Premature Bachay Muhabbat, Tadbeer Aur Umeed Ka Safar
پری میچور بچے محبت، تدبیر اور امید کا سفر
بابا بلھے شاہ فرماتے ہیں
بیج دل وچ لایا ہووے، عشق دی مٹی نال
ساون رُت دے چھنڈے پانی نال بہاراں پال
انسانی دل میں جو بیج محبت اور ایمان کا بویا جاتا ہے، وہ تبھی پھلتا پھولتا ہے جب اسے موزوں حالات اور مسلسل پرورش ملے۔
اسی طرح وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچے، جو دنیا میں اپنی مقررہ مدت سے پہلے آ جاتے ہیں، زندگی کے آغاز میں نازک اور غیر مستحکم ہوتے ہیں۔ انہیں موزوں ماحول، نگہداشت اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک اور جگہ بابا بلھے شاہ نے فرمایا۔
بیج دے نال، زمین بھی ضروری
محبت نہ ہووے، تاں خشکی بھری
اپنی دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ بابا بلھے شاہ کے اس پیغام کو سیکرٹری ہیلتھ سندھ ریحان بلوچ خوبصورتی سے بیان کر رہے تھے انہوں نے کہا محبت اور دیکھ بھال سے ہم صحت کے پیچیدہ مسائل کو آسانی سے حل کر سکتے ہیں۔ محبت ہی وہ بنیادی طریقہ ہے جو ماؤں اور پری میچور بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ لا سکتا ہے۔
یہ گفتگو "ورلڈ پری میچورٹی ڈے"کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس میں ہو رہی تھی۔ گورنمنٹ آف سندھ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور یونیسیف کے اشتراک سے یہ ایونٹ کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں 30 نومبر کو منعقد ہوا پاکستان کے تجربہ کار ڈاکٹرز گورنمنٹ آفیشلز یونیسیف کے سینیئر لوگ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں لوگ اس ایونٹ میں شامل تھے۔
پری میچور بچے وہ بچے ہیں جو اپنی طبعی مدت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں یعنی 37 ہفتے کی حمل کی مدت سے قبل۔ مختلف ڈاکٹرز نے سٹیج پر اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ پوری دنیا میں ہر سال 13 ملین سے زیادہ بچے قبل از وقت پیدا ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک ملین موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ان میں %90 بچے ایسے ہوتے ہیں جو غریب والدین کے گھر پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان کی بات کریں تو پیدا ہونے والے بچوں میں ہر دسواں بچہ قبل از وقت پیدا ہوتا ہے اور ان بچوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ پری میچور بچوں کی پیدائش کی بڑی وجوہات میں ماں کی صحت کی خرابی، غذائی کمی، انفیکشنز اور غیر محفوظ حمل کی حالتیں ہیں۔ طبعی سہولتوں کے فقدان اور دیگر مسائل کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال ہزاروں پری میچور بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
اے حرف تسلی تیرے مشکور ہیں لیکن
یہ خیر ہے کہنے سے ذرا آگے کا دکھ ہے
اس ایونٹ میں پری میچورٹی کے اسباب، اب تک کیے گئے اقدامات اور مزید کیا کچھ کیا جا سکتا ہےاس کانسپٹ پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔
جن شرکا نے اظہار خیال کیا ان میں، سیکرٹری ہیلتھ ریحان بلوچ، ڈاکٹر سید یوسف افتخار، ڈاکٹر شعیب سوبانی، پریم بہادر چند، ڈاکٹر شبینہ عارف احمد، ڈاکٹر جمال رضا ڈاکٹر آمنہ، ڈاکٹر نگہت شاہ، ڈاکٹر سید ریحان علی اور ڈاکٹر ادریس شامل تھے۔
میں بھی اس ایونٹ میں موجود تھا ڈاکٹرز اور دیگر شرکا کی گفتگو ان کی باڈی لینگویج اور انرجی سے ایک میسج واضح طور پر مل رہا تھا کہ پاکستان میں بہت سے اچھے کام بھی ہو رہے ہیں کینگرو مدر کیئر کے بارے میں پہلی بار سنا۔ اس سیر حاصل گفتگو سے اخذ کردہ کچھ اہم نکات آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
1۔ پری میچور بچوں اور ان کی ماؤں کی حفاظت کے لیے کوئی راکٹ سائنس نہیں چاہیے ماں کو بچایا جائے تو بچہ بھی بچ جائے گا۔
ماں کے رحم کے اندر اور باہر بچے کی نشوونما وقت اور توجہ مانگتی ہے۔
مولانا روم اپنی مثنوی میں بیان کرتے ہیں کہ ایک چوزہ اس وقت تک انڈے سے باہر آنے کے لیے تیار نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا وقت نہ آجائے چوزہ انڈے کے خول کے اندر باہر کی دنیا کی آوازیں سنتا ہے اور باہر نکلنے کی خواہش کرتا ہے لیکن اس کی ماں نرمی سے اسے یاد دلاتی ہے کہ جب تک وہ مضبوط نہ ہو جائے اسے انتظار کرنا ہوگا جب مناسب وقت آتا ہے تو چوزہ آسانی سے خول توڑ کر باہر آجاتا ہے اور زندگی کے سفر کے لیے پوری طرح تیار ہوتا ہے۔
2۔ کالم میں ہم نے کینگرو مدر کیئر کی بات کی آپ لوگوں نے تصویر اور ویڈیوز میں دیکھا ہوگا کہ کیسے کینگرو اپنے جسم کے ساتھ اٹیچ تھیلی میں اپنے بچے کو رکھتا ہے وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچے کی بقا کے لیے یہ طریقہ بہت زبردست ہے سکن ٹو سکن کونٹیکٹ بچے کو تحفظ کا احساس دلاتا ہے۔ اس تناظر میں ایک ویڈیو بھی دکھائی گئی اور خوبصورت بات یہ ہے کہ بچے کا باپ بھی یہ رول ادا کر سکتا ہے۔
3۔ ماں کا دودھ ان بچوں کو لازمی پلایا جائے ماں کے دودھ میں موجود اینٹی باڈیز پری ٹرم بچوں کی مدافعتی صلاحیت کو بہتر بناتی ہیں۔ تمام ضروری غذائی اجزاء جو بچے کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے ضروری ہیں وہ ماں کے دودھ کے اندر موجود ہوتے ہیں پری ٹائم بچے زیادہ حساس ہوتے ہیں دودھ پلانے کے دوران ماں اور بچے کے درمیان جذباتی تعلق مضبوط ہوتا ہے اور بچہ اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتا ہے۔
4۔ پوری فیملی کی تربیت پر زور دیا گیا پری ٹرم بچے کی موت یا کسی سیریس بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد یہ کہنا کہ اللہ تعالی کو یہی منظور تھا اس کی جگہ حسن تدبیر کو زندگی میں لایا جائے۔
اس کو ہم ایک مثال سے سمجھتے ہیں
ایک شخص کالج کے امتحان کے پرچے کی تیاری کرتا ہے، یہ تیاری حسن تدبیر ہے۔ اگر وہ امتحانات سے پہلے بھی باقاعدہ پڑھتا رہتا ہے تو اس کی تیاری زیادہ اچھی ہوگی۔ یہ بہتر حسن تدبیر ہے اور اگر وہ کسی سے ٹیوشن پڑھتا ہے زیادہ اچھے نمبر لینے کے لیے تو یہ اور بھی بہتر حسن تدبیر ہے۔ مزید اگر وہ پرانے حل شدہ پرچوں سے یہ سمجھتا ہے کہ کس طرح کا پرچہ آتا ہے تو یہ بھی حسن تدبیر ہے۔
اگر وہ وقت سے پہلے تیاری کرکے پھر پرچے سے پہلے سب سلیپس دو ہرا بھی لیتا ہے تو یہ بھی حسن تدبیر ہے۔ اگر وہ وقت ضائع کرنے والی مصروفیات، جیسے کھیل کود فیس بک موبائل وغیرہ سے دور رہ کر امتحانات کی تیاری کرتا ہے تو یہ بھی حسن تدبیر ہے۔ اگر وہ امتحانات میں اچھی اور توانائی والی غذا لیتا ہے تو یہ بھی حسن تدبیر ہے۔ اگر وہ وقت پر اچھی تیاری کرنے کے بعد امتحانات میں اپنی اچھی نیند پوری کرتا ہے جس سے اس کا ذہن تر و تازہ رہے تو یہ بھی حسن تدبیر ہے۔
اگر وہ امتحانات میں سکون سے نماز پڑھ کر اللہ سے اچھے طریقے سے کامیابی کی دُعا بھی کرتا ہے تو یہ بھی حسن تدبیر ہے۔ اگر وہ شخص یہ سب کرنے کے بعد اللہ پر تو کل بھی کرتا ہے تو یہ بھی حسن تدبیر ہے۔
یہ سب حسن تدبیر کرنے کے بعد بھی اگر اس کے نمبر کم آئیں یا فیل ہو جائے یا کسی وجہ سے پرچہ ہی نہ دے سکے وغیرہ وغیرہ تو پھر یہ تقدیر ہے۔ اب وہ کہ سکتا ہے کہ اللہ کو ہی منظور تھا اور چاہیے کہ اللہ کی رضا میں راضی ہو جائے اور یہ یقین رکھے کہ اس کا اللہ اسے زندگی کے کسی دوسرے موڑ پر اس کا بہت اچھا بدلہ عطا فرمائے گا جو اس کے لیے سب سے بہتر ہوگا۔
یہی حسن تدبیر کا اصول پوری فیملی کو سکھایا جائے ماں کی فزیکل اور جذباتی صحت کا خیال رکھ کر حیران کن نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں کامیابی کو سانس لینے کے لیے جس آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے اس کا نام مستقل مزاجی ہے۔
5۔ پری ٹرم بچوں کے لیے فالو آپ کا ایک مضبوط سسٹم ڈیویلپ کیا جائے ماؤں اور ان کی فیملیز کو امید دلائی جائے کیونکہ زندگی کی گاڑی امید کے پیٹرول سے چلتی ہے نا امیدی کا دھکا اسے زیادہ دیر نہیں چلا سکتا۔
6۔ مختلف پائلٹ پروجیکٹس کے بارے میں بریفنگز دی گئیں کامیابی سے کیے گئے اقدامات کے بارے میں بتایا گیا ٹیکنیکل اور میڈیکل سٹاف کی ٹریننگ ترجیحی بنیادوں پر کروائی جا رہی ہے ڈاکٹرز کی زیر نگرانی کام کرنے والے جونیئر سٹاف نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کی مس ریکھا کا جذبہ قابل ستائش لگا آنکھوں میں چمک اور چہرے پر مسکراہٹ۔
مسکراتے چہرے
چلتے پھرتے گلاب ہیں
ان پر پڑنے والی نظر
خوشبو بن کر لوٹتی ہے
7۔ اس کے ساتھ سانس لینے کی تھراپی CIPAP کی دستیابی کے بارے میں بتایا۔ تیل کا مساج کرنے کی اہمیت بیان کی گئی۔ پری ٹرم بچوں کے لیے کیفین کی اہمیت کے بارے میں بتایا گیا ڈسکشن کے دوران اس پوائنٹ کا پتہ چلا کہ کیفین کی دستیابی میں مشکلات کا سامنا ہے اسی وقت سیکرٹری ہیلتھ ریحان بلوچ نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ سندھ کے تمام ہاسپٹلز میں کیفین کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے گا۔
8۔ تھرمل کیئر پری میچور بچوں کی جسمانی گرمائش کی دیکھ بھال کا طریقہ ہے ان بچوں کا وزن کم ہوتا ہے اس لیے کم درجہ حرارت کو برداشت کرنے کی صلاحیت بھی کم ہوتی ہے پیدائش کے فوری بعد بچے کو خشک کیا جاتا ہے اسے ماں کے جسم کے ساتھ جوڑا جاتا ہے تاکہ حرارت کا نقصان نہ ہو۔ گرم کپڑوں کا بندوبست اور تھرمل کیئر کے لیے ضروری آلات کی دستیابی کی اہمیت پر بات کی گئی۔
9۔ وٹامن کے اور دوسرے ضروری سپلیمنٹس کا استعمال پرزور دیا گیا۔
10۔ سوشل اور کلچر ویلیوز کی بات کی گئی اب تک ہمارے گھروں میں بیاہ کر آئی ہوئی عورت پر بچہ پیدا کرنے کا پریشر ہوتا ہے اسی سٹریس کی وجہ سے وہ دوران حمل مختلف مسائل کا شکار رہتی ہے خواتین کو اس خوف سے نجات دلا کر کہ ہم صحت مند بچوں کی پیدائش کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
11۔ ایونٹ کے اختتامی حصے میں ڈاکٹر ریحان اور ڈاکٹر ادریس کی گفتگو دل کو چھو لینے والی تھی ان دونوں کی شخصیت کو دیکھ کر یہ شعر یاد آگیا
اندازہ مت لگائیے بس بیٹھ جائیے
خوشبو بتائے گی پس دیوار کون ہے
سیشن کے اس حصے میں پری میچور بچوں میں بڑھتی ہوئی بلائنڈنس پر بات ہوئی ڈاکٹر ادریس نے بتایا کہ دنیا میں ہر سال 32 ہزار پری میچور بچے بلائنڈ ہو جاتے ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کا علاج ہو سکتا تھا انہوں نے اپنے سعودی عرب میں ہونے والے تجربات کے بارے میں بتایا کہ ریاض سٹی میں سات سال تک کام کرنے کے دوران ایک بھی پری میچور بلائنڈ بچہ نہیں دیکھا انہوں نے زور دیا کہ اپنے تمام بچوں کی ROP طریقہ علاج کے ذریعے آنکھوں کی سکریننگ لازمی کروائی جائے کہ ہم نے پاکستان میں زیرو بلائنڈنس کے لیول تک پہنچنا ہے اس سلسلے میں ڈاکٹرز کے لیے جدید خطوط پر تربیت کی بات کی گئی ایونٹ کے بعد ڈاکٹر صاحب سے گفتگو کی تو انہوں نے کہا کہ زیرو بلائنڈنس کے اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لیے ہر شخص اپنا رول ادا کرے ایونٹ کے شرکا نے یونیسیف کے ڈاکٹر کمال اور ان کی ٹیم کی خدمات کی خصوصی تعریف کی۔
آنکھوں میں ایک صحت مند پاکستان کا خواب سجائے ہوئے اس ایونٹ کا اختتام ہوا اس کا ون لائن میسج یہ ہے کہ ایک بہتر پاکستان کے لیے ہر پاکستانی اپنی صلاحیت کے مطابق اپنے حصے کی اینٹ لگائے۔ رابندر ناتھ ٹیگور یاد آگئے۔۔
ڈوبتے ہوئے سورج نے پوچھا
کوئی ہے جو میری جگہ لے
ٹمٹماتے ہوئے دیے نے کہا
ہاں میں کوشش کروں گا