محبت رسول اور ہم
عشق رسول ہمارا سرمایہ حیات اور ناموس رسالت پر کٹ مرنا ہمارا ایمان ہے تو اس سلسلے میں اسمبلی میں قرارداد پیش کرنا کیوں مسئلہ بنایا گیا؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور دوسری طرف سڑکیں بلاک کرنا اور لوگوں کو مشکلات میں ڈالنا کونسا اسلام اور محبت رسول ہے؟ ہمیں اس کا بھی جائزہ لینا ہو گا، اوپر سے دشمن ملک کی ایجنسیوں نے ایسا کھیل کھیلا کہ کچھ صاف نظر ہی نہ آنے دیا۔ ہر وہ شخص جو مسلمان ہونے کا دعویدار ہے، مولانا ظفر علی خان کا یہ شعر اس کے ایمان کی عکاسی کرتا ہے
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی حرمت پہ
خدا شاہد میرا ایمان کامل ہو نہیں سکتا
اگر کوئی اس حوالے سے کشمکش کا شکار ہے تو اسے چاہئے اپنے دعویٰ ایمان پر غور کرے، مگر کیا ہزاروں میل دور ہونے والی ایک حرکت کی سزا اپنے ہم وطنوں کو دینا جائز قرار دی جا سکتی ہے، یا اس آڑ میں شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں سے الجھنے کا کوئی جواز بنتا ہے، مکہ معظمہ میں جب آقائے نامدار نے دعویٰ نبوت کیا تو مشرکین نے کیا کیا طوفان نہ اٹھائے، یہاں تک کہ تشدد سے بھی باز نہ آئے، صحابہ کرامؓ کا ایمان یقینی طور پر ہم جیسے مسلمانوں سے زیادہ مضبوط اور کامل تھا، صحابہ کرام مشتعل بھی ہوتے مگر کیا رحمت اللعالمین نے کسی کو تشدد کا جواب تشدد سے دینے کی اجازت دی؟ ایک عرصہ سے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے اور فرانس سے تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا مگر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی تھی اور پھر بغیر کچھ بتائے ایک مذہبی راہنما کو بھونڈے طریقے سے گرفتار کر لیا گیا، جس کے جواب میں ملک بھر میں نظام زندگی کو جام کر دیا گیا، اس دوران جو واقعات رونماءہوئے اس کی اسلامی تاریخ میں نظیر ملتی ہے نہ یہ اسلامی تعلیمات سے مطابقت رکھتے ہیں، راستے بلاک کرنا، نجی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا، گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کا کوئی اثر فرانس پر ہو گا؟ نہیں بلکہ یہ سراسر اپنا ہی نقصان ہے، یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ایمرجنسی سپلائی اور ایمبولینسز بھی رک گئیں، کیا یہ نبی رحمت کی تعلیمات ہیں؟ نہیں ہر گز نہیں اور پھر ایک دوسرے پر تشدد، اسلامی جان کی تو اسلام میں بہت حرمت بیان کی گئی ہے۔
یہ سب ان حالات میں وقوع پذیر ہواءجب دنیا کورونا کی زد پر ہے، پاکستان بھی اس وائرس کی وجہ سے متاثر ہے، بھارت پاکستان کو کمزور کرنے اور ملک میں ہلچل مچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، حکومت کی طرف سے اس مطالبے پر فرانس کے سفیر کی ملک بدری پر بحث کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینے اور اسمبلی میں قرار داد لانے کے اعلان کے بعد احتجاج ختم ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم نے اس موقع پر اپنی تقریر میں کہا کہ کسی ایک ملک کی طرف سے کسی بھی اقدام کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی، ضروری ہے کہ تمام مسلمان ممالک مشترکہ حکمت عملی تشکیل دیں تاکہ فرانسیسی حکومت پر دباؤ ڈالا جا سکے، فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کر کے ہم فرانس میں مقیم دولاکھ سے زائد تارکین وطن پاکستانیوں کا مستقبل مخدوش کر دیں گے، اگر چہ اس اعلان کے بعد دھرنے ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے، کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریکِ انصاف کے رکنِ اسمبلی امجد علی خان کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد میں کر دیا گیا ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ ملک کی 95فیصد سے زیادہ آبادی ختم نبوت، اہل بیت اطہار اورصحابہؓ کی حرمت کے نام پر کٹ مرنے کو تیار ہے، لیکن انہی لوگوں کی بستیوں بازاروں میں اصلی شہد، خالص مرچ، دودھ، آٹا تلاش کرنا مشکل ہے، دنیا نے ہمارا تماشا لگایا ہوا ہے اور ہم اس تماشے کیلئے خود سامان مہیا کر رہے ہیں، لطیفے اور واقعے پیش کئے جاتے ہیں ہمارے دہرے معیار زندگی کے بارے میں، ایک واقعہ یوں پیش کیا جاتا ہے کہ ایک مسلمان عورت نے یورپی خاتوں کو رمضان المبارک کے بارے میں بتایا کہ یہ بہت با برکت مہینہ ہے، اس ماہ ہم جھوٹ، غیبت، دھوکہ دہی، فریب، ملاوٹ اور دیگر غلط کاموں سے گریز کرتے ہیں، یورپی خاتون نے حیرت سے کہا آپ لوگ تو بہت "خوش قسمت " ہو، ہمیں سارا سال ان کاموں کی اجازت نہیں، اس حوالے سے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا کیا ہم اسلامی تعلیمات اور نبی کریم کے ارشادات پرعمل کرتے ہیں، کیا ان احکامات کو ہم نے اپنے لئے ضروری بنایا ہے، صرف زبانی کلامی دعویٰ عشق کافی نہیں، سچا کھرامسلمان بننے کیلئے ہمیں اسلامی تعلیمات کا نمونہ بننا ہوگا، ایسا کامل نمونہ بننا ہوگا کہ غیر مسلم ہماری شخصیت اور اخلاق و کردار سے متاثر ہو کر اسلام کی حقانیت کو جانیں۔
نبی اکرم نے مکہ مکرمہ میں اس اخلاق اور کردار کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ مشرکین، منافقین، یہودی، عیسائی آپ کو از خود صادق اور امین پکارنے لگے، مگر ہم نے اور ہماری حکومت نے اس نازک معاملے اور موقع پر کیا کیا؟ یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کہ شرمائیں یہود۔ حکومت نے مار دھاڑ کے بعد ہی کیوں قرار داد پیش کی؟ کیا وہ دینی قوتوں کو اپنے خلاف محاذ آرائی کا موقع فراہم کرنا چاہتی تھی؟ جیسا کہ منگل کے روز پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن کے اعلان کی شکل میں سامنے آیا۔ جب حکومت کی طرف سے تشدد ہوا تو سب نے مذمت کی، مگر جب دو وفاقی وزراءنے تحریری معاہدہ کیا تھا تو کیا انھیں اس وقت معلوم نہیں تھا فرانس یورپی یونین کا ایک اہم ملک ہونے کے ساتھ ساتھ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے ایک ہے، موجودہ حکومت کی کوئی سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کررہی ہے، ایسے ایشوز پر مطالبات ہوتے ہیں اور انہیں دیکھنا اور اپنی حد تک حل کرنا حکو مت کا کام ہوتا ہے۔ بعد میں بھی تسلیم ہی کرنا تھا، مذاکرات کرنے تھے تو پھر نہتے لوگوں پر گولیاں کیوں برسائی گئیں اورسینکڑوں افراد کو کیوں گرفتار کیا گیا۔
من حیث القوم ہم نے ثابت کیا کہ ہم تعلیمات نبوی کو اپنی زندگی سے نکال کر مصلحت کی زندگی بسر کر رہے ہیں، مگر "خدا کے بندو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے" ہم نے اس ملک کو لاوارث دکان سمجھ لیا ہے، ہر بات میں سیاست ہر قدم پر منافقت، شائد ہمیں اب ہی ہوش آجائے، اس سارے واقعے سے ہی کچھ سیکھ لیں۔ بقول الطاف حسین حالی
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے