درمیانی راستہ
لکھنو کے نواب کبوتر باز بھی ہوتے تھے، وہ طوائفوں کے کوٹھوں کے مستقل مہمان بھی ہوتے تھے، وہ عشق میں زمین جائیداد، روپیہ پیسہ اور آبائو اجداد کی عزت لٹانے کے ماہر بھی تھے اور بلا کے ضدی اور ہٹ دھرم بھی ہوتے تھے، لکھنو کے نواب ضد میں بعض اوقات اپنا سب کچھ لٹا دیتے تھے۔
جوش ملیح آبادی بھی ان نوابوں میں شامل تھے، یہ ملیح آباد کے پٹھان تھے، خاندانی نواب تھے اور انھوں نے شاعرہونے کے باوجود نوابی میں زندگی گزاری تھی۔ جوش صاحب کی آٹو بائیو گرافی " یادوں کی بارات" ہندوستان کی دس عظیم کتابوں میں شمار ہوتی ہے، یہ کتاب محض ایک کتاب نہیں بلکہ پورا جہاں ہے اور آپ اگر ایک بار یہ کتاب پڑھ لیں تو آپ اسے دوبارہ پڑھے بغیر نہیں رہ سکتے۔
دنیا میں تین قسم کی کتابیں ہوتی ہیں، بہترین، اچھی اور بری۔ بہترین کتاب وہ ہوتی ہے آپ جسے بار بار پڑھتے ہیں، اچھی کتاب وہ ہوتی ہے جسے آپ پورا پڑھ جاتے ہیں اور بری کتاب وہ ہوتی ہے جسے قاری پورا نہیں پڑھ سکتا۔
جوش ملیح آبادی کی بائیو گرافی بار بار پڑھنے والی کتاب ہے، جوش ملیح آبادی نے اپنی کتاب میں لکھنو کے بے شمار نوابوں کا ذکر کیا، ان میں ایک ایسے نواب بھی تھے جو اپنی ہٹ کے بہت پکے تھے، وہ اگر ایک بار کوئی بات ٹھان لیتے تھے تو یہ موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹتے تھے، وہ مرنے اور مارنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے لیکن اپنی بات کا شملہ نیچے نہیں ہونے دیتے تھے۔
جوش ملیح آبادی نے لکھا نواب صاحب کا جائیداد کے معاملے پر اپنے بھائی سے جھگڑا ہو گیا، بھائی نے اپنا حصہ مانگا، نواب صاحب نے انکار کر دیا، بھائی عدالت چلا گیا، جج نے جائیداد کے بٹوارے کا حکم دے دیا، نواب صاحب نے حکم ماننے سے انکار کر دیا، جج نے توہین عدالت لگا دی، نواب صاحب جیل چلے گئے، قید کاٹ کر واپس آئے تو باہر آتے ہی جائیداد پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
جج نے دوبارہ طلب کر لیا، جج نے نواب صاحب سے پوچھا، آپ نے بھائی کی جائیداد دوبارہ چھین لی، نواب صاحب نے اکڑ کر جواب دیا، ہاں چھین لی، جج نے کہا، آپ جانتے ہیں آپ نے دوسری بار عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کی، نواب صاحب نے اسی لہجے میں جواب دیا " ہاں کی" جج نے کہا، آپ کو معلوم ہے آپ کو اس پر دوبارہ سزا ہو سکتی ہے، نواب صاحب نے جواب دیا ہاں تو آپ سزا دے دیجیے لیکن یہ یاد رکھیے میں جیل سے جب بھی باہر آئوں گا، میں اس جائیداد پر قبضہ کر لوں گا، جج اس جواب پرغصے میں آ گیا اور اس نے نواب صاحب کو ایک بار پھر سزا سنا دی۔
جج کا حکم ختم ہوا تو نواب نے اپنے ذاتی ملازم کو جج کے سامنے کیا اور دبنگ آواز میں بولے " آپ اسے بھی میرے ساتھ جیل بھجوا دیں، میں جیل میں اکیلا بور ہو جاتا ہوں " جج نے مسکرا کر جواب دیا "ہم کسی کو بلا جرم جیل نہیں بھجوا سکتے" یہ سن کر نواب صاحب کی آنکھوں میں شرارت آ گئی، انھوں نے ذاتی ملازم کو مخاطب کر کے حکم دیا " چل بے کلوے، نیچے کر پائجامہ اور کردے حجور کی عدالت میں پساب" کلوے نے حکم سنتے ہی فوراً پائجامہ نیچے کیا اور بھری عدالت میں شڑاپ شڑاپ پیشاب کر دیا، عدالت میں شور ہو گیا، جج کا رنگ فق ہو گیا اور ہرکارے کلوے کی طرف دوڑ پڑے، نواب صاحب نے جج کی طرف دیکھا اور قہقہہ لگا کر بولے " لیجیے حجور ہو گیا جرم، آپ اب کلوے کو بھی میرے ساتھ اندر کر سکتے ہیں "۔
کلوا نواب صاحب کا جانثار تھا، نواب خواہ دہلی کے ہوں، لکھنو، حیدرآباد کے یا پھر سندھ کے، ان کے پاس ایسے درجنوں جانثار ہوتے ہیں، نواب ان لوگوں کو ہر مشکل وقت میں خطرے کے سامنے دھکیل دیتے ہیں اور یہ جانثار سامنے سانڈ ہو یا تیر اپنا سینہ کھول کر خطرے کے دوبدو ہو جاتے ہیں۔ ہمارے پیر، وڈیرے اور سیاستدان بھی کلوے جیسے جانثاروں کے معاملے میں خودکفیل ہیں، یہ بھی حسب ضرورت اپنے جانثاروں کو حکم دیتے رہتے ہیں اور یہ دہکتی ہوئی آگ میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔
آپ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر میاں نواز شریف تک ملک کے تمام لیڈروں کے اردگرد ایسے درجنوں جانثار نظر آئیں گے، یہ جانثارخدمت کے دوران اکثر عزت، دولت، عہدے اور جان سے گزر جاتے ہیں اور ان کی قربانیوں کے بعد لیڈر صاحبان ان کے نام تک بھول جاتے ہیں، میں نے زندگی میں سیکڑوں ایسے جانثار دیکھے ہیں جنہوں نے لیڈر کی خوشنودی کے لیے اپنے گھر بار تک قربان کر دیے لیکن رہنمائوں نے قربانی کے بعد انھیں یا ان کے لواحقین کو ملاقات تک کا شرف نہ بخشا، رہنمائوں کا یہ رویہ بھی درست ہوتا ہے کیونکہ ان کے پاس کلوئوں کی پوری فوج ہوتی ہے۔
یہ جس کلوے کو آنکھ کا اشارہ کرتے ہیں وہ سینہ کھول کر باہر نکل جاتا ہے اور اسے اگر اپنے رہنما کو خوش کرنے کے لیے دوسرے رہنمائوں کو ماں بہن کی گالی دینا پڑے، کسی صحافی کی کردار کشی کرنا پڑے، کسی لائیو شو میں مخالف کو مکا دکھانا پڑے، کسی جج کے ساتھ بدتمیزی کرنا پڑے، فوج، عدلیہ یا میڈیا کو للکارنا پڑے یا پھر ملک توڑنے کی دھمکی دینا پڑے وہ ایک منٹ نہیں لگاتا۔
میرے ایک سیاستدان دوست کہا کرتے ہیں، ہم سینیٹر، ایم این اے، ایم پی اے اور سیاسی ورکر اپنے اپنے لیڈروں کے مزارعے ہوتے ہیں، یہ ہمیں جس کوے کو سفید کرنے کا حکم دیتے ہیں، ہم روغن کا ڈبہ اور برش لے کر چل پڑتے ہیں اور اس دوران اگر ہمارے لیڈر کی سوچ بدل جائے تو ہم کوے کو آدھا سفید، آدھا سیاہ چھوڑ کر واپس آ جاتے ہیں اور بعض اوقات ہمیں اپنا ہی کیا ہوا رنگ اپنی زبان سے صاف کرنا پڑ جاتا ہے لیکن ہم بغیر سوچے سمجھے یہ بھی کر جاتے ہیں۔
میرے دوست کی رائے درست ہے، ہمارے لیڈروں کی جیب میں بے شمار کلوے ہوتے ہیں اور یہ انھیں جب بھی، جہاں بھی جاں نثاری کا حکم دیتے ہیں، یہ اسی وقت شڑاپ شڑاپ …… کر دیتے ہیں اور اس حرکت کے نتیجے میں عزت، مال، آزادی، ایمان اور بعض اوقات جان سے بھی گزر جاتے ہیں لیکن انھیں ذرا برابر ملال نہیں ہوتا۔
آپ اب اس پس منظر میں این آر او کیس کو رکھ کر دیکھیے، یہ کیس صحیح تھے یا غلط، اس کے محرک صدر فاروق لغاری تھے یا سیف الرحمن خان، آپ چند لمحوں کے لیے اس بحث سے باہر آ جائیے، آپ بس یہ دیکھیے، یہ مقدمے بنے، سوئس حکومت نے 60 ملین ڈالرز منجمد کیے، صدر پرویز مشرف کے دور میں سوئس عدالتوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو طلب کیا۔
یہ دونوں وکیلوں کے ذریعے عدالتوں میں پیش ہوئے، عدالتیں فیصلے تک پہنچیں لیکن فیصلہ آنے سے پہلے 5 اکتوبر 2007ء کو پرویز مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان این آر او ہو گیا، وفاق نے ان مقدموں کی پیروی بند کر دی، 2008ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی، پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سندھ ہائی کورٹ گئے۔
سندھ ہائی کورٹ نے اٹارنی جنرل کو سوئس مقدمات رکوانے کا حکم دیا اور 20 مئی 2008ء کو اٹارنی جنرل ملک قیوم نے سوئس اٹارنی جنرل کو خط لکھا اور یوں یہ مقدمات بند ہو گئے، سوئس اکائونٹس سے 60 ملین ڈالرز نکالے گئے، اس دوران این آر او سپریم کورٹ میں چیلنج ہو گیا اور سپریم کورٹ نے طویل سماعتوں کے بعد 16 دسمبر 2009ء کو این آر او کالعدم قرار دے دیا اور وفاقی حکومت کو حکم دیا یہ سوئس حکام کے نام ملک قیوم کا خط واپس لے لے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے عدالت کا یہ فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور سپریم کورٹ کے سامنے جانثاروں کا لشکر کھڑا کر دیا۔
یہ لوگ عدالت کے اندر اور باہر اپنی آن، بان، شان عزت اور جان کے ڈھیر لگاتے چلے گئے، جانثاروں کے اس کھیل میں یوسف رضا گیلانی جیسے جانثار نے اپنا عہدہ، عزت سادات اور سیاست تک قربان کر دی اور یہ آج حیرت سے لوگوں کی بدلتی ہوئی آنکھیں اور اپنے بیٹے کو عدالت کے سامنے ہتھکڑی لگتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، جانثاروں کے اس کھیل میں بابر اعوان خود کو بچا گئے ورنہ یہ آج اپنے لائسنس سے بھی ہاتھ دھو چکے ہوتے اور ان کے پاس گیلانی صاحب کی بانھوں میں باہیں ڈال کر پھرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔
یوسف رضا گیلانی کے بعد راجہ پرویز اشرف کی باری تھی مگر راجہ صاحب چالاک نکلے اور انھوں نے جانثاری کا ڈھول وزیر قانون فاروق ایچ نائیک کے گلے میں ڈال دیا جس پر عدالت نے وزیراعظم کو پچھلی گلی سے نکلنے کا موقع دیا اور اب قانون کے وفاقی وزیر فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑے ہیں۔ فاروق ایچ نائیک جانتے ہیں حکومت جوں ہی ملک قیوم کا خط واپس لے گی صدر کے خلاف مقدمات کھل جائیں گے۔ نائیک صاحب یہ بھی جانتے ہیں حکومت کو اب صدر صاحب کی قربانی دینا پڑے گی یا پھر وزیر قانون کی۔
تاہم یہ سوال ابھی جواب طلب ہے کہ فاروق ایچ نائیک کو چھوٹے سائیں نے عدالت کے سامنے کھڑا کیا یا پھر بڑے سائیں نے یا پھر یہ قربانی کے لیے خود باہر نکل آئے، فیصلہ بہرحال صدر نے کیا یا پھر وزیراعظم نے مگر یہ طے ہے سپریم کورٹ، وزیراعظم اور اٹارنی جنرل ڈیڑھ ماہ سے جس درمیانی راستے کا ذکر کر رہے تھے کل سے وہ درمیانی راستہ فاروق ایچ نائیک ثابت ہو رہے ہیں اور اگر فاروق ایچ نائیک نے اس راستے میں سے کوئی اور راستہ نکالنے کی کوشش کی تو یہ بھی فارغ ہو جائیں گے اور باقی بھی اور پھر راستہ رہے گا اور نہ ہی درمیان۔