لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
اپوزیشن نے سینیٹ اسلام آباد کی نشست پر یوسف رضا گیلانی کو کامیاب کرانے کیلئے جو حربے استعمال کئے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں انہی حربوں کا شکار ہو گئی اور نتیجے میں حکومتی امیدوار چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں پر منتخب ہو گئے۔ یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر نے مخالفین کو ووٹ ضائع کرنے کے جو گر بتائے تھے وہ ان کے والد کیخلاف ہی استعمال ہو گئے، چیئرمین کے الیکشن میں سات ووٹ ضائع ہو گئے، اگر یہ ساتوں ووٹ گیلانی کو جاتے تو وہ کامیاب ٹھہرتے، اپوزیشن نے اوپن بیلٹنگ کی وزیراعظم کی تجویز اور اس حوالے سے صدارتی ریفرینس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر کے سینیٹ الیکشن میں ڈرامہ بازی کی ورنہ جس احسن انداز سے پنجاب میں متناسب نمائندگی کو بنیاد بنا کر پر امن طور پر حصہ بقدر جثہ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے بلا مقابلہ تمام امیدوار منتخب ہوئے، اسی فارمولا کو اگر اسلام آباد کے الیکشن میں آزمایا جاتا تو آج حکومت اور اپوزیشن میں ہونے والی تلخی، کشیدگی اور الزامات کی گولہ باری سے نجات حاصل کی جا سکتی تھی۔
اپوزیشن نے گیلانی کی حفیظ شیخ کے مقابلہ میں فتح کو حکومت کیخلاف ریفرنڈم اور وزیر اعظم کیخلاف عدم اعتماد قرار دیا تھا، مگر چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں یو ٹرن لے لیا، قوم کے حلق سے یہ بات نہیں اتر رہی کہ جو ماضی میں غلط تھا وہ آج کیسے درست ہو گیا، گیلانی کی فتح پر خوشی کے شادیانے بجائے گئے، مگر چیئرمین کے الیکشن میں شکست پر دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ثابت ہو گیا وزیر اعظم کی اوپن بیلٹنگ کی تجویز انتہائی مناسب تھی، اگر اس کو اپنایا جاتا تو شائد چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں بھی نتائج کچھ اور ہوتے مگر اس سے پہلے گیلانی اور حفیظ شیخ کے الیکشن کا نتیجہ بھی مختلف ہوتا۔
سینیٹ کے منتخب ہونے والے چیئر مین محمد صادق سنجرانی کا تعلق بلوچستان کے ایرانی سرحد سے متصل علاقے ضلع چاغی کی تحصیل نوکنڈی سے ہے، ان کی سیاسی زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو ان کا چیئرمین سینیٹ بننے سے قبل کوئی سیاسی پس منظرنہیں، وہ ایک کاروباری شخصیت تھے، جنہوں نے شروع میں وزیراعظم ہاؤس تک رسائی حاصل کی اور نواز شریف دور میں 1998ءمیں ان کے کوآرڈینیٹر رہے، 2008ءمیں جب سید یوسف رضاگیلانی وزیراعظم تھے تو صادق سنجرانی ان کے بھی کوآرڈینیٹر رہے، ان کی تقرری بحیثیت چیئرمین سینیٹ اس وقت ہوئی جب بلوچستان کے حالات انتہائی خراب تھے، اس وقت بلوچستان کے حالات میں بہتری لانے اور تنا ؤکو کم کرنے کے لیے کسی بلوچ کو مرکز میں لانا تھا، جس کے لیے صادق سنجرانی کو چنا گیا۔
صادق سنجرانی کے سابق دور کو دیکھا جائے تو نظر آئے گا کہ انہوں نے بلوچستان کے حالات کو تبدیل کرنے یا ان میں کمی لانے کے لیے کوئی اہم کام نہیں کیا، صادق سنجرانی بلوچستان کے دورے کے دوران صرف گورنر ہاؤس تک محدود رہے، انہوں نے بلوچستان کے کسی علاقے کے مسائل جاننے کے لیے دورہ نہیں کیا، دوسری جانب سیاسی امورپر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پارلیمانی سیاست اور سینیٹ کے ایوان میں صادق سنجرانی ایک مختلف اور نئے چہرے کے طور پر متعارف کرائے گئے، صادق سنجرانی کے سیاسی دور میں ایک اہم موڑ وہ بھی تھا، جب 2019ء میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی اور ان کے مقابل میر حاصل بزنجو امیدوارتھے، لیکن ان کے خلاف تحریک ناکامی سے دوچار ہوگئی، دوسری جانب بلوچستان کے ضلع چاغی کی سیاست میں محمد صادق سنجرانی کے بھائی اعجاز سنجرانی متحرک نظر آتے ہیں، اس سے قبل ان کے والد خان آصف خان سنجرانی خان پینل کے نام سے ضلعی سیاست میں سرگرم رہے۔
سینیٹ کے نئے ڈپٹی چیئرمین مرزا محمد آفریدی کا تعلق ضلع خیبر سے ہے اور وہ ٹیکسٹائل صنعت میں ایک جانی پہچانی شخصیت اور شطرنج کے ماہر کھلاڑی ہیں، مرزا محمد آفریدی2018ء کے سینیٹ انتخابات میں آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے اور بعد میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی، وزیر اعظم عمران خان نے سابق قبائلی علاقوں کی نمائندگی کے لیے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے امیدوار کے لیے مرزا محمد آفریدی کا انتخاب کیا، 45سالہ آفریدی ٹیکسٹائل کی صنعت میں ایک جانا پہنچانا نام اور ریشما ٹیکسٹائل نامی کمپنی کے مالک ہیں، جس کا پاکستان سمیت بیرون ممالک بھی کاروبار ہے، ان کی پاکستان میں روبا نامی کمپنی کے ساتھ وابستگی بھی ہے جس نے پہلے ٹیکسٹائل اور بعد میں الیکٹرانکس کی صنعت میں قدم رکھا، آفریدی ہائیر کمپنی اور پاکستان سپر لیگ کی فرنچائز پشاور زلمی کے مالک جاوید آفریدی کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں، ان کی روبا کمپنی نے 2001ء میں ہائیر کے ساتھ لاہور میں صنعتی زون قائم کرنے کے اشتراک کا معاہدہ بھی کیا تھا اور اب بھی یہ دونوں کمپنیاں اشتراک سے مختلف کاروبار سے وابستہ ہیں۔
2009ءمیں ریشما پاور جنریشن کے نام سے ایک کمپنی بھی قائم کی تھی جبکہ 2012ءمیں لاہور میں ایک پاور جنریشن پراجیکٹ پر بھی کام کر چکے ہیں اور اب بھی اسی پاور جنریشن پراجیکٹ کو چلا رہے ہیں، اس کمپنی کے ڈائریکٹرز میں پشاور زلمی کے مالک جاوید آفریدی بھی شامل ہیں، وہ 2018 سینیٹ میں ٹیکسٹائل سمیت دیگر قائمہ کمیٹیوں کے رکن بھی رہے، ان کا شمار علاقے کی بااثر شخصیات میں ہوتا ہے، 2018 میں سینیٹ انتخابات سے پہلے ان کا بھی سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا 2018ءمیں پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لیا اور جیت گئے۔ مرزا آفریدی شطرنج کھیلنے کے شوقین ہیں، وہ جنوری میں چیس فیڈریشن آف پاکستان کے انتخابات میں صدر بھی منتخب ہوچکے ہیں۔
چیئرمین سینیٹ کا انتخاب بلوچستان کے پسماندہ علاقے اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب فاٹا کے سابق قبائلی اضلاع سے ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے، جس بناءپر تحریک انصاف کو بلوچستان اور کے پی کے کے سینیٹرز کی حمایت ملی، کہا جا رہا ہے کہ مسترد ہونے والے سات میں سے پانچ ووٹوں کا تعلق فضل الر حمٰن کی پارٹی سے ہے اب نہیں معلوم کہ انہوں نے غفور حیدری کو نامزد کرنے پر ردعمل دیا یا وہ بھی جے یو آئی کے باغی گروپ کا حصہ بن چکے ہیں بہر حال اپوزیشن اپنے ہی بچھائے ہوئے دام میں الجھ گئی۔ اگر چہ تحریک انصاف سینیٹ میں اکثریتی جماعت ہے مگر اب بھی اپوزیشن اتحاد کی عددی اکثریت زیادہ ہے جس کے بعد حکومت کیلئے قانون سازی اب بھی مشکل مرحلہ ہے، عوام مسلسل مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں، آہستہ آہستہ حکومت اور اپوزیشن عوامی حمائت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں، حکومت نے اگر تین سال عوامی بہبود کیلئے کچھ نہیں کیا تو اپوزیشن کا دامن بھی اس حوالے سے خالی ہے، ایسی صورت میں اگر حکومت اور اپوزیشن نے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم نہ کیا اور عوامی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے ان میں کمی لانے کی کوئی مشترکہ کوشش نہ کی تو آئندہ الیکشن میں دونوں کو عوام مسترد کر دیں گے۔