انصاف اور احتجاج
ہفتہ رفتہ میں قومی سطح پر دواہم واقعات رونما ہوئے، ایک تو26ویں آئینی ترمیم کی منظوری اور دوسرا پنجاب میں طلباء کا احتجاج قابل ذکر تھے، ایک ماہ کی ریاضت کے بعد بالآخر یہ ترمیم1973 کے آئین کاحصہ بن گئی ہے، پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے لئے شبانہ روز جدو جہد کسی فلم کا منظر نامہ لگ رہی تھاجس میں ہیروئن آخری وقت تک دکھائی نہیں دی، سرکار کی پوری کاوش رہی کہ وہ " ہیرو" کا کردار ادا کرتے ہوئے تاریخی کامیابی اپنے نام کر لے مگر مولانا نے بطور "ولن" اچانک دبنگ انٹری ڈال کر اِنکی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا، بھٹو کے نواسے تو مہمان اداکار کے طور پر شریک رہے، اور خوب داد پائی البتہ کپتان پارٹی " شامل باجے" کے طور پر ہر فورم پر ساتھ تھی، سیاسی جماعت ہونے کے باوجود اس نے مگر ترمیم کے لئے کوئی مسودہ، تجویز، سفارش تک پیش کرنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی پیچھے حکمت کیا ہے پارٹی سربراہ ہی جانتے ہیں، بانی پارٹی کو اپنی رہائی جبکہ قیادت کو اپنی اپنی "چودھراہٹ" کی فکر لاحق ہے۔ پارلیمنٹ سے باہر سیاسی جماعتیں ترمیم کی منظوری کے عمل کو غیر جمہوری کہتی ہیں۔
اس ساری مشق کا بھر پور فائدہ البتہ مولانا نے اٹھایا ہے، ان کے مضبوط اعصاب اور فراخ دلی نے ان کا راستہ آسان کر دیا، انھوں نے ایک تیر سے کئی شکار کھیلے ہیں، " بڑے گھر "میں اپنے لئے نرم گوشہ پیدا کیا، تین سال بعد سود کے خاتمہ کی نوید سنا کر معروف "مفتی جی"کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا، کپتان پارٹی کے دل میں گھر کر لیا، کپتان اور ورکرزاب نئی اذیت میں مبتلا اور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پہلے والے مولانا غلط تھے یا موجودہ والے اِن کے محسن ہیں، مذاکرات کی بھاری بھر مشقت اور اذیت اٹھانے کے بعد کپتان پارٹی کا خالی ہاتھ لوٹنے کا" کریڈٹ" بھی مولانا کو ہی جاتا ہے، کہتے ہیں کہ بنئے کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے انکی تاریخ شاہد ہے کہ مولانابغیر فائدہ کے کسی کو اپنا پلیٹ فراہم نہیں کرتے، قیاس کیا جارہا ہے کہ آنے والے وقت میں مفادات کی ایک" سیریز "انکی منتظر ہوگی۔ تاہم کپتان پارٹی اس سانپ کی تلاش میں ہے جس کا ڈنگ نکالنے کا دعویٰ مولانا نے کیا ہے۔ نئی ترمیم کے نتیجہ میں آئینی بینچ سے کون سا سیاسی راہنما مستفید ہوتا یازیر عتاب آتا ہے یہ توآنے والا وقت ہی بتائے گا۔
دوسرا افسوس ناک واقعہ ایک نجی کالج کے حوالہ سے پیش آیا، افواہوں کا بازا ر ایسا گرم ہوا کہ اس نے پنجاب کے بہت سے شہروں میں احتجاج کی شکل اختیار کرلی، ایک طالبہ کی عزت پامالی کی بابت افواہ نے ایسا ماحول بنا دیا کہ طلبا دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آئے، اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھتے ہوئے انھوں بہت سی املاک اور تعلیمی اداروں کے اثاثہ جات کو نقصان پہنچایا، امن و امان کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری جن سکیورٹی اداروں کے ناتواں کا ندھوں پر ہے انھوں نے بھی روایتی طریقہ اپنایا، اس مڈھ بھیڑ میں کچھ طلباء زخمی اور گرفتار ہوئے، کہا جاتا ہے، اس افواہ سازی میں اہم کردار سوشل میڈیا نے ادا کیا، متاثرہ بچی کی والدہ بھی برآمد کر ڈالی، ہسپتال میں اسکے علاج کی وڈیو بھی دکھائی گئی اسکی وفات کی خبریں بھی زیر گردش رہیں، حد تو یہ کہ اس کا جنازہ بھی اس پروپیگنڈہ کا حصہ تھا، موسم گرما میں کوٹ، جرسیاں پہنے، چادر اوڑھے لوگ اس کے جنازہ میں شریک تھے۔
پولیس اس نوع کے کسی واقعہ سے بالکل ہی انکاری تھی، صوبائی سرکار حرکت میں آئی ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی، معاملہ ہائی کورٹ تک جا پہنچا، ابتدائی فیصلہ بھی صادر ہوا، ان تمام تر سرگرمیوں کے باوجود کالج انتظامیہ کا کوئی ہینڈ آئوٹ سامنے نہ آیا، پنجاب سرکار کی ترجمان نے ادارہ کی انتظامیہ پر تاہم یہ الزام عائد کیا کہ وہ اس حساس معاملہ کو ہینڈل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر لفظی گولہ باری کی جنگ سیاسی ورکرز کے درمیان جاری رہی، دونوں طرف سے الزامات کی بوچھاڑ رہی، سیاسی حریف مذکورہ میڈیا پر آمنے سامنے رہے، یہ"قومی خدمت" وہ گروہ بھی انجام دے رہا تھا، جو سیاسی مخالفین کی عزت تار تار کرنے پر ملکہ رکھتا ہے، تادم تحریر نہ تو متاثرہ لڑکی سامنے آئی نہ ہی کالج انتظامیہ کا موقف۔
کہا جاتا ہے معروف تعلیمی چین میں زیر تعلیم طلبا و طالبات کی تعداد لا کھوں میں ہے، احتجاج کے موقع پر ان کے رویے یہ ظاہر کر رہے تھے، کہ کالج انتظامیہ نے بچوں کو روحانی کے بجائے صرف مادی آنکھ ہی سے دیکھا ہے، کردارسازی کو اہمیت دینے کے بجائے اپنے کاروبار کو فوقیت دی ہے، ورنہ مظاہرین بے دردی سے اپنے ہی ادارہ جات کی املاک کونقصان نہ پہنچاتے۔
عوامی احتجاج کے موقع پر سرکاری املاک، پبلک ٹرنسپورٹ، سٹریٹ لائیٹس ہی نجانے کیوں نشانہ پر ہوتی ہیں، شاہراہوں، چوراہوں کو بند کرکے عوام کو اذیت اور ازخود راحت محسوس کرنے والے کم از کم انسان کہلانے کے حق دار تو نہیں، کسی بھی ایشو پر احتجاج ریکارڈ کرانے کے دسیوں طریقہ کار رائج العمل ہیں۔
حال ہی میں مغربی ممالک میں اہل غزہ، فلسطین کی حمایت میں نکلنے والے جلوس جس میں جامعات کے لاکھو ں طلباو طالبات شریک ہوئے مگر پر امن رہے، ایسی تربیت ہمیں کہاں سے میسرآئے گی؟ جب وزراء اعلیٰ ہی وفاق کے اداروں پر چڑھ دوڑیں تو نسل نو سے شکوہ کیسا؟ احتجاج کے جمہوری حق کو غیر جمہوری انداز میں اد ا کرنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں، یہ رویہ ہر دور میں روا رہا ہے، نہ تو تعلیمی ادارے ہی اس جانب کوئی توجہ مرکوز کرتے ہیں، نہ ہی والدین یہ ذمہ داری نبھاتے ہیں، سیاسی جماعتیں بعض اوقات اس سنہری موقع کی تلاش میں رہتی ہیں، سرکار سامراجی عہد کی دفعہ 144 نافذ کرکے بری الذمہ ہو جاتی ہے، جس کے فرائض منصبی میں قوم کی تربیت بھی شامل ہے۔ ہر چند سوشل میڈیا فی زمانہ بڑی اہمیت کا حامل ہے، لیکن نجی کالج کے واقعہ کی بنیاد جس جھوٹ پر رکھی گئی، اس سے یہ اپنی کریڈیبلٹی کھو چکا اور سماج میں افرا تفری پھیلانے کا موجب بھی بنا ہے۔ رائے یہ ہے کہ جب تلک سخت سزائوں کا نفاذ نہیں ہوتا، قومی املاک، پبلک پراپرٹی یونہی نذر آتش ہوتی رہے گی۔
سرکار کی رائے میں آئینی بنچ بنانے کی ضرورت اس لئے بھی پیش آئی ہے کہ عدالت عظمیٰ میں کسی مدعی کے مقدمہ کا فیصلہ بعداز مرگ نہ ہو، دیکھنا یہ ہے کہ یہ بینچ اُن آمروں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے، جنہوں نے آئین کی پامالی میں فخر محسوس کیا تھا، یہ بنچ آئین کے مکمل تحفظ اور اس کے اطلاق میں اگر کامیاب رہا تو یہ بھی بڑی خدمت ہوگی۔