ہمارا امیج
تبسم اسد پاکستان کے شہر منڈی بہاؤ الدین سے تعلق رکھتی ہیں، یہ پانچ سال کی عمر میں والدین کے ساتھ فرانس چلی گئیں، فرانس میں تعلیم مکمل کی، 2005ء میں فرانس میں مقابلے کا امتحان (Concours) دیا، یہ فرانس کا سی ایس ایس لیول کا امتحان ہے، پورے فرانس سے تین ہزار نوجوان اس امتحان میں شریک ہوئے، 120 امیدوار پاس ہوئے، تبسم نے امتحان میں پانچویں پوزیشن حاصل کی۔
یہ امتحان پاس کرنے کے بعد فرانس کی منسٹری آف ڈیفنس میں شامل ہو گئیں، یہ دس برسوں سے منسٹری آف ڈیفنس میں فرائض سرانجام دے رہی ہیں، تبسم نے منسٹری میں انٹرنیشنل ریلیشن ڈیپارٹمنٹ کا انتخاب کیا تھا مگر ان کا پاکستانی نژاد ہونا ان کے راستے کی رکاوٹ بن گیا، یہ انٹرنیشنل ریلیشن ڈیپارٹمنٹ میں نہ جا سکیں اور انھیں ایسے ڈیپارٹمنٹ میں تعینات کر دیا گیا جہاں ان کی کسی حساس فائل تک رسائی نہ ہو سکے۔
تبسم کو برا لگا لیکن انھوں نے اس کے باوجود جاب اسٹارٹ کر دی، یہ دس سال سے وزارت دفاع میں ہیں، ان دس برسوں میں کئی ایسے مواقع آئے جب ان کے کولیگز نے ان کی ذات، ان کی جائے پیدائش اور پاکستان کے امیج کو ذہن میں رکھ کر ان کی ذات پر تنقید کی لیکن پاکستانی ہونے اور ملک کی حساس ترین منسٹری کا حصہ ہونے کی وجہ سے تبسم نے کبھی اس تنقید کا جواب نہ دیا، انھوں نے کسی سے شکایت بھی نہیں کی تاہم ان کے اندر ان باتوں اور طعنوں کے چھوٹے چھوٹے زخم لگتے رہے اور یہ زخم آہستہ آہستہ ٹیومر کی شکل اختیار کرتے گئے۔
تبسم کی ملازمت کے دوران ایسے مواقع بھی آئے جب ان کے سینئرز یاکولیگز کو پتہ چلتا تبسم پاکستانی ہیں تو ان کا طنزیہ سوال ہوتا تھا "آپ کو فرانس کی منسٹری آف ڈیفنس میں کس نے بھیج دیا؟ " بتسم یہ طنز بھی سہہ جاتیں کیونکہ یہ جانتی تھیں، ساتھیوں کی نظر میں پاکستان ایک دہشت گرد ملک اور اس کے تمام باشندے انتہا پسند ہیں اور یہ تاثر جب تک قائم رہے گا، ان جیسے پاکستانیوں کو یہ طنز اور یہ فقرے برداشت کرنا پڑیں گے، منسٹری میں تبسم کا ہونا اور ان کے ساتھ پاکستان کا نام آنا ساتھی کولیگز کے لیے تشویشناک امر تھا۔ لوگ انھیں مشکوک نظروں سے دیکھتے تھے، تبسم دس سال تک اس اذیت کا شکار رہیں یہاں تک کہ انھوں نے فرنچ وزارت دفاع میں پاکستان کا امیج تبدیل کرنے اور پاکستانیوں کا اصل چہرہ پیش کرنے کا فیصلہ کیا، فرانس کی منسٹری آف ڈیفنس ہر سال سالانہ ایونٹ کرواتی ہے۔
وزارت کے تمام ملازمین ان ایونٹس کے لیے مختلف آئیڈیاز دیتے ہیں، تبسم نے اس سال وزارت میں پاکستان کا کلچر اور روایات پیش کرنے کا آئیڈیا دیا، منسٹری آف ڈیفنس نے یہ پروپوزل قبول کر لیا، یہ خبر سنتے ہی تبسم کو یوں لگا جیسے اس نے کوئی جنگ جیت لی ہو، یہ ایونٹ تبسم کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا چنانچہ انھوں نے دن رات ایک کردیے، یہ چار ہفتے آفس ٹائمنگ کے بعد ایونٹ کی تیاری کرتی رہیں، ان کی دلی تمنا تھی پاکستان کی اصل تصویر پیش ہونے میں کوئی کسر نہ رہ جائے، انھوں نے اس کے لیے ہر وہ دروازہ کھٹکھٹایا جہاں سے انھیں پاکستانی کلچر اور روایات مل سکتی تھیں، پروجیکٹ کے لیے یہ عام پاکستانی سے لے کر فرانس میں موجود پاکستانی سفیر غالب اقبال تک کے پاس گئیں، پاکستان کے سفیر غالب اقبال مثبت سوچ کے وژنری انسان ہیں۔
سفیر نے اس موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا، تبسم کو پاکستان کے پلیٹ فارم سے ہر وہ رہنمائی اور مدد دی جس سے پاکستان کی ثقافت اور نظریہ پاکستان مثبت انداز میں پیش کیا جا سکتا تھا۔ ایونٹ کا دن آیا تو منسٹری آف ڈیفنس فرانس میں ہر طرف پاکستان ہی پاکستان نظر آ رہا تھا، چاروں صوبوں کی ثقافت، فیشن شو، پاکستان کی تاریخ، نظریہ پاکستان اور پاکستان کے موجودہ حالات پر سفیر پاکستان کی تقریر ہر چیز نے فرانسیسی حکام کو حیران کر دیا۔ پاکستان ایمبیسی کے سفیر سے لے کر، ڈیفنس اتاشی تک اور پاکستانیوں سے لے کر فرانس کے جرنیلوں اور آفیسرز تک نے پاکستان کا قومی لباس شلوار قمیض پہنا، اس دن پر فرانس کے اس ادارے کے لوگوں نے پاکستان کی وہ تصویر دیکھی جو ان کی نظر سے اوجھل تھی۔
اس ایونٹ کے بعد منسٹری آف ڈیفنس کے وہ لوگ جن کو پاکستان کے نام سے خوف آتا تھا، ان کے پاکستان کے بارے میں خیالات تبدیل ہو گئے، یہ پاکستان کو بھی اہمیت دینے لگے، مجھے کسی صاحب نے بتایا، پاکستان کی اس نمائش کے بعد تبسم کے اعتماد میں اضافہ ہو گیا، یہ پورے اعتماد کے ساتھ وزارت کے کوریڈورز میں گھومتی ہیں اور ان کے کولیگز پہلے سے زیادہ ان کا احترام کرتے ہیں۔
تبسم اسد کی مثال دو حقائق ثابت کرتی ہے، پہلی حقیقت، پاکستان کا امیج پوری دنیا میں خراب ہو چکا ہے، یہ امیج کیوں خراب ہے؟ اس کی پانچ وجوہات ہیں، ہم جب تک یہ وجوہات دور نہیں کریں گے، ہمارا امیج ٹھیک نہیں ہوگا، ایک، مہذب دنیا لڑنے جھگڑنے والے لوگوں اور قوموں کو پسند نہیں کرتی جب کہ ہم پچھلے چالیس سال سے حالت جنگ میں ہیں، دنیا چالیس سال سے ہماری منفی تصویر دیکھ رہی ہے۔
افغانستان کی جنگ ہو، طالبان ہوں، امریکا طالبان جنگ یا پھر پاکستان میں دس سال سے جاری دہشت گردی کی جنگ ہو، ہم چالیس سال سے حالت جنگ میں ہیں اور دنیا کو جنگ کے سوا ہماری کوئی تصویر منتقل نہیں ہوئی، یہ درست ہے، یہ جنگ ہم نے نہیں چھیڑی، یہ جنگ ہم پر مسلط کی گئی اور ہم عالمی طاقتوں کی طرف سے مسلط کردہ اس جنگ کے متاثرین ہیں لیکن کیا دنیا کے پاس اس سوال کا جواب تلاش کرنے کا وقت ہے،؟ نہیں ہے! دنیا کو صرف ہمارے خطے میں پھٹنے والے بم نظر آتے ہیں۔
ہم بے گناہ ہیں، یہ ہم جانتے ہیں اور ہمارے جنگی اتحادی جانتے ہیں، دنیا میں 245 ممالک ہیں اور ہماری بے گناہی کے بارے میں صرف چند ملکوں کو معلوم ہے، دنیا کے باقی 240 ملک ہماری بے گناہی سے واقف نہیں ہیں، ان ملکوں کو صرف ہماری جنگ اور دہشت گردی نظر آتی ہے اور ہم نے آج تک دہشت گردی اور جنگ کا یہ تاثر زائل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، ہمارے مقابلے میں بھارت میں علیحدگی کی 28 مسلح تحریکیں چل رہی ہیں، وہاں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں 60 سال سے جنگ ہو رہی ہے لیکن دنیا کو بھارت کی طرف سے ہمیشہ امن، آرٹ، موسیقی اور فلم کے پیغامات جاتے ہیں۔
دنیا اسے پرامن اور ہمیں بد امن ملک سمجھتی ہے، ہم نے اس حقیقت کو ماننا بھی ہے اور اس حقیقت کے رنگ بھی بدلنے ہیں، دو، دنیا مذہبی انتہا پسندی کو بھی پسند نہیں کرتی، یورپ میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے درمیان عوامی بحث ہوئے تین سو سال ہو چکے ہیں، لوگ وہاں کسی شخص کو دوسرے شخص کا مذہب یا فرقہ پوچھنے کی اجازت نہیں دیتے اور وہاں تبلیغ بھی حکومت کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں ہوتی جب کہ ہم بری طرح مذہبی شدت پسندی کا شکار ہیں، پاکستان میں ربیع الاول اور محرم کے مہینوں میں ہائی الرٹ ہو جاتا ہے۔
یہ ہائی الرٹ اور مذہبی شدت پسندی بھی ہمارے امیج کو خراب کر رہی ہے، تین، دنیا جہالت، بیماری اور گندگی کو بھی پسند نہیں کرتی، بچے اسکول نہ جائیں، ملک میں ٹی بی، پولیو، خسرہ اور ڈینگی بھی ہو اور لوگ ویکسین پلانے والے ورکرز کو گولی بھی مار دیتے ہیں اور آپ جس طرف دیکھیں، آپ کو وہاں گندگی کے ڈھیر نظر آئیں، آپ خود سوچیں دنیا اس ملک کے بارے میں کیا سوچے گی؟ اور دنیا ہمارے بارے میں وہ سوچ رہی ہے جو اسے ان حالات میں سوچنا چاہیے! چار، دنیا آمریت اور آمریت پسندی کو بھی پسند نہیں کرتی، جدید دنیا آمریت سے ہزاروں کلومیٹر آگے نکل چکی ہے جب کہ ہمارے ملک میں آج بھی جمہوریت کی لو تھرتھرا رہی ہے، دنیا جب یہ تھرتھراتی لو دیکھتی ہے تو بھی اس کے ذہن میں ہمارا امیج نیگٹو ہو جاتا ہے اور پانچ، آپ دنیا کے 245 ممالک میں چلے جائیں۔
آپ کو دنیا کے کسی ملک میں بھکاریوں کی عزت ہوتی نظر نہیں آئے گی جب کہ ہماری پوری اکانومی بھیک، امداد اور قرضے پر چل رہی ہے، ہماری معیشت آج تک اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہو سکی چنانچہ دنیا ہمارے بارے میں کیسے پازیٹو سوچے؟ ہم جب تک یہ تاثر زائل نہیں کریں گے، ہم جب تک یہ ایشوز ذہن میں رکھ کر کام نہیں کریں گے، پاکستان کے جھنڈے اور پاسپورٹ کی عزت اس وقت تک بحال نہیں ہو گی اور دوسری حقیقت تبسم اسد جیسی ایک خاتون نے فرانس میں پاکستان کا امیج بہتر بنانا شروع کر دیا، یہ بڑی حدتک کامیاب بھی ہو گئی، دنیا کے سیکڑوں ملکوں میں تبسم جیسے ہزاروں لاکھوں پاکستانی موجود ہیں۔
یہ بھی اگر تبسم کی اسپرٹ سے کام کریں، یہ بھی اگر خود کو پاکستان کا سفیر سمجھ کر محنت کریں تو پاکستان کا امیج ٹھیک ہو سکتا ہے چنانچہ میری بیرون ملک پاکستانیوں سے درخواست ہے آپ وہاں "گو نواز گو" یا "گو بلاول گو" کے نعرے لگانے اور بلاول بھٹو زرداری پر بوتلیں پھینکنے کے بجائے ملک کا امیج بہتر بنانے کی کوشش کریں، آپ تبسم اسد کی طرح پاکستان کا پرسپشن تبدیل کریں، دنیا ہماری عزت شروع کر دے گی، ہم واپس اس جگہ آجائیں گے جہاں قومیں قوموں کو عزت دیتی ہیں۔