Bachon Se Ziadti
بچوں سے زیادتی
میں بال مختلف دکانوں سے کٹواتا رہتا ہوں لیکن اس دفعہ پچھلی دکان پر دوبارہ گیا تو اس کے مالک نے (جو ایک گاہک کے بال کاٹ رہا تھا) نے باہر جاکر آواز لگائی تو ایک اچھی خاصی پرسنالٹی کا حامل شخص آگیا اور میرے بال کاٹنے شروع کردیے۔ پہلے وہ موبائل پر میچ لگانے کی کوشش کرتا رہا تو میں نے کہا کہ فیس بک پر لائیو آرہا ہوگا تو اس نے وہاں پر لگا کر بال کاٹنے شروع کردیے اس اثناء میں دکان کا مالک باہر چلا گیا۔ وہ شخص میرے بال کاٹ کر فارغ ہوا تو میں اٹھنے لگا تو وہ کہنے لگا "سر! اس ملک میں یہ سب کچھ کب تک چلے گا؟"
میں نے ہمیشہ کی طرح یہ کہا کہ "1947 سے اب تک یہی ہوتا آرہا ہے۔ بس چلتا رہے گا"۔
وہ زور دے کر کہنے لگا "نہیں سر! 2018 کے بعد تو برا حال ہے"۔
میں نے سوچا لوجناب سیاست پر گفتگو شروع ہونے لگی ہے تو اس لیے میں نے کہا کہ"یار! سیاست دان سب ایک سے ہوتے ہیں یہ سب چلتا رہتا ہے کسی کو الزام نہیں دینا چاہیے"۔
وہ بولا "نہیں سر! میں عدالتی نظام کی بات کررہا ہوں۔ کیا یہ کبھی سیدھا ہوگا؟"
میں نے پوچھا "کیا ہوا؟"
تو کہنے لگا "میرا بیٹا سکول سے آرہا تھا تو کسی نے اٹھا کر زیادتی کردی۔ میں پولیس کے پاس گیا اور عدالت میں بھی پیش ہوا لیکن پتا نہیں کون کون سے کاغذات مانگتے رہتے ہیں۔ میں غریب بندہ ہوں اس دکان پر کام کرتا ہوں اور پچیس فیصد کمیشن بھی دینا پڑتا ہے تو اب تو تھک ہار کر پیچھے ہٹ گیا ہوں"۔
یقین کیجیے میں تو ایک دم گنگ سا ہوگیا اورتھوڑی دیرکے لیے تسلی کا لفظ بھی نہ بول سکا کیونکہ اگر کچھ پیسوں وغیرہ کا مسئلہ ہوتا تو شاید میں اس کی مدد کردیتا لیکن یہ تھانہ کچہری کے چکر اور دیار غیر۔۔ ہاں شاید میرا آبائی علاقہ ہوتا تو دوستوں وغیرہ سے مل ملا کر کچھ کرلیتا لیکن اگر میں اسے کہہ دیتا کہ کچھ کوشش کروں گا تو ہوسکتا تھا کہ یہ آس لگا لیتا اور میں کبھی کسی کو جھوٹی آس دلانا پسند نہیں کرتا ہوں خاص طور پر جب کسی بااثر بندے سے میری سلام دعا نہ ہو۔ مجھے لگا کہ یہ بے چارہ بھی ایک آس پر شاید کسی نہ کسی کو اپنی دکھ بھری کہانی سناتا ہوگا کہ شاید کوئی اس کی مدد کردے۔
مجھے اس موقع پر اپنے والد کی یاد شدت سے آئی کہ جب انہوں نے ایک غریب کے بچے سے زیادتی کرنے والے پولیس والے کو سزا دلواکر دم لیا تھا۔
اس ہی طرح ایک دور میں لاہور ہی میں ایک بچے سے زیادتی کرکے قتل کرنیولے بااثر مجرموں کو ملکی اور غیرملکی دباؤ کے باوجود سرِ عام پھانسی لگائی گئی تھی اور کراچی میں بچے سے زیادتی کے ایک مجرم کو سرِعام کوڑے لگائے تھے اور پھر اس دور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں بہت بڑی کمی آگئی تھی۔
لیکن اب لگتا ہے کہ اس چیز کو ایک بات تسلیم کرلیا گیا ہے اور اسے ایک بالکل عام سی بات کے طور پر لیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو بچے کے ساتھ تاعمر رہتی ہے اور پھر وہ انتقاماً دوسرے بچوں سے ایسا کام کرے گا۔ یہ وہ لعنت ہے جو اس معاشرے میں بری طرح پھیلی ہوئی ہے لیکن ہم اس پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ میرے نزدیک تو بچوں کو ایک دوسرے کے گھروں میں بلکہ بند کمرے میں بھی کھیلنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ تمام والدین اپنے سکول جانے والے بچے سے اس کے سکول کے بچوں کے بارے میں پوچھتے رہیں اور اس طرح کے معاملات پر سکول کے اساتذہ سے مشاورت ضرور کریں۔ بعض اوقات بڑے بچے چھوٹے بچوں کو بری طرح سے ہراساں کرکے رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ سکول کے اساتذہ کسی بچے کے والدین سے اس کے بری حرکات کے بارے میں بات کریں تو وہ سرے سے انکاری ہوجاتے ہیں۔ ہر سکول میں ایسے بے شمار واقعات ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں اور بے شمار اساتذہ اور استانیوں کےپاس ایسے ایسے قصے ہوتے ہیں کہ بندہ کانوں کو ہاتھ لگا لے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرہ اور حکومت اس جرم کو بھی جرم ہی سمجھے اور جس طرح بجلی چوری کرنے والوں کو مکمل رازداری فراہم کرنے کی یقین دہانی کی جاتی ہے اس ہی طرح سکولوں، محلوں، گھروں، مختلف اداروں بالخصوص ہوٹلوں، ورکشاپوں میں کام کرنے والے بچوں کے ساتھ زیادتی کی نشاندہی کرنے والے کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے اور یہ فعل کرنے والے کو قرار واقعی سزا دی جائے بجائے اس مکروہ فعل کو نظرانداز کرنے کے۔
خیر میں نے اس شخص کو کہاکہ دنیا میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ظلم کا سامنا کرتے ہیں اور مجبوروں کی مدد بھی کرتے ہیں اور مشہور جملہ بولا کہ "اللہ تو سب دیکھ رہا ہے اور اس کی لاٹھی بےآواز ہے"۔
اس کے ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ پاکستان میں لاتعداد لوگ مستحقین کی مدد کے لیے کوشاں ہیں لیکن کیا کبھی کسی وکیل یا پولیس کے محکمے کے ریٹائرڈ بندے نے سوچا کہ اس طرح کےجرائم کے بیخ کنی کے لیے غریب نادار یا لاچار لوگوں کو شہر یا علاقے میں رفاحی تنظیموں کی طرز پر انصاف دلانے کی غرض سے بھی تنظیمیں بنائی جاسکتی ہیں جو اس طرح کے مظلومین کو انصاف دلانے کے لیےکوشش کریں۔ باقی ہم جیسے لوگ جتنا ہوسکے گا مالی اور اخلاقی مدد کریں گے۔ بالخصوص ایک وکیل اس طرح کےکاموں میں نادار لوگوں کی دعائیں لے سکتا ہے۔