Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Mulk Ke Aik Sabiq Sadar Inteqal Kar Gaye

Mulk Ke Aik Sabiq Sadar Inteqal Kar Gaye

’’ملک کے ایک سابق صدر انتقال کر گئے‘‘

فیلڈ مارشل ایوب خان، پاکستان کے پہلے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے۔ انھوں نے 27 اکتوبر 1958ء کو مارشل لاء لگایا۔ سکندر مرزا صدرِ پاکستان تھے،ایوب خان نے سکندر مرزا کو معزول کرنے کا فیصلہ کیا۔ میجر جنرل یحییٰ خان اور میجر جنرل عبدالحمید نے استعفیٰ تیار کیا۔ میجر جنرل عبدالمجید ملک نے یہ استعفیٰ ٹائپ کیا اور جنرل اعظم خان، جنرل ڈبلیو اے برکی اور جنرل کے ایم شیخ، یہ استعفیٰ لے کر ایوانِ صدر پہنچ گئے۔سکندر مرزا کا استعفیٰ ٹائپ کرنیوالے جنرل عبدالمجید ملک فوج سے ریٹائر ہوئے، سیاست میں آئے۔ پاکستان مسلم لیگ، جونیجو لیگ، ن لیگ اور ق لیگ سے ہوتے ہوئے آج کل خاموش زندگی گزار رہے ہیں۔

سکندر مرزا نے استعفے پر دستخط کر دیئے اوریوں ملک میں مارشل لاؤں کا دھانہ کھل گیا۔جنرل ایوب خان اکتوبر 1958ء سے مارچ 1969ء تک، ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ہم اگر پاکستان کی تاریخ کا تنقیدی جائزہ لیں، تو ہمیں ماننا پڑیگا ایوب خان کا دور اچھائیوں اور برائیوں کا عظیم مرکب تھا۔برائیوں میں مارشل لاؤں کا آغاز، پاکستان کا امریکا کی طرف یک طرفہ جھکاؤ، مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے جراثیم، ریاست کا ویلفیئر کی بجائے سیکیورٹی اسٹیٹ بن جانا اور ملک میں ابن الوقت سیاستدانوں کی نرسری جیسے کارنامے شامل ہیں۔ جب کہ اچھائیوں میں انفرا سٹرکچر، اداروں کا آغاز اور پاکستان کی عالمی پذیرائی جیسے کارنامے شامل ہیں۔

ہم ملک میں جب بھی ترقیاتی کاموں کی تاریخ لکھیں گے ،ہمیں ایوب خان کی خدمات کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں بجلی ہو، گیس ہو، سڑکیں ہوں، پل ہوں، ڈیمز ہوں، دریا اور نہریں ہوں، ریلوے ہو، پی آئی اے ہو، تعلیمی نظام ہو، ٹیلی فون ہو یا پھر ٹیلی ویژن ہو ،آپ ایوب خان کی خدمات اور وژن کو سلام پیش کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔گوہر ایوب،فیلڈ مارشل ایوب خان کے صاحبزادے ہیں، یہ فوج میں کیپٹن تھے۔ ایوب خان کے حکم پر گوہر ایوب کو صدر کا اے ڈی سی بنا دیا گیا۔ یہ تین سال صدر کے اے ڈی سی رہے۔

گوہر ایوب نے بعد ازاں فوج سے استعفیٰ دیا، کاروبار شروع کیا، سیاست میں آئے اور ملکی تاریخ کے مختلف ادوار میں رکن قومی اسمبلی، اسپیکر قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر رہے۔ یہ میاں نواز شریف کے سابق دور میں ،وزیر خارجہ اور پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر بھی رہے۔ یہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان مسلم لیگ ق میں چلے گئے۔ گوہر ایوب کے صاحبزادے عمر ایوب، شوکت عزیز کی کابینہ میں، خزانہ کے وزیرِ مملکت بھی رہے۔ یہ دونوں باپ بیٹا، آج کل دوبارہ پاکستان مسلم لیگ ن میں ہیں۔

گوہر ایوب نے چند برس قبل، اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب شائع کرائی۔ میں نے کل یہ کتاب ختم کی، یہ سیاسی معلومات کا خزانہ ہے۔آپ ایوانِ اقتدار میں پرورش پانے والی سازشیں بھی دیکھتے ہیں ،اور بڑے بڑے لیڈروں کے اصل چہرے بھی۔کتاب میں ایسے بے شمار واقعات ہیں جن پر ہم مہینوں بات کر سکتے ہیں، لیکن مجھے ایوب خان کے ذاتی کردار کے حوالے نے زیادہ متاثر کیا۔ یہ واقعات ماضی کے حکمرانوں کے ذاتی کردار کی اس عظمت کا اظہار ہیں، جو آج کے حکمرانوں میں مفقود ہے۔ آپ ایوب خان کی زندگی کے واقعات ملاحظہ کیجیے اور اس کے بعد موجودہ حکمرانوں کی ذات دیکھئے۔

آپ کو زمین، آسمان کا فرق محسوس ہوگا۔ مثلاً ایوب خان نے جب سکندر مرزا کو معزول کر کے لندن جلاوطن کیا ،تو بیگم اصفہانی نے سکندر مرزا اور ناہید مرزا کو رخصت کرنے کے لیے ائیر پورٹ جانے کی اجازت مانگی۔ ایوب خان نے نہ صرف انھیں اجازت دے دی بلکہ انھیں یہ پیش کش کی، آپ اگر ان کے ساتھ لندن تک جانا چاہیں تو بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ایوب خان نے سکندر مرزا کے لیے دو پنشن شروع کرا دیں، ایک ملازمت کی پنشن اور دوسری صدارت کی پنشن۔ایوب خان نے سکندر مرزا کے صاحبزادے ہمایوں مرزا کو فون کر کے کہا، آپ کے والد میرے بہت اچھے دوست ہیں۔

وہ جلاوطن ہوئے ہیں ،لیکن آپ اور آپ کے خاندان کو کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔ایوب خان نے سکندر مرزا کی کابینہ کے کسی وزیر کو برطرف نہیں کیا، پرانی کابینہ نئے صدر کے ساتھ کام کرتی رہی۔سابق صدر کے ملٹری سیکریٹری، اے ڈی سی اور پرنسپل سیکریٹری بھی برقرار رہے، ایوان صدر کا باورچی تک نوکری پر قائم رہا۔ سکندر مرزا متوسط قامت کے مالک تھے، جب کہ ایوب خان لمبے تھے۔ایوب خان سکندر مرزا کے بیڈ پر نہیں آتے تھے، لیکن نئے صدر نے پرانے صدر کا بیڈ تبدیل کرنے کی بجائے بیڈ کا فٹ بورڈ ہٹا یا، دوکشن سٹول لگائے اور وہ اس چھوٹے بیڈ پر سوتے رہے۔

صدر نے سیاستدانوں کو، ایبڈو، جیسے قانون کے ذریعے ڈس کوالی فائی کر دیا۔ ایبڈو کی وجہ سے ملک کے بڑے بڑے سیاستدان سیاست سے فارغ ہو گئے ،لیکن ایوب خان بعدازاں ان سیاستدانوں سے ملاقات کرتے رہے۔یہ ان کی خوشی، غمی کی تقریبات میں بھی شریک ہوتے تھے۔ یہ مری میں ممتاز دولتانہ کے خاندان سے بھی ملتے تھے، اور پولیس نے جب خان عبدالقیوم خان کو ریلی نکالنے پر گرفتار کر لیا، تو خان صاحب نے صدر کو خط لکھا۔ آپ ملک سے باہر جا رہے ہیں، پولیس آپ کی غیر موجودگی میں میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرے گی۔ ایوب خان کو یہ خط ائیرپورٹ پر ملا۔

صدر نے جہاز پر سوار ہونے سے قبل، خان عبدالقیوم خان کی رہائی کا حکم جاری کر دیا۔ ایوب خان سادہ کھانا کھاتے تھے، وہ گلاس میں صرف اتنا پانی ڈالتے تھے جتنا انھوں نے پینا ہوتا تھا۔وہ رات کو اٹھ کر ایوان صدر کی بتیاں بجھاتے تھے۔ وہ جنرل تھے تو سائیکل پر دفتر چلے جاتے تھے، صدر بنے تو ریل کے ذریعے سفر کرنے لگے۔ پورے عہد ِصدارت میں پرانی کار استعمال کی، اسٹاف کو نئی کار نہیں خریدنے دی۔ وہ رات کو مری روڈ پر ڈرائیونگ کرتے تھے، راستے میں کوئی بوڑھا نظر آ جاتا تو اسے اسٹاف کار میں بٹھا لیتے تھے۔ وہ صرف ضرورت کی چیز خریدتے تھے، پیسہ ضایع نہیں ہونے دیتے تھے۔

گوہر ایوب اپنی اہلیہ کے ساتھ ایوان صدر جاتے تھے۔ صدر بیٹے اور بہو کو کھانا کھلاتے تھے ،لیکن کھانے کے بعد ڈنر کا بل آتا تھا اور بیٹا اور بہو اپنے کھانے کا بل ادا کر کے واپس جاتے تھے۔ صدر بھی ایوان صدر میں اپنے کھانے، چائے اور مشروبات کا بل ادا کرتے تھے۔ صدر ایوب خان کا گاؤں ریحانہ تھا، یہ گاؤں ہری پور کے مضافات میں ہے۔صدر نے وہاں اپنا ذاتی گھر تعمیر کرایا، گھر میں پانی کا کنکشن نہیں تھا، پانی گدھوں پر لاد کر لایا جاتا تھا۔ ریحانہ کے گھر میں، صدر ایوب کے انتقال تک ٹیلی فون نہیں تھا۔ صدر کبھی ہیلی کاپٹر پر گاؤں یا ہری پور نہیں گئے۔

صدر کے انتقال پر دس جنرل دو ہیلی کاپٹروں پر ریحانہ پہنچے، تو گاؤں کے لوگوں نے زندگی میں پہلی بار ہیلی کاپٹر دیکھے۔ وہ اپنی پرانی ٹوپیاں ضایع نہیں کرتے تھے، وہ ٹوپیاں کیپ میکر کے پاس بھجوا کر ان کا اسٹائل تبدیل کرا لیا کرتے تھے۔وہ ذاتی پین استعمال کرتے تھے، پین کی نب ٹوٹ جاتی تھی تو وہ نئی نب لگوا لیتے تھے ،لیکن نیا پین نہیں خریدتے تھے۔ ایوب خان نے اپنے صاحبزادوں ،اختر ایوب اور گوہر ایوب کی اکٹھی شادیاں کیں۔گوہر ایوب کی بارات پشاور گئی، بارات میں صرف خاندان کے چند لوگ شامل ہوئے۔ ولیمہ دونوں بیٹوں کا اکٹھا ہوا ،جس میں صرف اڑھائی سو لوگ شریک ہوئے۔

ایوب خان کی کابینہ نے ،گوہر ایوب اور اختر ایوب دونوں کو چاندی کا ایک ایک ٹی سیٹ دیا۔ یہ تحفہ پوری کابینہ کی طرف سے تھا۔ بیگم بھٹو نے ،گوہر ایوب کو ذوالفقار علی بھٹو کا سگریٹ کیس اور اپنا ذاتی سونے کابریسلٹ دیا۔ گوہر ایوب نے یہ دونوں تحائف بعد ازاں بے نظیر بھٹو کو اس وقت واپس دے دیئے ،جب وہ 1988ء میں وزیراعظم بنیں۔ ایوب خان کے سات بچے تھے ،لیکن وہ لوگوں کو ہمیشہ کہتے تھے آپ اپنا خاندان چھوٹا رکھیں۔ لوگ مسکراتے تھے تو وہ ہنس کر کہتے تھے، میں جو کہہ رہا ہوں، وہ کرو۔ میں نے جو کیا آپ اس کی تقلید نہ کرو۔

گوہرایوب نے اپنی کتاب میں چین کے بانی ماؤزے تنگ، اور وزیراعظم چو این لائی سے اپنی ملاقاتوں کا احوال بھی لکھا۔ یہ چین گئے ،تو یورپی میڈیا اس وقت چین کی قیادت پر سخت نکتہ چینی کر رہا تھا۔گوہر ایوب نے ماؤ کی توجہ اس نکتہ چینی پر مبذول کرائی، ماؤ نے مسکرا کر چو این لائی کی طرف دیکھا اور جواب دیا۔ چو این لائی غیر ملکی میڈیا کی نکتہ چینی پر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں ،کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے ہمارے اقدامات سے بیرونی طاقتوں کو تکلیف ہو رہی ہے۔ماؤ کا کہنا تھا، غیر ملکی میڈیا ہماری تعریف شروع کر دے تو ہم پریشان ہو جاتے ہیں۔اور میں چو این لائی سے پوچھتا ہوں ،ہم نے کون سی ایسی غلطی کر دی جس کی وجہ سے دنیا چین سے خوش ہو رہی ہے؟

گوہر ایوب نے، ایوب خان کے اقتدار کے خاتمے کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھا۔ انھوں نے لکھا، ستمبر 1968ء کو کراچی کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس اے این ترین نے مجھے بتایا، ملک میں فوجی مداخلت کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔میں نے ترین کی والد صاحب سے ملاقات کرا دی۔ ملاقات کے بعد والد نے مجھ سے پوچھا، کیا ترین کے خدشات درست ہیں؟ میں نے جواب دیا، ہاں اور ہمیں صورت حال کا بغور مشاہدہ کرنا چاہیے۔ایوب خان نے ہنس کر کہا، تم جنرل ہیڈ کوارٹر میں کام کر چکے ہو۔تمہیں معلوم ہونا چاہیے پاک فوج کا کمانڈر ان چیف جب اقتدار سنبھالنے کا فیصلہ کر لیتا ہے، تو پھر اسے صرف اللہ تعالیٰ ہی روک سکتا ہے۔

ملک میں جب ایوب خان کے خلاف تحریک چلی، تو چند لوگ صدر کے پاس آئے اور مشورہ دیا۔آپ ملک میں ریفرنڈم کرا دیں، ایوب خان نے جواب دیا، باہر سڑکوں پر جو کچھ ہو رہا ہے،کیا یہ ریفرنڈم نہیں؟ایوب خان کو مشورہ دیا گیا، ملک میں اگر پانچ ہزار لوگ مار دیئے جائیں، تو حالات قابو میں آ جائیں گے۔ایوب خان نے جواب دیا، میں پچاس مرغیاں نہیں مار سکتا آپ لوگ مجھے پانچ ہزار بے گناہ لوگوں کو قتل کر نے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ گوہر ایوب نے والد کے انتقال کا واقعہ بھی تحریر کیا۔ ایوب خان کا اردلی 20 اپریل 1974ء کو دن ایک بجے ان کے کمرے میں گیا تو اس نے دیکھا، ایوب خان دو چھوٹے اور ایک لمبا گول تکیہ سر کے نیچے رکھ کر سوئے ہوئے ہیں۔

جنرل کے دونوں ہاتھ پہلوؤں میں ہیں اور سرہانے ریڈیو بج رہا ہے۔ اردلی نے جگانے کی کوشش کی ،تو پتہ چلا ایوب خان نیند کے دوران ہی انتقال کر گئے ہیں۔ گوہر ایوب نے انکشاف کیا، ایوب خان کے انتقال کے وقت ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی۔ بھٹوجنازے میں شریک نہیں ہوئے۔ایوب خان کے انتقال کی شام پاکستان ٹیلی ویژن،اور ریڈیو پاکستان پر بس اتنی خبر نشر ہوئی، ملک کے ایک سابق صدر وفات پا گئے۔پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان نے ایوب خان کا نام تک لینا گوارہ نہیں کیا تھا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Hamari Qaumi Nafsiat Ka Jawab

By Muhammad Irfan Nadeem