والدین کی بے خبری
کالج میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ایک دوست نے بتایا کہ اَسی کی دہائی میں جب طلباء تنظیموں میں تعلیمی اداروں اور ہاسٹلز پر قبضہ جمانے کارحجان عروج پر تھا، سٹوڈنٹ لیڈرز مسلح جھتے بنا کر ہاسٹل کی چھتوں پر موجود ہوتے، طلباء سیاست کے دوران ہی لیڈری کے نام پر کچھ طلباء نے چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں اُس وقت ڈالنا شروع کردیں، جب وہ کالج کے باضابطہ طالب علم نہ تھے اس کھیل میں جامعہ کے طالب علم بھی شامل ہوگئے۔
اسی تکبر میں ایک طالب علم راہنماء کے ہاتھوں ایک فرد کا قتل دوران ڈکیتی ہوا، مرنے والا طالب علم نہیں بلکہ راہ گیر تھا، قاتل کا تعلق اسلام پسند طلباء تنظیم سے تھا، جب قانونی چارہ جوئی کا آغاز ہوا، تو متعلقہ تھانے سے اہلکار کالج آیا اس نے واردات سے آگاہ کرتے ہوئے پرنسپل سے درخواست کی اس کے والد کو طلب کیا جائے، سادہ لوح چرواہا اس کا والد کالج پہنچا اور اپنے لخت جگر کی کارستانی کا جب اسے علم ہوا تو اس نے زارو قطار رونا شروع کردیا، اپنے آپ کو برا بھلا کہتا رہا کہ میں اپنے بیٹے کی منفی سرگرمیوں سے کیوں لاعلم رہا۔ میری تو دنیاہی اجڑگئی۔
راقم کے کالج کے زمانے میں جب طلباء تنظیمیں مکمل فعال تھیں، آخری انتخابات منعقد ہوئے، بعد ازاں ان پر پابندی لگی، مگر وہ طلباء جنہیں اپنی"چوہدراہٹ" کی لت پڑ گئی تھی، وہ پیش پیش رہے، در پردہ طلباء تنظیموں کے راہنماء بھی متحرک رہے، ہمارے سیشن میں زیر تعلیم ایک طالبعلم جسے اُس وقت طلباء سیاست میں اہم ذمہ داری دی گئی، وہ اسی زعم میں آپے سے باہر ہوگیا، کالج میں اس کے رعب اور دبدبے کے بہت چرچے تھے، ہر کسی پر ہاتھ اٹھانے کو وہ معیوب نہیں سمجھتا تھا، جب آگے سے مزاحمت کم ہوتی گئی، اس کے حوصلے اور بلند ہو گئے، طلباء اور اساتذہ نے اس کے نظم سے اس بابت شکایت بھی کی اور حد میں رکھنے کو کہا، مگر یہ طالب علم اس وقت تک اپنا ایک گروپ بنا چکا تھا۔
دیہاتی پس منظر رکھنے والا "ڈیری داری"کی علت میں غرق ہونے لگا، اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، حلقہ کے بدنام زمانہ افراد نے اس پر"دست شفقت" رکھنا شروع کیا، تو اس کے پر پرزے نکل آئے، کچھ ہی مدت بعد یہ وحشت کی علامت بن گیا، اب نت نئی وارداتیں اس کے نام سے منسوب ہونے لگیں، ہر چند اس کا دیہات کالج سے دور نہ تھا، اس کے باوجود اس کے والدین اسکی تمام سرگرمیوں سے لا علم رہے۔ بد قسمتی سے اس کا تعلق ایسی برادری سے تھا، جہاں اس نوع کی بہادری پر تفاخر کرنا عام بات تھی، اس سابقہ طالب علم کی منفی سرگرمیوں کا شہرہ اتنا ہوا، دوستوں کی نسبت اس کے دشمنوں کی تعداد بڑھ گئی، اب یہ پرامن زندگی کی نعمت سے بھی محروم ہوگیا، ہر وقت اسے دھڑکا لگا رہتا کہ اندھی گولی اس کا پیچھا کر رہی ہے، تمام تر حفاظتی کاوش کے باوجود وہ مخالفین کی گولی کا نشانہ بن کر موت کی وادی میں چلا گیا، نام نہاد بہادری پر فخر کرنے والوں کے پاس سوائے تاسف کے اب کچھ بھی نہ تھا۔
کراچی شہر کی روشنیاں گل کرنے میں جس لسانی طبقہ کا اہم کردار رہا ہے، اس کی اولین ترجیع تو پسماندہ لوگوں کو ناانصافی سے بچانا اور اپنی کیمونٹی کو حقوق دلوانا تھا، اسی جذبہ کے تحت بہت سے نوجوان نیک نیتی کے ساتھ اس تحریک میں شریک ہوئے، مہاجر موومنٹ کی ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان قیادت نے جب اسکی سمت اور مقاصد کو تبدیل کیا، اسوقت تک شامل نوجوان آپے سے باہر ہوگئے، حقوق کی جنگ سے جرائم کی دلدل میں اترنے کاایسا بھیانک سفر شروع ہوا، جسکی باز گشت اور سسکیاں اب بھی گھروں کی دیواروں سے سنائی دیتی ہیں، جن کے لخت جگر لسانی لڑائی کا ایندھن بن گئے، اپنے سپوتوں سے والدین نے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں، وہ قیادت جس نے سنہری خواب دکھائے تھے وہ تو آج بھی اقتدار کے ایوانوں میں جلوہ افروز ہے، اصل نقصان تو ان ورکرز کا ہوا جنہیں شتر بے مہار چھوڑ دیا گیا، انکی خود سری انکی موت کا پروانہ بن گئی، جنہیں اپنے بوڑھے والدین اور بہن، بھائیوں کا سہارا بننا تھا۔
نسل نو کے جذبات سے کھیلنے کی روایت اگرچہ بہت پرانی ہے، مگر بڑا ظلم یہ ہے کہ انکی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر بے یارو مدد گار چھوڑ دینا ہے، خواہ وہ میدان جہاد کا ہو یا کسی احتجاجی تحریک کا مرحلہ درپیش ہو۔
یہی رویہ "تبدیلی" کی دعوی دار قیادت نے اپنایا ہے، 9 مئی کے بعد کتنے نوجوان پابند سلاسل ہیں، انھیں اس مقام تک لانے والوں کا کتنا قصور ہے، ان کے والدین پر کیا گزر رہی ہے، کب تلک وہ سورج کی کرنیں دیکھنے سے محروم رہیں گے، کسی کو کچھ علم نہیں، حساس اداروں پر حملہ آور ہونے سے قبل خفیہ پلاننگ پر سے پردہ اٹھا دیا جاتا تو عین ممکن بہت سے نوجوان راستہ بدل لیتے گمان ہے کہ والدین ایسی منفی سرگرمیوں سے آگاہ ہی نہیں ہوتے، جسکی شہادت ان کے انٹرویوز سے تب ملتی ہے جب دل اور زبان ساتھ نہ دیتے ہوں۔
اولاد کی سرگرمیوں سے لاعلمی بہت سے مسائل کو جنم دیتی ہے، ایسی صورت میں مافیاز کے لئے سافٹ ٹارگٹ تعلیمی ادارے ہوتے ہیں، اس قماش کے لوگ منشیات کی سپلائی سے دولت کی چملک میں اپنی راحت جبکہ اس لت میں پڑے نوجوان تسکین ڈھونڈتے ہیں، یہ کیفیت سرکار کے لئے بھی اب درد سر بنی ہوئی ہے۔
نجانے کتنے نوجوان صاحبان اقتدار، مذہبی، لسانی، گروہی ہوس کی بھینٹ چڑھ گئے، سنہری خواب دکھا کر وہ انکے جذبات سے کھیلتے رہے، مٹی میں خاک ہونے والوں کو کیا معلوم انکی قربانیوں کا فائدہ اٹھانے والوں میں کتنے مفاد پرست تھے؟ ایلیٹ کلاس جن کی اولادیں بیرون ملک مقیم ہیں، اخراجات کی ادائیگی صوبہ کی آمدنی سے کی جاتی ہے وہ نسل نو کو پہاڑوں پر چڑھانے میں یہ کہہ کر کامیاب ہوئے کہ ان کے صوبہ کے وسائل پر ملک کے مخصوص طبقہ کا تسلط ہے۔
خود غرضی کی اس سے اعلیٰ مثال کیا ہوگی، کہ ورکرز کو اپنی تحریک کا حصہ بنانے والوں کی اپنی اولاد کو کسی تحریک میں کبھی کوئی گزند نہیں پہنچتی، کسی سیاسی قیادت کی اندھی تقلید میں آخری حدپار کرنے قبل نسل نو کو ان حالات کا تجزیہ ضرور کرنا چاہیے کہ ایک طرف سونے کا نوالہ منہ لے کر پیدا ہونے والی سیاسی مخلوق تو دوسری طرف ان کے اقتدار کی راہ ہموار کرتا اور ضروریات زندگی سے محروم عام کارکن۔
اخلاقی طور پہلی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اولاد کی نگرانی سے صرف نظر نہ کریں، بسا اوقات انکی بے خبری اولاد کو پوائنٹ آف نو ریٹرن کے اس مقام پر لا کھڑا کرتی ہے، جہاں اجالا کم اور اندھیرا زیادہ ہوتا ہے۔