Wednesday, 04 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Thokar Kamyabi Ka Pehla Sabaq Hoti Hai

Thokar Kamyabi Ka Pehla Sabaq Hoti Hai

ٹھوکر کامیابی کا پہلا سبق ہوتی ہے

ٹھوکر کسی پتھر سے اگر کھائی ہے میں نے
منزل کا نشاں بھی اسی پتھر سے ملا ہے

کہتے ہیں کہ ٹھوکر وہ نعمت ہوتی ہے جو ہمیں دیکھ بھال کر چلنے کا سبق دیتی ہے۔ ایک تو راستے کی روکاوٹوں اور مشکلات کا پتا چل جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر ایسی صورت میں سنبھالنے والے اور چھوڑنے والے ہاتھوں کی پہچان بھی ہو جاتی ہے۔ زندگی میں ٹھوکریں سب کو کہیں نہ کہیں ضرور لگتی ہیں مگر کچھ لوگ ٹھوکریں کھا کر ساری زندگی کے لیے اسی مقام پر گرے پڑے رہ جاتے ہیں اور کچھ لوگ ٹھوکروں کو ٹھوکر مار کر زندگی کے سفر میں آگے بڑھ جاتے ہیں اور کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔

کچھ لوگ ٹھوکروں سے دل ہار بیٹھتے ہیں اور کچھ لوگوں کا حوصلہ اور بھی بڑھ جاتا ہے اور کچھ لوگ راستے کے پتھر سے ٹھوکر کھا کر اپنے زخم سہلاتے رہتے ہیں اور کچھ لوگ اس پتھر کو نکال باہر پھینکتے ہیں تاکہ کوئی اور راہ گیر اس کا شکار نہ بنے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ پتھر رکاوٹ ہوتا ہے جبکہ کچھ لوگ اسے منزل کا نشان سمجھتے ہیں۔ البتہ راہ کی یہ ٹھوکریں انسان کو وہ سب کچھ لمحوں میں سکھا دیتی ہیں جو شاید خوشیوں کے جھولے جھولتا انسان زندگی میں کبھی نہیں سیکھ پاتا۔

لوگ اتنا نصیحت سے نہیں جتنا ٹھوکر سے جلد اثر لیتے ہیں کیونکہ نصیحت اکثر کان سے داخل ہوکر دوسرے کان سے باہر نکل جاتی ہے مگر ٹھوکر سیدھی دل پر لگتی ہے۔ راستے کے پتھروں اور کنکروں کی ٹھوکروں سے بچنے کے لیے ہم اچھا اور مضبوط جوتا پہن کر اور دیکھ بھال کر چلنے سے محفوظ تو رہ سکتے ہیں لیکن ایک بھی معمولی سا کنکر ہمارے جوتے کے اندر ہو تو اچھی سے اچھی اور ہموار سڑک پر بھی چلنا مشکل ہو جاتا ہے اس کنکر سے زخم بھی زیادہ لگتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم زندگی میں باہر کی مشکلات اور ٹھوکروں سے نہیں اپنے اندر کی کمزوریوں کی باعث ٹھوکر یں کھاتے ہیں۔ ٹھوکریں باہر کے پتھروں سے ہی نہیں اندر کی کنکروں سے بھی لگتی ہیں لیکن اچھا یا برا سبق یہ دونوں ہی دیتی ہیں۔

سرخ رو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد
رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پس جانے کے بعد

انسان خطا کا پتلا ہے۔ دانستہ اور نادانستہ خطا اور غلطی اس کی فطرت میں شامل ہوتی ہیں۔ یہ غلطیاں وہ چیزیں ہیں جو بعد میں زندگی کا تلخ یا خوبصورت تجربہ کہلاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ٹھوکرکے مختلف اور دلچسپ معنی ہیں اور ان کا استعمال بھی مختلف موقعوں پر مختلف انداز میں کیا جاتا ہے۔ مثلاََ ٹھوکر اٹھانا، ٹھوکر پر ٹھوکر لگنا، ٹھوکر پر مارنا، ٹھوکر کھانا، ٹھوکر لگنا، ٹھوکر مارنا، اسی طرح کئی ضرب المثل بھی زبان زد عام ہیں، مثلاََ ٹھوکر لگی پہاڑ کی گھر کی توڑیں سیل (زبردست سے بس نہیں چلتا کمزور کو تنگ کرتے ہیں) جو سراٹھا کر چلے گا ٹھوکر کھائے گا (مغرور کو ہمیشہ ذلت نصیب ہوتی ہے) سر اٹھا کر چلا اور ٹھوکر کھا کر گرا (تکبر سے ذلت ورسوائی ہوتی ہے)۔

بہر حال عام طور پر ٹھوکر اس روکاوٹ کو سمجھا جاتا ہے جو گرنے یا جھکنے پر مجبور کردئے یا پھر آپ کی رفتار کم کردئے۔ یاد رہے ہر ٹھوکر سے چوٹ ضرور لگتی ہے چاہے وہ چھوٹی ہو یا پھر بڑی ہو؟ بات بالکل درست ہے کہ کامیابی کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں آتی ہیں۔ یہ رکاوٹیں چھوٹی موٹی نہیں بلکہ کبھی کبھی بہت بڑی بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن کامیابی حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ان رکاوٹوں سے نہ ہاریں اور اپنا سفر جاری رکھیں۔

زندگی میں ٹھوکر لگ کر جو کچھ گر گیا ہے اسے واپس اٹھانے کے لیے پیچھے مڑنے اور جھکنے کی ضرورت نہیں ایسا کرنے سے ممکن ہے کہ اور بھی بہت کچھ گنوا بیٹھیں بلکہ اپنے سفر کو جاری رکھیں اور اپنی بقیہ چیزوں کی ٹھوکرکے اس تلخ تجربے کی روشنی میں حفاظت کریں اللہ پر بھروسہ کریں وہ آپ کو کھوئی ہوئی چیز وں سے بہتر عطا کرے گا جس کا آپ نے تصوربھی نہیں کیا ہوگا۔

اس بات کی وضاحت کچھ اس طرح کی جا سکتی ہے کامیابی ایک سفر ہے منزل نہیں ہوتی۔ کامیابی کو ایک منزل نہیں بلکہ ایک سفر کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ اس سفر میں کبھی کبھی ہمارے راستے میں رکاوٹیں آسکتی ہیں ٹھوکریں بھی لگ سکتی ہیں۔ لیکن ہمیں ان ٹھوکروں اور رکاوٹوں کو ایک چیلنج کے طور پر لینا چاہیے اور انہیں عبور کرکے آگے بڑھنا چاہیے۔ شکست یا ہار ماننا بہت آسان ہے لیکن کامیابی حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ کامیابی کے لیے ہمیں محنت، لگن اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہمیں ہر ناکامی اور ٹھوکر کو ایک نیا سبق سمجھنا چاہیے اور آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ رکاوٹیں اور ٹھوکریں آپ کو مضبوط بنائیں گی۔ جب آپ کسی مشکل کا سامنا کرتے ہیں اور اسے عبور کرتے ہیں تو آپ کا حوصلہ بڑھتا ہے اور آپ مزید مشکل کاموں کو کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ کامیابی کا راستہ کبھی ہموار نہیں ہوتا پر خطر راستوں پر ٹھوکریں ضرور لگتی ہیں۔ اس میں بہت سے موڑ اور اتار چڑھاؤ اور روکاوٹیں، کانٹے اور پتھر آتے ہیں۔ لیکن اگر آپ اپنا مقصد واضح رکھیں اور محنت کرتے رہیں تو آپ ضرور کامیاب ہوں گے۔ یہ مشکلات آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔

ایک بچہ باربار گرتا ہے لیکن پھر چلنے کی کوشش کرتا ہے اور آخر کار چلنا سیکھ جاتا ہے۔ ایک طالب علم کو امتحان میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن اسے ہار نہیں ماننی چاہیے بلکہ اسے اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور بار بار کوشش کرنی چاہیے۔ ایک کاروباری شخص کو اپنے کاروبار میں نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن اسے ہار نہیں ماننی چاہیے بلکہ اسے اپنی غلطیوں اور ٹھوکروں سے سبق سیکھنا چاہیے اور اپنے کاروبار کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ایک کھلاڑی کو کسی ٹھوکر یا غلطی کی وجہ سے کسی میچ میں شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن اسے ہار نہیں ماننی چاہیے بلکہ اس تجربے کی روشنی میں اسے اپنی مہارتوں کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اگلے میچ میں جیتنے کا عزم اور کی کوشش کرنی چاہیے۔ کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہمیں مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہمیں ہر ناکامی کو ایک نیا سبق سمجھنا چاہیے اور آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ہم اپنا مقصد واضح رکھیں اور محنت کرتے رہیں تو ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔

غلطیاں ہونی چاہیں تاکہ وہ اپنی گرفت ڈھیلی چھوڑ پائیں جو ہمیں اچھی طرح تھامے ہوئے ہیں جیسے ایک ماں اپنے بچے کو چلنے کے لیے تنہا چھوڑ دیتی ہے۔ جبکہ اسے خوب پتہ ہوتا ہے کہ وہ گر جائے گا اور اسے چوٹ بھی لگ سکتی ہے۔ لیکن اس کایہ عارضی گرنا اس کے مستقل چلنے کے لیے کس قدر ضروری ہے وہ ماں بہت اچھی طرح جانتی ہے۔ اس لیے اپنی زندگی میں ٹھوکر یا غلطی سے آپ سنبھل کر جیت جاتےہیں تو قیادت کرسکتے ہیں اور اگر غلطی یا ٹھوکر لگنے سے گر کر ہار جاتے ہیں تو تو بھی اپنے تجربے سے دوسروں کی رہنمائی تو کر ہی سکتے ہیں۔ اشفاق احمد خان مرحوم فرماتے ہیں کہ "زندگی کی منافقت زدہ ٹھوکروں میں سب سے قیمتی دھکا وہ ہوتا ہے جس سے آپ گرتے ہیں اٹھنا سیکھ جاتے ہیں"۔

کہتے ہیں کہ کچھ دروازے اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت کے لیے بند کرتا ہے۔ کچھ روگ اور دکھ بڑے مبارک ثابت ہوتے ہیں اگر لگ جائیں تو پہلے سے کہیں بہتر اور مختلف انسان بنا دیتے ہیں اور ہم تخلیقی اور تعمیری بن جاتے ہیں، کچھ ٹھوکریں بھی بڑی معتبر ہوتی ہیں ہمارے تجربات میں اضافہ کرتی ہیں اور یہ تجربات ہمیں مزید ٹھوکروں سے بچاتے ہیں اور ہمیں ہماری کوتاہیوں کا احساس دلا کر اللہ کے حضور اس کے دربار میں لاکھڑی کرتی ہیں۔

کچھ لوگوں کی جانب سے لگنے والی ٹھوکریں، بے توجہی اور رویے بھی بڑے انمول ہوتے ہیں جو ہماری توجہ اور دھیان کا ارتکاز چہروں کے ہجوم سے نکال کر قطب نما کی طرح ایک اللہ کی ذات کی طرف مبذول کر دیتے ہیں۔ ایسے ہر بند دروازے، ہردرد، ہر ٹھوکر، ہر روگ، ہر خلش، ہر بے بسی، ہر بے اعتنائی، ہر بے رخی، ہر بے توجہی کو سلام جو ہمیں پہلے سے بہتر انسان بنا دئے اور اللہ صاحب کن فیکون سے ملوا دے۔ ہر ٹھوکر اور غلطی ہمارے لیے ایک نیاسبق ہوتی ہیں جن سے سیکھ کر ہی ہم کامیابی حاصل کرتے ہیں اور ہماری اسی کامیابی کو دیکھ کر دوسرے لوگوں کو سیکھنے اور سمجھنے کا موقعہ ملتا ہے۔

Check Also

Insan Aur Waqt Ka Rishta

By Adeel Ilyas