ہے، اب کی بار گیند حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے درمیان ہی گھوم رہی ہے اور حکومت بظاہر اپنی ڈی میں دفاعی پوزیشن سے ہٹ گئی ہے، لیکن اپوزیشن کے درمیان اچانک شروع ہونے والے کھیل کی وجوہات کیا ہیں؟ مریم کا تلخ لہجہ اور پیپلز پارٹی پر اشاروں کنایوں سے حملے اور پھر بلاول کے تابڑ توڑ جوابات کے بعد شیخ رشید کے لانگ مارچ نہ ہونے اور پی ڈی ایم ٹوٹنے کے دعوے درست ثابت ہوئے، پیپلز پارٹی کی مالا جپتی ن لیگ مخالف ہو گئی اور حکومتی ڈی کے قریب پہنچی اپوزیشن دفاعی پوزیشن پر کھڑی ہو گئی، پیپلز پارٹی بدگمانی کا شکار ہو گئی جبکہ پی پی پی کے لئے ن لیگ کی بدگمانیاں مزید بڑھ گئیں، تحریک عدم اعتماد کی تیاریوں میں مصروف اپوزیشن جماعتیں الگ الگ صفحے پر الگ الگ تحریر کے ساتھ لڑنے لگیں مگر کس کی تحریر کس صفحے پر کس کے لئے ہے شائد سیاسی جماعتیں اس سے بے خبر ہیں یا جاننا نہیں چاہتیں؟
ایک طرف پیپلز پارٹی ششدر کہ ن لیگ نے اچانک استعفوں کو لانگ مارچ کے ساتھ مشروط کیوں کیا تو دوسری جانب ن لیگ زرداری صاحب کے میاں صاحب کو دیئے جانے والے طعنوں پر مضطرب، معافی تلافی کے باوجود مریم نواز کے لانگ مارچ کے لئے کسی تیسرے کے نہ ہونے اور میاں صاحب کے خلاف کچھ کہنے والوں کی زبانیں کھینچ لینے کے بیانات نے پیپلز پارٹی اور کسی حد تک مولانا کو بھی پی ڈی ایم کے مستقبل سے مایوس کر دیا ہے، پیپلز پارٹی پر ڈیل کے الزام جبکہ نواز شریف اور مریم کے لئے دروازے بند ہونے کی بازگشت نے تبدیلی کے خواہشمندعوام سے تبدیلی کی ذرا سی بچی امید بھی چھین لی ہے، سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی پر استعفوں کا دبا ؤبڑھانے والی ن لیگ اور جے یو آئی ایف آخر استعفے کب دے رہے ہیں؟ اور اگر استعفے نہیں دینے تھے تو پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں پیپلز پارٹی کے کندھے پر بندوق کیوں رکھی گئی؟ زرداری نے نواز شریف کی واپسی کی بات کیوں کی؟ کیا یہی وہ بات تھی کہ جس بات پر بات بگڑ گئی؟
پیپلز پارٹی کی دلیل ہے استعفوں سے فائدہ نہیں نقصان ہو گا، ن لیگ کا موقف ہے کہ سسٹم میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں، اب سوال یہ ہے ن لیگ اور مولانا اگر استعفے دے بھی دیتے ہیں تو فائدہ کس کو ہو گا؟ استعفوں کی صورت تحریک انصاف ن لیگ کی سابقہ پالیسی پر عمل کرے گی یا محدود تعداد میں استعفے منظور کر کے ضمنی انتخابات کا انعقاد کرا لے گی، ماہرین کا خیال ہے کہ ضمنی الیکشن کی صورت میں پنجاب میں پی ٹی آئی کو دقت آئے گی اور نتیجہ ڈسکہ جیسا ہو سکتا ہے، تاہم نواز شریف عام اور شفاف انتخابات تک استعفوں کی پالیسی پر عمل پیراہونے کااشارہ دے چکے ہیں، ہر دو صورتوں میں جنگ سڑکوں پر ہو گی اور اس تصادم کا فائدہ کس کو ہو گا؟ کیا مقتدر قوتیں اس صورت حال میں عام انتخابات کا کہہ سکتی ہیں؟ تحریک انصاف ایسی صورت میں اسمبلیاں برخاست کر سکتی ہے؟ دوسری جانب پیپلزپارٹی پنجاب میں تحریک عدم اعتماد پر زور دیتی دکھائی دیتی ہے، بلاول اور حمزہ شہباز اس معاملے پر کسی حد تک ہم آہنگ ہیں البتہ ن لیگ میں مریم نواز کی پوزیشن پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے اور نوازشریف پنجاب کی حکومت کو گرانا محض وقت کا زیاں سمجھتے ہیں، شہبازشریف اور حمزہ شہبازسمیت ن لیگ کے کئی ایک اراکین اسمبلی استعفوں کے حق میں نہیں اور نہ ہی ن لیگ استعفوں کے حتمی فیصلے پر جاتی دکھائی دے رہی ہے، پھر اس اتحاد کو امتحان میں کیوں ڈالا گیا؟
حکومت اور مقتدر حلقے اپوزیشن کے اس کھیل سے قطعی محظوظ نہیں ہو رہے کیونکہ کاروبار مملکت چلانا مشکل ہو رہا ہے۔ بجٹ سر پر ہے، آئے روز بجلی اور روزمرہ کی اشیاءکی قیمتوں میں اضافے نے عوام کی کمر توڑ دی ہے، اوپر سے کورونا کے شدید ہوتے وار معیشت کے لئے اہم امتحان بن چکے ہیں، حکومت ایک ایسے بحران کا شکار ہے جس کا علاج کسی طبیب کے پاس ہے اور نہ ہی کسی موکل کے پاس، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔