Wednesday, 04 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Salahuddin
  4. Jamhuriat, Hamare Qaumi Mazaq Ki Sabse Bari Performance

Jamhuriat, Hamare Qaumi Mazaq Ki Sabse Bari Performance

جمہوریت، ہمارے قومی مذاق کی سب سے بڑی پرفارمنس

پاکستان میں جمہوریت ایک ایسا اسٹیج شو ہے جس میں عوام کو زبردستی فرنٹ رو سیٹ دی جاتی ہے، لیکن ان کی حیثیت محض تماشائیوں کی ہوتی ہے۔ اس کھیل کے اداکار، ہمارے قابل عزت سیاستدان، اپنی دلکش اداکاری اور پرجوش ڈائیلاگ کے ذریعے ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ اگلی قسط میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن "اگلی قسط" کبھی نہیں آتی اور ہم سب اس امید میں تالیاں بجاتے رہتے ہیں کہ شاید یہ نظام بہتر ہو جائے۔

جب انتخابات کا وقت آتا ہے تو ہمارے لیڈر کسی فلمی ہیرو کی طرح نمودار ہوتے ہیں، عوام کے مسائل حل کرنے کے وعدے کرتے ہیں اور ایسی تصویریں کھنچواتے ہیں گویا وہ کسانوں کے ساتھ زمین پر ہل چلا رہے ہوں۔ لیکن جیتنے کے بعد وہ غائب ہو جاتے ہیں اور عوام کو سمجھ نہیں آتا کہ وہ زمین اور ہل کے ساتھ خود کہاں گئے۔

جمہوریت کے اس کھیل میں عوام کی حیثیت ایسی ٹیم کی سی ہے جو ہمیشہ ہار جاتی ہے۔ ہم اپنے ووٹ کو ایک طاقت سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ ووٹ ایک ایسا جادوئی نمبر بن جاتا ہے جسے سیاستدان اپنی طاقت کی گنتی میں استعمال کرتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران یہ دعوے کیے جاتے ہیں کہ عوام کی آواز کو سننا ان کا اولین مقصد ہے۔ لیکن جب حکومت بن جاتی ہے، تو یہی آواز اکثر شور قرار دے کر نظرانداز کر دی جاتی ہے۔

اور پھر سوشل میڈیا کا قصہ بھی دلچسپ ہے۔ جہاں ہر شخص اپنے موبائل کے ذریعے "سیاسی ماہر" بن چکا ہے۔ یہ ماہرین دن رات اپنی دانشوری کے جواہر بکھیرتے ہیں اور ہر مسئلے کا "حل" پیش کرتے ہیں۔ لیکن جب ان سے پوچھا جائے کہ یہ حل حقیقت میں کیسے نافذ ہوگا، تو ان کا جواب اکثر ایک گہری خاموشی ہوتی ہے۔

پاکستانی جمہوریت کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں وعدے ایک الگ دنیا کے مسائل حل کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ مثلاً، ہمارے لیڈر وعدہ کرتے ہیں کہ وہ "عالمی مہنگائی" کا خاتمہ کریں گے، "غیر ملکی بحرانوں" کو حل کریں گے اور "بین الاقوامی انصاف" قائم کریں گے۔ لیکن جب بات عوام کے مسائل کی ہو۔۔ مثلاً بجلی کا بل، ٹماٹر کی قیمت، یا سکول کی فیس، تو وہ فوراً کسی "سازش" کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔

عوام کا کردار بھی اس کھیل میں کم دلچسپ نہیں۔ ہم ایسے تماشائی ہیں جو تالیاں بجاتے ہیں، چیختے ہیں اور اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن جب وقت آتا ہے اپنی رائے کو بہتر بنانے کا، تو ہم وہی غلطیاں دہراتے ہیں۔ ہم سیاستدانوں کے وعدوں پر یقین کر لیتے ہیں، حالانکہ ہمیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ وہ وعدے صرف انتخابی مہم کے لیے ہیں، عوام کے لیے نہیں۔

اب آئیے سیاستدانوں کے بارے میں مزید بات کریں، کیونکہ یہ کردار کسی فلمی ولن سے کم نہیں ہوتے۔ ان کے بیانات کبھی بھی ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتے۔ ایک دن وہ کہتے ہیں کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور اگلے دن وہ "قومی بحران" کا اعلان کر دیتے ہیں۔ عوام بیچاری سوچتی رہتی ہے کہ سچائی کہاں ہے اور جھوٹ کہاں۔

جمہوریت کا ایک اور حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ یہاں ہر مسئلہ ایک "دوسرے کے سر" پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اگر بجلی نہیں ہے، تو کسی "پرانے حکمران" کو موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ اگر مہنگائی بڑھ رہی ہے، تو "عالمی حالات" کا رونا رویا جاتا ہے۔ یہ کھیل صرف عوام کو الجھن میں ڈالنے کا ایک طریقہ بن چکا ہے۔

تعلیم کی بات کریں تو، عوام کو کبھی بھی یہ سکھایا نہیں گیا کہ جمہوریت کس طرح کام کرتی ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں سیاست، معیشت اور سماجی شعور کے بارے میں بات کرنا گویا "نقصان دہ" سمجھا جاتا ہے۔ نتیجہ؟ عوام ایک ایسے عمل کا حصہ بن جاتے ہیں جسے وہ سمجھتے ہی نہیں۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان عوام کو خواب بیچنے کے ماہر ہیں۔ وہ ایسی ترقیاتی کہانیاں سناتے ہیں جن پر ہالی وڈ بھی فلم بنا سکتا ہے۔ لیکن جب عوام سوال کرتی ہے کہ یہ خواب حقیقت میں کب تبدیل ہوں گے، تو انہیں یا تو خاموش کر دیا جاتا ہے یا کسی دوسرے مسئلے میں الجھا دیا جاتا ہے۔

آخر میں، سوال یہ ہے کہ کیا یہ نظام کبھی بدلے گا؟ کیا عوام کبھی اپنی ذمہ داری سمجھیں گے؟ یا ہم ہمیشہ اسی طرح جمہوریت کے اس کھیل میں ایک دوسرے پر ہنستے رہیں گے؟

شاید، پاکستان کی جمہوریت ایک ایسا لطیفہ ہے جو سننے میں مزاحیہ ہے، مگر حقیقت میں ایک المناک داستان ہے اور جب تک عوام اور سیاستدان اپنی ذمہ داریاں نہیں سمجھتے، یہ لطیفہ چلتا رہے گا اور ہم سب اس کے تماشائی بنے رہیں گے۔

Check Also

Sher e Mysore Sultan Tipu Shaheed (2)

By Zulfiqar Ahmed Cheema