احتساب کریں، ادارے تباہ نہ کریں
کرپشن ایک ایسا ناسور ہے جو پوری دنیا میں پھیل رہا ہے، کرپشن زدہ ممالک میں صرف سرکاری خزانہ ہی خالی نہیں ہوتا بلکہ قومی معیشت، صنعت، زراعت، امن و امان، عدل و انصاف یہاں تک کہ سول سوسائٹی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ ہمارے جیسے ممالک کا ایک اور المیہ بھی ہے کہ یہاں احتساب کے ادارے کرپشن کے خاتمے کے بجائے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں، سیاستدانوں، تاجروں، صنعتکاروں اور سرکاری افسروں کو رسوا کر رہے ہیں، جس سے ملکی نظام ہی مفلوج ہو رہا ہے۔
پاکستان میں جنرل ضیاءالحق کے دور میں حکومتی سطح پر کرپشن کاآغاز ہوا اور اسی دور میں کرپشن کے تدارک کے لئے اقدامات بھی شروع کئے گئے۔ ضیاءالحق نے جونیجو حکومت کو برطرف بھی کرپشن کا الزام عائد کر کے کیا تھا مگر یہ ثابت نہ کیا کہ کرپشن ہوئی کہاں پر ہے؟ یہی برائی کی اصل جڑ ثابت ہو رہی ہے۔ میاں نواز شریف نے بھی احتساب کا ادارہ قائم کیا اور اسے اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا، جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں احتساب بیورو کے نام سے ادارہ قائم کیا مگر احتساب کا یہ قانون کرپشن کے خاتمہ یا کمی کے بجائے سیاسی انتقام کا ذریعہ بن گیا، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے ایک دوسرے کے خلاف اس قانون کا بے جا استعمال کیا مگر کرپشن ختم تو کیا کم بھی نہ ہوئی۔ تحریک انصاف حکومت نے کرپشن کا خاتمہ اور قومی لٹیروں کا احتساب اپنے منشور کا بنیادی جز بنایا، بڑے طمطراق سے احتسابی عمل شروع کیا انکوائریاں، مقدمات، ریفرنسز، گرفتاریاں ہونے لگیں مگر نتیجہ صفر، اگرچہ نیب نے عوام سے دھوکہ دہی سے رقوم اینٹھنے اور نچلی سطح پر کرپشن کے کچھ کیسوں میں کامیابی حاصل کی، مگر بڑے کیسز میں کیا ہوا؟
دوسری طرف تحریک انصاف کا نیا پاکستان شرفاءخاص طور پر بیورو کریسی کیلئے عذاب کی شکل اختیار کر چکا ہے، عمر، عہدہ، خدمات کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے صرف اس جرم میں اعلیٰ بیوروکریسی کے دیانتدار، اہل، تجربہ کار افسروں کو گرفتار کیا گیا کہ وہ سابق حکمرانوں کے بہت قریب تھے یا اہم منصوبوں میں ان کو معاونت فراہم کرتے رہے، حکومتی شخصیات سے قربت کوئی گناہ نہیں اوراگر منصوبوں میں کسی قسم کی بے ضابطگی، بدعنوانی ہوئی تو گرفتاری سے قبل انکوائری کی جاتی اور جس نے اس کا زبانی یا تحریری حکم دیا تھا اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاتی۔
نیب حکام مگر جانے کس کو راضی کرنے کے لئے اکثر مقدمات میں ملزم کو مجرم بنا دیتے ہیں، کئی کئی ماہ جیل میں ڈالے رکھا جاتا ہے، جسمانی ریمانڈ لیا جاتا ہے مگر طویل عرصہ کے بعدبھی ریفرنس دائر کئے جاتے ہیں نہ مقدمہ کا چالان عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ ایک مثال، چنیوٹ مائنز میں کرپشن کے الزام میں انتہائی پروفیشنل، دیانتدار سینئر بیوروکریٹ سلیمان غنی کو ضعیف العمری کے باوجود گرفتار کیا گیا اسی مقدمہ میں صوبائی وزیر سبطین خان ضمانت پر رہا ہو چکے تھے مگر سلیما ن غنی کو پتہ نہیں پھر کیوں گرفتار کیا گیا، عدالت سے رجوع کرنے پر نیب ان کے خلاف کوئی ثبوت اور گواہ نہ پیش کر سکا اور سلیمان غنی کو ضمانت پر رہائی مل گئی۔ ایسا ہی سلوک فواد حسن فواد اوراحد چیمہ کے ساتھ روا رکھا گیا، فواد حسن فواد جیسے قابل اور محنتی افسر کی سروس کے آخری سال ہم نے ضائع کر دئے۔ دونوں کے خلاف کرپشن الزامات کے انبار لگائے گئے مگر کسی جرم کا ثبوت اور گواہ پیش نہ کیا گیا، پنجاب کی 56 کمپنیوں کا کیس ابھی ادھورا ہے مگر فواد حسین فواد، احد خان چیمہ اور ان کے اہل خانہ نے جو ذہنی اذیت برداشت کی، یا کر رہے ہیں اس کا ازالہ کون کرے گا؟
احد چیمہ کو ایل ڈی اے سٹی میں پلاٹوں میں بے قاعدگی کے مقدمہ میں پکڑا گیا، ایل ڈی اے نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی کہ تمام متاثرین کو پلاٹ دیئے جائیں گے جس پر مقدمہ ختم ہو گیا مگراحد چیمہ کسی اور جرم بے گناہی کی سزا کے طور پر ابھی تک جیل میں ہیں، ڈھائی سال جیل میں رہنے کے باوجود ابھی ایک دو کیسیز میں انکی ضمانت باقی ہے، امید ہے کہ نیب کی تاریخ ساز جیل کاٹنے والا یہ اچھا افسر بھی رہا ہو ہی جائے گا اور اس ملک کے کام آئے گا۔ احد چیمہ نے اگر کوئی جرم کیا تھا، فواد حسن فواد نے کرپشن کی تھی یا سلیما ن غنی قومی مجرم تھے تو اس کے ثبوت و شواہد بھی ہوں گے، اگر تھے تو پیش کیوں نہ کئے گئے جو نہیں تھے توگرفتار کیوں کیا گیا؟ الزامات کی انکوائری، ثبوت اکٹھے کئے بغیر کس قانون کے تحت گرفتار کیا گیا، تازہ ترین یہ کہ مزید سابق اعلیٰ افسران کے خلاف پروسیجرل غلطیوں پر بھی کیسز بنا دئے گئے ہیں، جن میں اعزاز چودھری، آفتاب سلطان، شہاب انور خواجہ، شاہد خان اور دوسرے شامل ہیں، فواد حسن فواد پر بھی ایک نیا کیس بنا دیا گیا ہے۔
احتساب کے لامحدود اختیارات پر اب حکومت سمیت تمام بڑی اپوزیشن جماعتوں کو ہوش آیا ہے، تب انہیں اس قانون میں ترمیم کا خیال نہ آیا جب دونوں اس سے ذہنی آسودگی اور سیاسی مفادات حاصل کرتے تھے، موجودہ حکومت نے اس حوالے سے تاجروں، بیوروکریٹس، سیاستدانوں کے اعتراضات کے بعد پہلے صدارتی آرڈی نینس کے ذریعے ترمیم کی پھر اسے واپس لے کر اسمبلی کے ذریعے قانون سازی کا عندیہ دیا ہے، جس میں جلدی کرنا ہوگی۔
سپریم کورٹ بھی نیب حکام، اداروں کی کارکردگی، طریقہ کار پر سوال اٹھا چکی ہے، ہمارے ہاں سب سے بری روایت نچلی سے اوپری سطح تک یہ ہے کہ جس پر الزام عائد کیا جائے اپنی بے گناہی کے ثبوت لانا بھی اس کی ذمہ داری قرار پاتی ہے، تھانوں، کچہریوں میں بھی اسی روایت پر عمل ہوتا ہے حالانکہ الزام لگانے والے کو الزام ثابت کرنا چاہئے، مگر یہاں عرصہ دراز سے پہیہ الٹا گھوم رہا ہے۔
بیورو کریسی کسی بھی ریاست کا اہم ستون ہوتی ہے، ریاست کا اگر اس پر اعتماد نہ ہو تو ایسی بیوروکریسی کسی کام کی نہیں رہتی، بڑے بڑے دماغ، اعلیٰ تعلیم کے حامل، تربیت یافتہ افراد ناکارہ ہو جاتے ہیں جبکہ ان کو درست طور پر بروئے کار لا کر معاشرے اور قوم کے لئے گراں بہا خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں، کوئی حکومت بیوروکریسی یعنی انتظامیہ کے بغیر چند قدم آگے نہیں بڑھ سکتی اور جہاں بیوروکریسی ناپسندیدہ قرار پا جائے وہاں ترقی و خوشحالی کا خواب دیکھنا حماقت ہو گی۔ خدارا، احتساب ضرور کریں ملک اور اداروں کا بیڑہ غرق نہ کریں۔