یہی ہے وہ، یہی ہے وہ
یہ مسجد نبوی کا منظر تھا، اللہ کے رسول نماز کے بعد مسجد میں تشریف رکھتے تھے، اصحاب گھیرا ڈال کر بیٹھ جاتے تھے، دنیا جہاں کی گفتگو ہوتی تھی، یہ گفتگو دین اور دنیا دونوں کی مشعل ہوتی تھی، آپؐ ایک دن تشریف فرما تھے، اللہ کے رسولؐ نے مسجد نبوی کے ایک دروازے کی طرف دیکھا اور فرمایا " اس دروازے سے ابھی ایک جنتی اندر داخل ہو گا، صحابہؓ نے اپنی نظریں دروازے پر جما دیں، زیادہ وقت نہیں گزرا، دروازے سے ایک ضعیف انصاری اندر داخل ہوئے، سلام کیا اور چپ چاپ محفل میں بیٹھ گئے، دن گزر گیا، دوسرے دن دوبارہ محفل لگی۔
اللہ کے رسولؐ سوالوں کے جواب دے رہے تھے، آپؐ نے ایک بار پھر اس دروازے کی طرف دیکھا اور فرمایا "اس دروازے سے ابھی ایک جنتی اندر داخل ہو گا" صحابہؓ دوبارہ دروازے پر نظریں جما کر بیٹھ گئے، تھوڑی دیر بعد وہی بزرگ صحابیؓ اندر داخل ہوئے، سلام کیا اور چپ چاپ بیٹھ گئے، تیسرے دن بھی اللہ کے رسولؐ نے فرمایا "اس دروازے سے ابھی ایک جنتی اندر داخل ہو گا" اور اس دن بھی وہی صحابیؓ تیسری بار اندر داخل ہو گئے، محفل میں ایک ایسے صحابیؓ بھی موجود تھے جن کی عبادت گزاری انتہا کو چھو رہی تھی، وہ رات بھر عبادت کرتے تھے، صبح روزہ رکھتے تھے اور دن میں ایک قرآن مجید ختم کرتے تھے، ان کی یہ عبادت گزاری دیکھ کر اللہ کے رسولؐ نے ان پر پابندی لگا دی۔
آپ رات کو آرام بھی کریں گے، ایک دن چھوڑ کر ایک روزہ رکھیں گے اور تین دن میں ایک قرآن مجید ختم کریں گے، ان کا نام حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ تھا، یہ عبادت گزار ترین صحابی تھے، یہ تینوں دن رسول اللہ ﷺکی محفل میں موجود تھے، یہ اس غیر معروف انصاری صحابی ؓکے بارے میں یہ بشارت سن کر حیران رہ گئے اور انھوں نے سوچا یہ شخص یقینا مجھ سے زیادہ عبادت کرتا ہو گا چنانچہ وہ اگلے دن اس صحابیؓ کے گھر چلے گئے اور چند دن کے لیے مہمان بننے کی درخواست کی، مدینہ میں ان دنوں یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئی مہمان آئے اور صاحب خانہ اس کی میزبانی سے انکار کرے لہٰذا انصاری صحابیؓ نے اپنے دروازے ان کے لیے کھول دیے، مہمان اور میزبان دونوں نے رات کا کھانا کھایا، عشاء کی نماز پڑھی اور چارپائیوں پر چلے گئے، حضرت عبداللہ بن عمرو ؓنے منہ پر چادر تانی، چادر میں ایک درز بنائی اور چھپ کر بزرگ صحابیؓ کی چارپائی کی طرف دیکھنے لگے۔
ان کا خیال تھا، یہ بزرگ اٹھیں گے اور عبادت شروع کر دیں گے مگر بزرگ صحابیؓ نے چادر تانی اور صبح فجر کی نماز تک مزے سے سوتے رہے، حضرت عبداللہ بن عمروؓ حیران رہ گئے، بزرگ صحابیؓ نے فجر کی نماز ادا کی، ناشتہ کیا اور کام پر روانہ ہو گئے، اگلی رات آئی، حضرت عبداللہ ؓکا خیال تھا، یہ اس رات عبادت کریں گے مگر وہ اس رات بھی عشاء کی نماز کے بعد لمبی تان کر سو گئے، تیسری رات آئی تو اس بار بھی یہی ہوا وہ انصاری صحابیؓ جس کو نبی اکرمؐ نے تین بار جنت کی بشارت دی تھی، وہ تیسری رات بھی لمبی تان کر سو گئے، یہ وہ دور تھا جب مدینہ کا کوئی شہری تہجد بھی ضایع نہیں کرتا تھا جب کہ وہ صحابیؓ صرف فجر کے وقت اٹھتے تھے، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ پریشان ہوئے اور انھوں نے چوتھے دن بات کھول دی، انھوں نے فرمایا، اللہ کے رسولؐ نے آپ کے لیے تین دن مسلسل جنت کی بشارت دی تھی، میں یہ معلوم کرنے کے لیے آپ کے گھر ٹھہرا تھا، آپ کون سی ایسی عبادت، کون سا ایسا فعل کرتے ہیں۔
جس کی وجہ سے اللہ کے رسولؐ نے آپ کو جنت کا حق دار قرار دیا لیکن مجھے ان تین دنوں میں آپ میں کوئی انوکھی بات نظر نہیں آئی، آپ کی زندگی صرف فرائض تک محدود ہے، آپ نفلی عبادت تک نہیں کرتے پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو کیوں منتخب کیا؟ بزرگ صحابیؓ نے قہقہہ لگایا اور فرمایا " بھتیجے میں جیسا ہوں، میں آپ کے سامنے ہوں، میں اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوں " حضرت عبداللہؓ مایوس ہو کر روانہ ہونے لگے، وہ دروازے تک پہنچے تو بزرگ صحابیؓ نے آواز لگائی "بھتیجے سنو، بھتیجے سنو" حضرت عبداللہ واپس مڑ آئے، بزرگ انصاری صحابیؓ نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا اور کہا "میری اس جگہ دنیا کے کسی شخص کے لیے کوئی بغض، کوئی نفرت اور کوئی حسد نہیں، اللہ تعالیٰ جب بھی کسی شخص کو کوئی نعمت عطا کرتا ہے تو میں دکھی نہیں ہوتا، میں خوش ہوتا ہوں " حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ نے یہ سنا تو انھیں کرنٹ سا لگا اور وہ چلا کر بولے " یہی ہے وہ، یہی ہے وہ"۔
یہ واقعہ چند دن قبل مولانا طارق جمیل نے اسلام آباد میں سنایا، مولانا کو اللہ تعالیٰ نے علم اور تاثیر دونوں سے نواز رکھا ہے، ان کی آواز میں مقناطیسیت ہے، یہ دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں، میرے ان سے 15 سال پرانے تعلقات ہیں، میرے لیے اس مدت میں مولانا کے "اثرات" سے "محفوظ" رہنا انتہائی مشکل کام تھا لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہے، مولانا مجھ سے اور میں آج تک مولانا سے "بچا" ہوا ہوں مگراس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں، میں مولانا کی گفتگو کو سیریس نہیں لیتا، یہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات کرتے ہیں اور دنیا میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی باتوں سے زیادہ سیریس کوئی بات نہیں، مولانا کی ایک خوبی بندگی بھی ہے، یہ ہرحال میں انسان رہتے ہیں، یہ اللہ کے ایس ایچ او نہیں بنتے، یہ بندے اور اللہ کے درمیان حائل بھی نہیں ہوتے، یہ بندوں کو گناہ گار ہونے کا احساس بھی نہیں دلاتے، یہ دلوں کو توڑتے بھی نہیں ہیں، یہ جوڑتے ہیں۔
یہ غیبت بھی نہیں کرتے، یہ متنازعہ گفتگو بھی نہیں کرتے اور یہ حس ظرافت سے بھی لبالب ہیں، میرا تجربہ ہے جس انسان میں حس ظرافت نہیں، جس شخص میں جمالیاتی ذوق نہیں اور جس شخص میں رومان نہیں وہ شخص کچھ بھی ہو جائے، وہ اچھا انسان نہیں ہو سکتا اور مولانا طارق جمیل میں تینوں خوبیاں موجود ہیں، یہ سفر کرتے ہیں، کتابیں پڑھتے ہیں، موسموں کو انجوائے کرتے ہیں اور بزرگ اور ریٹائرڈ اداکاراؤں کو دائرہ اسلام میں واپس لاتے ہیں، یہ ان کے خمیر میں چھپی رومانویت ہے، یہ جمالیاتی ذوق سے بھی مالا مال ہیں، میں نے کبھی ان کا لباس اور جوتا گندہ نہیں دیکھا، ان کی نشست اور برخاست میں بھی سلیقہ اور حسن ہوتا ہے، ان کا پیٹ بھی کنٹرول میں ہے اور یہ صاحبان ایمان کی طرح ڈکار بھی نہیں مارتے اور تیسری خوبی یہ حس ظرافت سے بھی لبالب ہیں، یہ بھی کھل کر قہقہہ لگاتے ہیں اور لوگ بھی ان کی محفل میں کھل کر ہنستے ہیں۔
مولانا کے سامنے ہنسنا گستاخی نہیں ہوتی چنانچہ یہ اچھے انسان ہیں اور میرے جیسے بے شمار گناہ گار اور دنیا دار ان سے محبت کرتے ہیں، مولانا چند دن قبل اسلام آباد تشریف لائے، مجھے دعوت دی، ملاقات ہوئی، ملاقات میں گفتگو ہوئی تو مولانا نے یہ واقعہ سنایا، واقعے کے بعد مولانا نے ترمذی شریف کی ایک حدیث بھی سنائی، حضرت انسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا " اے میرے بچے اگر تو کر سکے تو صبح شام اپنے دل کو سب کے لیے صاف کر لے"۔
آپؐ نے پھر فرمایا " میرے بچے یہ میری عظیم الشان سنت ہے اور جو میری سنت سے پیار کرے گا، وہ مجھ سے پیار کرے گا اور جو مجھ سے پیار کرے گا وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا" مولانا نے یہ حدیث اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کا واقعہ سنایا تو یہ دونوں تیر کی طرح سیدھے دل میں لگے اور میں سرشاری کے عالم میں دیر تک سر دھنتا رہا، کیوں؟ کیونکہ یہ ہے اصل اسلام، یہ ہے اصل دین۔ آپ اپنے دل کو صاف کر لیں، دل کو ایک ایسی مقدس عبادت گاہ بنا لیں جس میں بغض، کینہ اور حسد جیسے شیطان داخل نہ ہو سکیں تو آپ منزل پا لیں گے۔
آپ کو کسی کی بات بری لگے تو آپ اس سے کہہ دیں، آپ دل میں نہ رکھیں، آپ کہہ نہ سکیں تو آپ دو رکعت نفل نماز ادا کریں اور نماز کے دوران اس شخص کو اللہ کے نام پر معاف کر دیں، بغض ختم ہو جائے گا، آپ دوست بن کر کسی کو نقصان نہ پہنچائیں، آپ منہ پر دوست ہیں لیکن اندر ہی اندر اس شخص کے دشمن ہیں، آپ روز اس کو نقصان پہنچانے کے منصوبے بناتے ہیں تو آپ کینہ پرور ہیں، آپ اپنے دل کو اس کینے سے بھی پاک کر لیں۔
آپ دوست ہیں تو پھر دوست بنیں اور اگر آپ کسی کے دشمن ہیں تو پھر پوری دنیا کو معلوم ہونا چاہیے آپ فلاں کے دشمن ہیں، دوستوں کے بھیس میں دشمنیاں پالنا ظلم ہے اور آپ اگر ایسے انسان ہیں تو پھر آپ کی نمازوں، آپ کے روزوں کا کوئی فائدہ نہیں اور رہ گیا حسد!آپ اگر دوسروں کی کامیابیوں پر جلتے ہیں، آپ اگر لوگوں کو ناکام ہوتا، برباد ہوتا اور خراب ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ حسد جیسی بیماری کے شکار ہیں، یہ بیماری آپ، آپ کی صحت، آپ کے سکون اور آپ کے ایمان چاروں کو نگل جائے گی، آپ جلد سے جلد اپنے دل کو اس خرابی سے بھی پاک کر لیں، آپ مراد پا جائیں گے۔
ہم خواہ زیادہ عبادت اور زیادہ ریاضت نہ کریں، ہم خود کو صرف فرائض تک محدود رکھ لیں بس ہم روز سونے سے قبل اپنا دل صاف کر لیں، ہم نے جس سے زیادتی کی ہم اس سے معافی مانگ لیں اور جس نے ہمارے ساتھ زیادتی کی ہم اللہ کے نام پر اسے معاف کر دیں، ہمیں مزید کسی عبادت، کسی وظیفے، کسی ایکسرسائز، کسی سکون آور دوا کی اور کسی ڈائیٹ چارٹ کی ضرورت نہیں رہے گی، ہم بھی اس دروازے سے مسجد نبوی میں داخل ہو جائیں گے جس سے وہ بزرگ صحابیؓ داخل ہوئے تھے اور جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے تین دن مسلسل فرمایا تھا " یہ جنتی ہے" آپ بھی کر کے دیکھئے، آپ بھی کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ یہی ہے وہ، یہی ہے وہ! جس کی ہمیں تلاش تھی۔