استعفیٰ لیں یاپھر استعفیٰ دینے کے لیے تیار ہو جائیں
حکومت کو اپنی نالائقی بہرحال ماننا ہو گی، آپ پوری دنیا پر نظر دوڑائیں، آپ جاپان سے لے کر روس تک، چین سے لے کر روانڈا تک، آسٹریلیا سے لے کر چلی تک اور وینزویلا سے لے کر سعودی عرب تک پوری دنیا پر نظر دوڑائیں، آپ کو دنیا کے کسی ملک میں پٹرول کیلئے قطاریں نظر نہیں آئیں گی۔آپ افریقہ کے جنگ زدہ ممالک میں بھی چلے جائیں، آپ کو وہاں بھی پٹرول پمپ کھلے ملیں گے، لیکن آپ کو پاکستان جیسی نیو کلیئر اسٹیٹ میں پٹرول پمپوں کے سامنے لمبی قطاریں نظر آ ئیں گی۔
آپ لاہور، راولپنڈی، ملتان، فیصل آباد اور پشاور چلے جائیں، آپ کو وہاں ہزاروں لوگ پٹرول پمپوں پر بوتلیں اُٹھا کر کھڑے نظر آئیں گے۔آپ کو گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی میلوں لمبی قطاریں بھی ملیں گی اور آپ شہروں کی سڑکیں اور گلیاں بھی سنسان دیکھیں گے، یہ کیا ہے؟ کیا یہ حکومت کی نالائقی، حکمرانوں کی بے حسی اور ریاستی سسٹم کا خاتمہ نہیں؟ پٹرول کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ بحران کیوں پیدا ہوا؟ اس بحران کی پہلی وجہ حکومت کی نالائقی تھی، کیسے؟ آئیے جائزہ لیتے ہیں، ہم پاکستان میں تیل درآمد کرنے والے اداروں کو تین گروپوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
پی ایس او (پاکستان اسٹیٹ آئل)، یہ گروپ ملکی ضرورت کا 60فیصد پٹرول درآمد کرتا ہے۔ دوسرے گروپ میں شیل، اٹک پٹرولیم اور ٹوٹل جیسے بڑے ادارے شامل ہیں۔ یہ گروپ ملکی ضرورت کا 30 فیصد پٹرول درآمد کرتا ہے۔ تیسرے گروپ میں دس چھوٹے ادارے شامل ہیں، ان میں اسکر، ایڈمور، باقری، او ٹی سی ایل، پاس کول، بائیکو پاکستان، شیوران پاکستان اور ٹوٹل پارکو شامل ہیں، یہ دس کمپنیاں چھ سے سات فیصد تیل درآمد کرتی ہیں، پی ایس او عالمی مارکیٹ سے ہر مہینے تیل کے چار جہاز منگواتا ہے۔
ہر جہاز میں 65 ہزار میٹرک ٹن پٹرول ہوتا ہے، پی ایس او کُل 260 ہزار میٹرک ٹن پٹرول ہر مہینے خریدتا ہے۔ تیل کا ایک جہاز ہر ہفتے کراچی پہنچتا ہے۔ ملک میں ہزاروں کی تعداد میں پٹرول پمپس ہیں۔ تینوں گروپ پٹرول پمپس کو روزانہ 12 ہزار ٹن پٹرول فراہم کرتے ہیں۔ پی ایس او روزانہ نو ہزار ٹن پٹرول پہنچاتی ہے۔ پی ایس او پٹرول خریدنے کیلیے ایل سی کھولتا ہے۔ ملک میں کام کرنے والے بینکوں نے ایل سی کیلیے پی ایس او کو کریڈٹ لائین دے رکھی ہے۔
بینک ایل سی کھول دیتے ہیں، پی ایس او پٹرول خرید لیتا ہے، یہ پٹرول پی آئی اے اور ریلوے سمیت مختلف اداروں اور پٹرول پمپس کو فراہم کر دیا جاتا ہے۔یہ ادارے ادائیگیاں کرتے ہیں، رقم جمع ہوتی ہے اور پی ایس او یہ رقم بینکوں کو واپس کر دیتی ہے۔یہ سلسلہ دہائیوں سے چل رہا ہے لیکن پھر 1990ء کی دہائی میں ملک میں فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے لگ گئے، یہ کارخانے پی ایس او سے فرنس آئل خریدتے،بجلی بناتے۔
یہ بجلی واپڈا کو فروخت کرتے، واپڈا یہ بجلی صارفین کو دیتا، بل وصول کرتا، رقم پی ایس او کو ادا کی جاتی اور پی ایس او یہ رقم بینکوں کو لوٹا دیتا لیکن حکومت کیونکہ بجلی پر سبسڈی دے رہی تھی۔یہ مہنگی بجلی خرید کر عوام کو سستی بیچ رہی تھی۔ بجلی چوری بھی ہوتی تھی اور سرکاری ادارے بل بھی نہیں دیتے تھے چنانچہ حکومت ہر سال گردشی قرضوں میں پھنس جاتی ہے۔ یہ فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے والے اداروں کو "پے منٹ" نہیں کر سکتی تھی۔
پے منٹ کی کمی کی وجہ سے بجلی پیدا کرنے والے ادارے فرنس آئل نہیں خرید سکتے تھے۔ یوں بجلی کی پیداوار میں کمی آ جاتی تھی اور لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہو جاتا تھا (یہ آج بھی ہوتا ہے)، لوگ سڑکوں پر آ جاتے تھے اور حکومت دباؤ میں آ جاتی تھی۔حکومت کو ماضی میں چاہیے تھا یہ بجلی کے نظام کو خودمختار بنا دیتی، یہ مسئلے کا کوئی ٹھوس حل تلاش کرتی لیکن ہماری حکومتیں "ڈنگ ٹپاؤ پالیسی" کی قائل ہیں، یہ مسئلے کا مستقل حل تلاش نہیں کرتیں۔
حکومت نے اس مسئلے میں بھی ڈنگ ٹپاؤ گیئر لگا دیا، حکومت نے پی ایس او کو حکم دیا، آپ آئی پی پیز کو فرنس آئل دیتے رہیں اور بل ہمارے ساتھ ایڈجسٹ کر لیا کریں، پی ایس او حکومتی ادارہ ہے۔ یہ انکار نہ کر سکا اور پھر یوں مسئلہ مزید الجھ گیا، پی ایس او فرنس آئل آئی پی پیز کو دیتا تھا اور بل کیلیے پانی اور بجلی کی وزارت، پٹرولیم منسٹری اور وزارت خزانہ کے پیچھے خوار ہوتا رہتا تھا۔گردشی قرضے بڑھتے جاتے تھے اور پی ایس او ڈیفالٹ کے قریب پہنچتا رہتا، حکومت پی ایس او کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلیے بینکوں کا بازو مروڑ دیتی تھی، یہ سلسلہ کئی سال سے جاری ہے۔
تازہ اعداد و شمار کے مطابق واپڈا نے پی ایس او کے 99 ارب 30 کروڑ روپے، حبکو نے 58 ارب روپے، کیپکو نے 13 ارب 60 کروڑ، کے ای ایس سی ای نے 3 ارب 80 کروڑ، پی آئی اے نے 14 ارب روپے، پاکستان ریلوے نے 83 کروڑ، این ایل سی نے 78 کروڑ اور او جی ڈی سی ایل نے 10 کروڑ روپے ادا کرنے ہیں، پی ایس او کی کل ادائیگیاں 225 ارب روپے ہیں، پی ایس او ان ادائیگیوں کیلیے واپڈا، پٹرولیم اور خزانے کی وزارت کو لکھتا رہا لیکن کسی وزارت نے ان خطوط کو سنجیدہ نہ لیا، یہ ان وارننگ کو معمول کی کارروائی سمجھتے رہے یہاں تک کہ ملک میں پٹرول کا بحران پیدا ہو گیا۔
پاکستان میں آئل کمپنیاں 18 دن کا اسٹاک رکھنے کی پابند ہیں۔ یہ اسٹاک ایمرجنسی سے نبٹنے کیلیے ضروری ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اسٹاک نہ رکھے گئے، کیوں؟ اس کی وجوہات بھی بہت دلچسپ ہیں۔امریکا میں 2010ء میں شیل گیس آئی، یہ گیس ٹیکنالوجی کی مرہون منت ہے۔شیل گیس کی وجہ سے امریکا کے تیل کے ذخائر دگنے ہو گئے۔امریکا اس وقت دنیا میں تیل کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے، شیل گیس کے بعد یہ تیل میں دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ بن جائے گا۔امریکا کی یہ کاروباری کامیابی تیل برآمد کرنے والے ممالک کیلیے قابل قبول نہیں۔
روس دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ تیل پیدا کر رہا ہے، اس نے تیل پیدا کرنے والے عرب ملکوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا اور ان ملکوں نے تیل کی قیمتیں گرانا شروع کر دیں، یہ ملک تیل کی قیمت اتنی گرا دینا چاہتے ہیں کہ امریکا کیلیے تیل نکالنا اور مارکیٹ کرنا مشکل ہو جائے، مقابلے کی اس دوڑ میں تیل کی قیمت 115 ڈالر فی بیرل سے 47 ڈالر فی بیرل ہو گئی۔
ہمارے ملک میں تیل کا 40 فیصد حصہ پرائیویٹ کمپنیاں درآمد کرتی ہیں، ان کمپنیوں نے تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے تیل کی خریداری بند کر دی اور اسٹاک میں موجود تیل مارکیٹ کو فراہم کرنا شروع کر دیا۔ہمارا سرکاری نظام اس قدر فرسودہ ہو چکا ہے کہ حکومت کو خبر ہی نہیں ہوئی، ہمارے آئل اسٹاک ختم ہو چکے ہیں اور ملک میں تیل کا بحران سر اٹھا رہا ہے، دوسری طرف پی ایس او کی کریڈٹ لائین ختم ہو گئی، ایل سی ڈیفالٹ کر گئیں اور آئل کمپنیوں نے اسے پٹرول دینے سے انکار کر دیا۔
پی ایس او حکومت کو لکھتا رہا اور حکومت اسے معمول کی کاروائی سمجھتی رہی یہاں تک کہ وہ پی ایس او جو تیل کے چار جہاز خریدتا تھا وہ جنوری میں صرف ایک جہاز خرید سکا اور یوں دنیا کی ساتویں جوہری طاقت21ویں صدی میں پٹرول کے بحران کا شکار ہو گئی، ہمارے پٹرول پمپس پر لائنیں لگ گئیں۔میں آپ کو یہاں ایک اور حقیقت بھی بتاتا چلوں، ہمارے ملک میں چالیس لاکھ گاڑیاں سی این جی پر چلتی ہیں، حکومت نے نومبر 2014ء میں پنجاب میں سی این جی بند کر دی، سی این جی کی بندش کے بعد پنجاب کی تیس لاکھ گاڑیاں پٹرول پر چلی گئیں یوں پٹرول کی مانگ میں 27 فیصد اضافہ ہو گیا۔
حکومت کے کسی ادارے نے سی این جی بند کرنے سے پہلے اس حقیقت کا ادراک نہ کیا۔ حکومت نے تیل امپورٹ کرنے والے اداروں کو درآمد بڑھانے کا حکم بھی نہیں دیا۔دوسرا بڑا مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب 15 جنوری کو پٹرول کے بحران کی خبریں گردش کرنے لگیں اور لوگوں نے گاڑیوں میں زیادہ پٹرول بھروانا اور تیل اسٹاک کرنا شروع کر دیا اور یوں بحران گھمبیر ہو گیا، یہ سارا معاملہ بے حسی، نالائقی اور سسٹم کی خرابی کا غماض ہے، حکومت کو اپنی بے حسی اور نالائقی کا اعتراف کرنا چاہیے اور فوری طور پر تین وزراء سے استعفیٰ لینا چاہیے۔
خدا کی پناہ یہ کیسا ملک ہے جس میں کبھی آٹا غائب ہو جاتا ہے، کبھی پانی، کبھی بجلی، کبھی گیس اور کبھی پٹرول! عوام کسی دن سکون کا سانس نہیں لے سکتے۔ آپ حکومت کو تلاش کریں تو یہ دہلیز سے لے کر ائیر پورٹ تک آپ کو کسی جگہ نظر نہیں آتی۔وزیراعظم ملک سے جاتے ہیں تو پوری ریاست چھٹی پر چلی جاتی ہے۔ میاں نوازشریف وزیراعظم کم اور فائر بریگیڈ زیادہ نظر آتے ہیں۔ یہ کبھی یہاں آگ بجھاتے ہیں اور کبھی وہاں، کیا وزیراعظم پانچ سال تک فائر بریگیڈ ہی رہیں گے؟
میرا خیال ہے ہاں کیونکہ پوری حکومت جب رشتے داروں، عزیزوں، دوستوں اور وفاداروں پر مبنی ہو گی تو پھر احتساب کیسے ممکن ہوگا؟ ملک میں خواہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو جائے اور اس میں خواہ 18 لوگ مارے جائیں یا ملک سے بجلی، گیس اور پٹرول ختم ہو جائے یا پھر دہشت گردی ختم نہ ہو سکے آپ کسی عہدیدار کو اس کی پوزیشن سے ہٹا نہیں سکیں گے، آپ کسی کا دل نہیں توڑسکیں گے اور یہ وہ مسئلہ ہے جس کے میاں نوازشریف شکار چلے آرہے ہیں۔
مجھے اندیشہ ہے میاں صاحب نے اگر نالائقوں کی قربانی شروع نہ کی تو یہ بہت جلد خود قربان ہو جائیں گے کیونکہ عوام اب زیادہ دیر تک نالائقی اور بے حسی برداشت نہیں کر سکتے، پانی سروں سے اوپر جا چکا ہے، لوگ اب ڈوب رہے ہیں۔