جلسہ،لاہوریے اور اچکزئی
پی ڈی ایم کا مینار پاکستان لاہور میں ہونے والا جلسہ امیدوں کے مطابق عظیم الشان نہ بن سکا، مگر برا بھی نہیں تھا جہاں تک اسکی کامیابی کا تعلق ہے تو مجھے یاد پڑتا ہے، یادش بخیر موچی دروازے میں ہونے والے جلسے بھی لاکھوں کے جلسے کہلاتے تھے حالانکہ وہاں لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہی چند ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی تھی، میں نے خود بیسیوں جلسوں کی وہاں سے رپورٹنگ کی تھی، اس تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پی ڈی ایم کا جلسہ اچھا جلسہ تھا۔ اصل میں جلسے کے شرکاءکے حوالے سے مسلم لیگ (ن) نے دعوے بہت بلند بانگ کئے تھے۔ لاہور جو مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے وہاں جلسے کی کامیابی اور شرکاءکی تعداد کے حوالے سے کئے جانے والے دعوے پورے ہونے چاہئیں تھے۔ جلسے میں اگر مسلم لیگ (ن) کے لاہور سے سارے لیڈر محنت کرتے اور کارکنوں کو متحرک کرتے تو معاملات بہت زیادہ بہتر نظر آتے۔ جلسے کے بعد بعض نون لیگی راہنما ایک دوسرے پر کام نہ کرنے کے الزامات بھی لگاتے رہے، بحرحال جلسہ ہو گیا، میری نظر میں پی ڈی ایم کا احتجاج ایک حد تک تو کامیاب ہو چکا کہ حکومت کی طرف سے مذاکرات کی باتیں سامنے آنا شروع ہو چکی ہیں، وہ حکومت اور خصوصی طور پر وزیر اعظم جو اپوزیشن کا نام سننا ہی پسند نہیں کرتے تھے وہ اور ان کے قریبی بات چیت کے دروازوں کو کھولنے کی باتیں کر رہے ہیں۔
لاہور تو لاہور ہے، یہ قیام پاکستان سے قبل ہی سیاسی اور مذہبی اجتماعات کا گڑھ رہا ہے، تحریک آزادی کے دوران بھی لاہور نے تاریخی کردار ادا کیا تھا، ہر احتجاجی تحریک میں جان تب پڑی جب اہل لاہور اس میں شامل ہوئے، مذہبی حوالے سے کوئی احتجاج ہو یا سیاسی جلسے جلوس، زندہ دلان لاہور ان کی کامیابی میں پیش پیش رہے، تحریک آزادی پاکستان کے دوران اہل لاہور صرف تحریک کا متحرک حصہ نہ تھے بلکہ جانی اور مالی قربانیاں دینے کے علاوہ ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کی بھی بھر پور مدد کرتے رہے، ختم نبوت کے حوالے سے تحریک ہو یا نظام مصطفیٰ کے نفاذ کی، مارشل لا کے خلاف محاذ لگا ہو یا آمریت مخالف احتجاج اہل لاہور کبھی قومی مقاصد سے بے بہرہ رہے نہ اس سے الگ تھلگ۔ مگر جلسے کی ایک بڑی بات جو پنجابیوں اور لاہوریوں کیلئے شرمناک ہے وہ محمود اچکزئی کے الزامات ہیں جو انہوں نے پنجاب اور لاہور سے پنجابی ووٹوں سے منتخب لیگی ارکان کی موجودگی میں لگائے، مگر جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگانے والے پنجاب کی پگ کو داغدار ہوتا دیکھتے رہے۔ محمود اچکزئی نے کہا "میں کسی کو کچھ کہنے نہیں آیا، ہم نے اپنی بساط کے مطابق سامراج کا مقابلہ کیالیکن ہمیں گلہ ہے ہندو، سکھ اور دوسرے رہنے والوں کے ساتھ لاہوریوں نے بھی انگریزوں کا ساتھ دیا، آپ سب نے مل کر افغان وطن پر قبضہ کرنے کے لیے انگریزوں کا ساتھ دیا، بس اتنا کافی ہے، "یہ الزام وہ صاحب لگا رہے ہیں جو پاکستان کے بجائے افغانستان کو اپنا وطن کہتے ہیں جن کو اردو زبان سے نفرت ہے، جو ملک کی جغرافیائی حدود بدلنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اپنی بات کا منظر پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جہاں جہاں کلمہ حق کہا جاتا تھا وہ سارے علاقے یا اٹلی، انگریز یا فرانسیسیوں کے قبضے میں چلے گئے، واحد وطن جس نے ان سامراجیوں کے خلاف کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا وہ دریائے آمو سے لے کر اباسین تک افغان پشتون وطن تھا، پی ڈی ایم کے جلسے کے بعد جہاں پاکستان میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر دیگر پہلوؤں پر بحث ہوتی رہی وہیں محمود خان اچکزئی کی یہ بات بھی کہیں تنقید کا نشانہ بنی توکچھ لوگ ان کا دفاع کرتے ہوئے دکھائی دئیے، تاہم محمود اچکزئی کی اس بات کی تاریخی حقیقت کیا ہے؟ کیا برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ یا حوالہ ملتا ہے جو ان کی بات کی تصدیق یا نفی کرے؟
تاریخ دان کہتے ہیں کہ ایسا کوئی مخصوص واقعہ تاریخ میں موجود نہیں جس کی بناءپر یہ کہا جائے کہ پنجاب یا لاہور نے افغان وطن پر قبضے کے لیے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا. عمومی تاثر کے برعکس تاریخ بتاتی ہے کہ برصغیر پر باہر سے حملہ آور ہونے والوں کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت پنجاب نے کی مگر مزاحمت کے حوالے سے پنجاب کے بارے میں ایک غلط تاثر قائم کر دیا گیا ہے، اگر دیکھا جائے تو پنجاب کی مزاحمت کی تاریخ بہت پرانی ہے، سکندرِ اعظم پوری دنیا فتح کرتا ہوا آیا مگر جب وہ پنجاب کی سرزمین پر پہنچا تو اسے اتنی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا، 'شہاب الدین غوری افغانستان کے علاقے سے حملہ آور ہوئے تھے، ان کو کس نے روکا؟ ان کو پنجاب میں راجپوتوں نے مارا تھا، پنجاب کے لوگوں نے ہمیشہ باہر سے آنے والوں کے خلاف مزاحمت کی۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ کسی زمانے میں پنجاب پر تنقید کا ایسا ایک بیانیہ موجود تھا، اس عمومی تاثر کے برعکس برصغیر پر بیرونی حملوں کی پہلی لہر کا سامنا کیا ہی پنجاب نے تھا جبکہ حملہ آور اس خطے سے آئے تھے جو اب افغانستان ہے، جو پہلی افغان جنگ تھی اس میں پنجاب انگریز کو راستہ فراہم نہیں کر رہا تھا، راج موہن گاندھی کی ایک کتاب اورنگزیب سے ماونٹ بیٹن تک' میں تفصیلی حوالے مل جاتے ہیں کہ انگریز کے دور میں بھی مزاحمت کی علامت جتنی بڑی شخصیات تاریخ میں ملتی ہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پنجاب سے تھا۔ 'بھگت سنگھ کون تھا، پنجابی تھا، ادھم سنگھ کو ہندوستان کی تحریکِ آزادی کی ایک نمایاں شخصیت تصور کیا جاتا ہے، ادھم سنگھ نے 1940ءمیں اس وقت کے پنجاب کے سابق انگریز لیفٹیننٹ گورنر مائیکل ڈائیر کو لندن میں گولی مار کر قتل کر دیا تھا، یہ وہی جنرل ڈائیر تھے جنہیں سنہ 1919ءمیں جلیانوالہ باغ میں مقامی افراد کے قتلِ عام کا حکم دینے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔
بعد ازاں حراست کے دوراں ادھم سنگھ نے اپنا نام رام محمد سنگھ زاد رکھ لیا تھا جس کا مقصد پنجاب اور ہندوستان کے تمام مذہبی طبقوں کی نمائندگی کرنا بتایا جاتا ہے. 1954ءمیں جب ون یونٹ بنا تو اس وقت کے حالات کے تناظر میں اس وقت کے چھوٹے صوبوں میں ایک پنجاب مخالف تاثر بنا اور پھر بد قسمتی سے اسی کا تسلسل رہا اس تابناک پنجابی تاریخ کے باوجود خود کو پنجاب کے نمائندہ کہنے والے محمود اچکزئی کی زبان کو نہ روک سکے، جس کا مجھے افسوس ہے۔