سٹاک مارکیٹ اور ہم عوام
میں اس تحریر سے پہلے واضح کردوں کہ میری سٹاک مارکیٹ میں ایک روپے کی بھی سرمایہ کاری نہیں ہے لہذا سٹاک مارکیٹ کی ترقی کے حوالے سے مجھ میں اور کسی ریڑھی، رکشے والے میں کوئی فرق نہیں کہ اگر اس کے سرمایہ کاروں کا سرمایہ عمران خان کے دور کی طرح آدھا رہ جاتا ہے یا شہباز شریف کے دور میں ڈیڑھ سو فیصد تک منافع مل جاتا ہے تو ہم سب ایک ہی طرح کا منہ بنا کے کہہ سکتے ہیں کہ ساہنوں کی؟ مگر بہت سارے معاملات میں بات صرف ہمارے ذاتی، خاندانی یا گروہی نہیں بلکہ پورے قوم کے فائدے اور نقصان کی ہوتی ہے۔
میں بہت دنوں سے بہت سارے جاہلوں کی یہ پوسٹس دیکھ رہا ہوں کہ سٹاک مارکیٹ اگر ایک لاکھ پوائنٹس کو عبور بھی کر گئی تو اس سے عوام کو کیا فائدہ ہوا۔ کیا اس سے بجلی اور گھی سستے ہوئے۔ یہ سوال اس معاملے کی سمجھ اور فہم نہ رکھنے والوں کو گمراہ کرتا ہے اور اس کے ذریعے حکومتی کارکردگی کی نفی کی جاتی ہے۔ یہ سوال وہ لوگ کرتے ہیں جن کے دور میں سٹاک مارکیٹ نواز شریف کے دور کے چھپن ہزار سے اٹھائیس ہزار پوائنٹس تک نیچے گئی۔ سرمایہ کاروں کے اربوں نہیں کھربوں ڈوب گئے۔ تو کیا ہمیں اس ماڈل کو آئیڈیلائز کرنا چاہئے؟ ہرگز نہیں، یہ کوئی احمق ہی کر سکتا ہے۔
اب اس سوال پر آجائیں کہ سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری تو امیر ہی کرتے ہیں، اس کا غریبوں سے کیا تعلق۔ جواب یہ ہے کہ سٹاک مارکیٹ میں بڑی بڑی کمپنیاں رجسٹرڈ ہوتی ہیں جن کی بہت ساری فیکٹریاں ہوتی ہیں اور ان فیکٹریوں میں لاکھوں ملازمین۔ ہم اس کو ریورس امیجی نیشن، کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب ایک سرمایہ کار کو نقصان ہوتا ہے تو وہ اپنے کاروبار کو محدود کرتا ہے اور کاروبار محدود ہونے کا سیدھا سادا مطلب ہے کہ فیکٹریاں بند، کارکن فارغ۔
دوسری طرف جب اسے منافع ملتا ہے تواس منافعے کو وہ نہ صرف مزید کاروبار میں ڈالتا ہے بلکہ وہ پہلے سے موجود ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کرتا، انہیں بونس دیتا ہے۔ آپ یہ مثالیں باآسانی کارپوریٹ کلچر میں دیکھ سکتے ہیں۔ غور کیجئے، جب وہ کاروبار کو وسیع کرتا ہے تو اسے تجربہ کار لیبر درکار ہوتی ہے۔
ملازمتوں کے اشتہار آنے لگتے ہیں اور فیکٹریوں کے باہر بینرز لگ جاتے ہیں۔ جو ورکر بیس ہزار روپے پر کام کر رہے ہوتے ہیں وہ آسانی کے ساتھ پچیس، تیس ہزار پر دوسری فیکٹری میں چلے جاتے ہیں، پچاس ہزار والوں کو اسی ہزار مل جاتا ہے اور ایک لاکھ والوں کو ڈیڑھ لاکھ۔ یہ ریورس امیجی نیشن والی صورتحال سے بالکل الٹ ہے جہاں بے روزگاری ہے، تنخواہوں میں کٹوتی ہے، مراعات کا خاتمہ ہے۔
جب ہم ایک کارخانے کی بات کرتے ہیں تو اس کی بڑھوتری کا فائدہ صرف ان سو یا دو سو، ہزار یا دو ہزار لوگوں کو نہیں ہوتا جو وہاں کام کر رہے ہوتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ان لوگوں کو بھی ہوتا ہے جو وہاں خام مال سمیت بہت کچھ سپلائی کر رہے ہوتے ہیں اور ان کو بھی جن کی گدھا گاڑیوں سے ٹرکوں تک پر یہ سپلائی ہو رہی ہوتی ہے۔ دوسری طرف ایک کارخانہ بند ہونے نقصان ان کو بھی ہوتا ہے جو اس کے باہر نان چنے بیچتے ہیں یا پان سگریٹ، ان کے کاروبار بھی بند ہوجاتے ہیں۔
ہمیں اس منظرنامے کو قرآن پاک ان آیات کی روشنی میں بھی دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے جہاں رب العزت پھلوں اور فصلوں میں اضافے کو اپنی رحمت اور برکت قرار دیتے ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر اچھی گندم ہوئی یا اچھے چاول تو مالی فائدہ تو اس زمیندار کا ہوا جس کی یہ فصل ہے مگر ایسا نہیں ہے، فصلوں، پھلوں اور کاروباروں میں اضافہ پوری قوم کے لئے رحمت اور برکت لاتا ہے۔ جب ایک شخص کے پاس زیادہ پیسے آتے ہیں تو اس کے نتیجے میں وہ زیادہ خرچ بھی کرتا ہے۔ روپے کی نقل و حرکت اور مارکیٹ میں گردش بے پناہ لوگوں کو روزگار اور خوشحالی دیتی ہے۔ گھی اور بجلی مہنگی ہونے والوں کی طرف ہی آ جائیں۔ مہنگائی کا تعلق کسی طور پر کسی شے کی قیمت نہیں بلکہ آپ کی جیب میں موجودرقم سے ہوتا ہے۔
مثال اس کی یوں ہے کہ اگر آپ نے ایک روز میں دس ہزار روپے کمائے تو آپ کے لئے پانچ، سات سو کا برگر ہرگز مہنگا نہیں ہے، یہ آپ کی انکم کا محض پانچ، سات فیصد ہے لیکن اگر آپ نے کمائے ہی پانچ، سات سو روپے تو یہ آپ کی کمائی کا سو فیصد ہوگیا جو ایک برگر پر خرچ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح اگر آپ کے پاس اگر ایک کروڑ روپے موجود ہیں تو چالیس، پچاس لاکھ کی سٹی یا یارس آپ کے لئے مہنگی نہیں ہے لیکن اگر آپ کے پاس دس لاکھ بھی پورے نہیں ہیں تو آپ کے لئے اس سے آدھی قیمت کی آلٹو بھی مہنگی ہے۔ مہنگائی کو گالیاں دیتے ہوئے، چیزیں سستی ہونے کے انتظار سے زیادہ آسان اور قابل عمل اپنی آمدن کو بڑھانا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ سٹاک مارکیٹ میں اضافہ اور منافع کیوں آ رہا ہے تو جواب ہے کہ حکومت کی مثبت پالیسیوں کی وجہ سے، حکومت نے مینجمنٹ بہتر اور کرپشن کم کی جس سے مالیاتی خسارہ اور افراط زر کم ہوئے۔ معاشی استحکام کے ساتھ ہی شرح سود بھی کم کر دی جس کے نتیجے میں لوگوں کو جو فائدہ بینکوں میں اپنی رقوم رکھنے سے مل رہا تھا وہ کم ہوگیا یعنی وہ منجمد سرمایہ تھا یا وہ ڈائریکٹ کی بجائے ان ڈائریکٹ انویسٹ منٹ تھی۔
نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے بینکوں سے رقوم نکالنی اور متبادل کاروبار میں لگانی شروع کردیں جس سے براہ راست جی ڈی پی بڑھنے لگی، لوگوں کو ملازمتیں اور روزگار ملنے لگا۔ جیسے ہی شرح سود مزید کم ہوگی اس کے ساتھ ہی لوگ واپس پہلے ہاوسنگ سیکٹر میں واپس آئیں گے مگر ہاوسنگ سیکٹر حکومت کی پہلی ترجیح نہیں ہے کہ وہاں پہلے ہی اوور انویسٹمنٹ ہوچکی سو سرمایہ کاروں کی مجبوری ہوگی کہ وہ دوسرے مواقع تلاش کریں اور جیسے ہی وہ دوسرے مواقعوں کی طرف جائیں گے ملازمتوں اور روزگار کا بازار گرم ہوجائے گا۔
جب فیکٹریاں چلیں گی اور وہاں سے مصنوعات بن کر نکلیں گی تو اس کے بھی دو اثرات ہوں گے، پہلا یہ کہ ٹیکسوں کی وصولی بڑھ جائے گی اور دوسرے اضافی پیداوار کو ایکسپورٹ کیا جا سکے گا جس سے زرمبادلہ ملے گا۔ اس کی مثال ٹیکسٹائل سیکٹر کی ہے جس نے ریکارڈ ایکسپورٹس کیں۔
سٹاک مارکیٹ کو ملکی معیشت کی بہتری یا ابتری کا تھرمامیٹر اور بیرومیٹر کہا جاتا ہے۔ سرمایہ کار بہت بزدل ہوتا ہے اور سرمایہ کسی پرندے کی طرح آزاد۔ وہ خطرہ دیکھتے ہیں اڑ جاتا ہے یا نامساعد حالات میں مر جاتا ہے جیسے ابھی پی ٹی آئی کے فسادی دھرنے سے مسلسل اوپر جاتی سٹاک مارکیٹ ایک ہی دن میں ساڑھے تین ہزار پوائنٹس نیچے آ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ہم نے ترقی کرنی ہے، ملک کو آگے لے جانا ہے، غریب کو روزگار دینا ہے تو ہمیں پی ٹی آئی جیسے فتنوں کی سرکوبی کرنی ہوگی، فیک نیوز کا خاتمہ کرنا ہوگا، لوگوں میں امید کی شمع روشن کرنا ہوگی۔