ملکی بیوروکریسی،ایک جائزہ
پاکستان میں بیوروکریسی کا نام سنتے ہی لوگ اچھے اور برے تبصرے کرتے ہیں، کچھ لوگوں کے خیال میں بیوروکریسی نے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں مثبت کردار ادا کیا ہے جبکہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں خرابیوں کی جڑ ہماری بیوروکریسی، خصوصی طور پر اس کا ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ (ڈی ایم جی) جو، اب پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (پی اے ایس) کہلاتا ہے۔ تیمور عظمت عثمان، ہماری پاکستانی بیوروکریسی کا ایک بڑا نام ہے وفاق میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژ ن اور محکمہ اطلاعات کے سیکرٹری رہنے کے علاوہ پنجاب اور بلوچستان میں بھی کلیدی عہدوں پر خدمات سر انجام دینے کے بعد سروس سے ریٹائرڈ ہو چکے ہیں مگر لاہور جم خانہ، ایکسرسائز اور لکھنا لکھاناجاری ہے۔ انہوں نے بیوروکریسی اور اس میں ہونے والی اصلاحات کے حوالے سے گزشتہ اتوار کو نیوز میں ایک آرٹیکل لکھا۔ یہ آرٹیکل ان لوگوں کے خیالات کی بھی عکاسی کرتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ بیوروکریسی نے اس ملک کے لئے اچھا کردار ادا کیا ہے، یہ تصویر کا ایک رخ ہے، آج اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے عنان اقتدار سنبھالنے کے فوری بعدبیوروکریسی میں اصلاحات کا اعلان کیا تھا، اس حوالے سے وہ الیکشن سے قبل اشارے بھی دیتے رہے تھے، حکومت سازی کے بعد اس مقصد کیلئے ماہرین پر مشتمل کمیٹی بھی قائم کی گئی اور اس کو سفارشات مرتب کرنے کا کہا گیا، شنید ہے کہ اس کمیٹی نے سفارشات وزیر اعظم کو ارسال کر دی ہیں، اصلاحات کا بنیادی مقصد بیوروکریسی کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے، مگر اصلاحات تب لائی جاتی ہیں جب کسی حوالے سے قوانین میں سقم پایا جائے، جدید تقاضوں سے ہم آہنگی نہ ہو، کام کرنے میں دشواری ہو، مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوں یا عوامی مسائل کے حل میں قواعد معاون ثابت نہ ہو رہے ہوں، لیکن ہمارے ہاں تو معاملہ بالکل مختلف ہے خاص طور پر قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے شکایات عام ہیں، قوانین بھی تب مفید ہوتے ہیں جب ان پر عمل کیا جائے محض اصلاحات لانے سے کارکردگی بہتر بنائی جا سکتی ہے نہ نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
ملکی بیوروکریسی وفاقی ہو یا صوبائی، اعلیٰ تعلیم اور تربیت یافتہ افراد پر مشتمل ہے، ان میں ماہرین بھی شامل ہیں، قیام پاکستان کے فوری بعد اسی بیو روکریسی نے وہ کار ہائے نمایاں انجام دئیے کہ نو آزاد ملک مختصر وقت میں ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا، جس کے بعد محلاتی سازشوں کا دور شروع ہوا، تو قوانین اور کاکر دگی پس پشت ڈال دی گئی اور پسند نا پسند کا سلسلہ شروع ہو گیا قواعد پر زبانی احکامات کو ترجیح دی جانے لگی، کسی بھی حکمران نے قواعد کو اہمیت نہ دی بلکہ اپنی ہی متعارف کردہ اصلاحات پر بھی عملدرآمدسے دانستہ گریز کیا گیا، نتیجے میں معاملات سدھرنے کے بجائے بگڑتے گئے۔
بیوروکریسی دراصل انتظامیہ ہوتی ہے جو امور مملکت کو حکومتی پالیسیوں اور قوانین کے تحت چلاتی ہے، عوامی مسائل کے حل، عوامی خوشحالی کیلئے کام کرتی اور نظم و نسق قائم رکھتی ہے، موجودہ بیوروکریسی دراصل انگریز دور کا تسلسل ہے، برطانوی دور میں سرکاری مشینری بہت مختصر تھی، برٹش حکومت کے فیصلوں پر عمل درآمد کرانا اس کا کام تھا، مگر انگریز کی نگرانی اور قوانین کی حکمرانی بہت سخت تھی اس لئے اس دور میں کارکردگی تھی زبانی دعوے نہیں تھے، اسی بیوروکریسی نے قیام پاکستان کے بعد سے 1958ءتک ملک کو ترقی کی ڈگر پر ڈالا، دنیا بھر میں پالیسی سازی اور عملدرآمد کے معاملہ میں بیوروکریسی کا اہم کردار ہوتا ہے اور اسے تسلیم بھی کیا جاتا ہے، لیکن تیسری دنیا کی جمہوریت میں بیوروکریسی کو نا پسندیدہ عنصر اور ذاتی ملازم بنا دیا گیا، حکمران جماعت نے ہمیشہ من مانی کی، سب سے زیادہ نقصان یہ ہواکہ قوانین کی اہمیت ثانوی ہو گئی، لہٰذا سمجھا جانے لگا کہ بیوروکریسی کی سوچ عوامی نہیں اور وہ عوامی مسائل کا بہتر حل نہیں دے سکتی، نتیجے میں قانون سازوں نے تمام اختیارات کا مرکز اپنی ذات کو بنا لیا، بیوروکریسی دوسرے درجے کی شہری بنا دی گئی، اس صورتحال میں بیوروکریسی پر نا اہلی، بد عنوانی، قانون شکنی کاالزام نہیں دھرا جا سکتا، بلکہ تمام صورتحال کی ذمہ دار حکومتیں ہیں، اگر چہ بیوروکریسی میں بھی خامیاں موجود ہیں اور ان کو درست کرنے کی ضرورت ہے، مگر اس کیلئے قواعد پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہو گا۔
ہر حکومت نے بیوروکریسی کی اصلاحات کے نام پر ڈوریاں کھینچنے کی کوشش کی، 1949ءمیں پے اینڈ سروس کمیشن رپورٹ، 1973ءمیں انتظامی اصلاحات کمیٹی رپورٹ پیش ہوئی اس دوران چار مرتبہ حکومت کو ری آرگنائز کرنے کی کوشش کی گئی، بھٹو نے سول بیوروکریسی خاص طور پر سول سروس کو بے اختیار کر کے 1300افسر کرپشن کے الزام میں برطرف کر دئیے، ان اصلاحات کی وجہ سے سروسز کا نظام برباد ہو گیا، ڈی ایم جی افسروں کو سول سرونٹ کا درجہ دیکر آئینی تحفظ دیا گیا، اس سے قبل سی ایس پی افسر با اختیار تھے مگر ان کو بھی سیاسی بنا دیا گیا، بیوروکریسی کو محکمانہ خود مختاری کے تحت کام کرنے سے روک دیا گیا، ترقی، تبادلے، تعیناتی کے اختیارات بھی سلب کر لیے گئے، یہ دراصل بیوروکریسی کو ریاست کی ملازمت سے نکال کر حکومت کا خدمت گار بنانے کی ایک کوشش تھی، جس کے بعد بیوروکریسی سول سرونٹ سے گورنمنٹ سرونٹ بن گئی، اب ترقی تبادلے پوسٹنگ کیلئے اصول قانون کار کردگی نہیں بلکہ سیاسی پشت پناہی اہمیت اختیار کر گئی۔
جنرل ضیاءکے ملٹری اور سول بیوروکریسی سے بہت قریبی تعلقات تھے مگر انہوں نے بھی سول بیوروکریسی کو با اختیار بنانے میں کوئی رول ادا نہیں کیا، بلکہ سول بیوروکریسی میں دس فیصد ملٹری افسروں کا کوٹہ مقرر کر دیا، ملٹری افسروں کی سول اداروں میں تعیناتی کو آئینی تحفظ بھی دیا گیا۔
نواز شریف نے بیوروکریسی کو ذاتی ملازم بنا لیا، ترقی، تعیناتی، تبادلے کے حوالے سے تمام قواعد کو نظر انداز کر دیا، شہباز شریف نے بھی یہی روش اپنائی، رہی سہی کسر پرویز مشرف کی اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے منصوبے نے نکال دی، اس منصوبہ کے تحت ڈسٹرکٹ افسر، کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور مجسٹریٹی کا نظام تباہ کر دیا گیا جو نظم و نسق کے قیام، قانون کی عملداری اور نچلی سطح پر عوام کو انصاف دینے کا اہم ذریعہ تھا، مہنگائی، قیمتوں پر کنٹرول اور عوامی مسائل کے فوری حل میں بھی ان کا بنیادی کردار تھا اورآزادی سے قبل سے یہ نظام کامیابی سے چل رہا تھا، سیاست دانوں کے زیادہ سے زیادہ اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کی اس دھن کے نتیجے میں ملٹری اور سول بیوروکریسی کو مکمل طور پر اختیارات سے ہاتھ دھونا پڑے۔ جسٹس (ر) افتخار چودھری کے جوڈیشل ایکٹو ازم کے دور میں بیوروکریسی کے اعلیٰ افسروں کی عدالتوں میں توہین کی گئی، ان دنوں نیب یہ کام کر رہا ہے۔
حکومت تب تک بہترین انداز سے عوامی اور ملکی خدمت کرتی رہی جب تک بیوروکریسی با اختیار تھی، اب بھی اگر حکومت کو ڈیلیور کرنا ہے، اپنے منشور کے مطابق عوام کو سہولیات دینا ہیں، عوام کو فوری انصاف اور مسائل کا حل تلاش کرنا ہے تو بیوروکریسی کو با اختیار بنانا ہو گا، اصلاحات ضرور کریں مگر یہ اصلاحات بیوروکریسی کو کنٹرول کرنے کے بجائے ان کی کارکردگی بہتر بنانے، اختیارات سے تجاوز روکنے، بد عنوانی کے خاتمے کیلئے ہونی چاہئیں۔