عوام اصل مجرم ہیں (چوتھا حصہ)
آپ عوام ایک اور دلچسپ حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے۔
ہمارے ملک میں دو لاکھ 28ہزار اسکول و کالج اور 73سرکاری یونیورسٹیاں ہیں، ہمارے یہ تعلیمی ادارے معیار میں اتنے بلند تھے کہ افغانستان سے لے کر انڈونیشیا اور دوبئی سے لے کر مراکش تک مسلمان اشرافیہ اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے پاکستان بھجواتی تھی، ہمارے ملٹری، ایئرفورس اور بحریہ کے ادارے بھی مڈل ایسٹ، افریقی اسلامی ممالک اور مشرق بعید کے افسروں کو تعلیم اور ٹریننگ دیتے تھے، آج سے تیس برس پہلے تک ہماری سول سروس، ہمارے ڈاکٹرز، انجینئرز، چارٹر اکائونٹنٹ اور ہمارے بڑے بزنس مین ان سرکاری اسکولوں سے پڑھ کر نکلتے تھے لیکن آج حالت یہ ہے عام لوگ بھی اپنے بچے سرکاری اداروں میں داخل نہیں کراتے، آپ قریب ترین سرکاری اسکول چھوڑ کر اپنا بچہ پانچ کلومیٹر دور پرائیویٹ اسکول میں داخل کرا دیں گے، آپ کی اس "حرکت" کی وجہ سے سرکاری اسکولوں میں داخلے کی شرح تیزی سے گر رہی ہے جب کہ پرائیویٹ اسکول ہر محلے، ہر گلی میں کھمبیوں کی طرح اگ رہے ہیں اور ان میں داخلہ بھی نہیں ملتا۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس کی وجہ بہت دلچسپ ہے، حکومت نے آج سے تیس سال قبل ان تعلیمی اداروں پر توجہ دینا چھوڑ دی تھی، اسکولوں اور کالجوں کی عمارتیں بوسیدہ ہو چکی ہیں، دروازے ٹوٹ چکے ہیں، ٹاٹ پھٹ چکے ہیں، کرسیاں اور میزیں غائب ہو چکی ہیں، اسکولوں اور کالجوں میں باتھ رومز نہیں ہیں، لیبارٹریوں، کھیل کے میدان اور لائبریریوں کا نشان تک مٹ چکا ہے، ان اداروں میں استاد نہیں ہیں اور اگر ہیں تو یہ اسکول اور کالج نہیں آتے چنانچہ آج ملک کا تعلیمی نظام قبرستان بن چکا ہے اور آپ والدین اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے پرائیویٹ اسکولوں کا رخ کر رہے ہیں لیکن قصور وار کون ہے؟ عوام اس کے قصور وار ہیں کیونکہ آپ نے آج تک اپنے بچوں کے اسکول پر توجہ ہی نہیں دی، آپ نے کبھی اپنے اسکول، اپنے کالج کے لیے احتجاج نہیں کیا۔
آپ نے کبھی اپنے اسکول، اپنے کالج میں استادوں کی کمی پر اپنے ایم پی اے، اپنے ایم این اے کے گھر کا گھیرائو نہیں کیا، آپ نے اسکول کی گرتی ہوئی عمارت، اسکول کے باتھ روم، لائبریری، لیبارٹری اور کھیل کے میدان کے لیے کمپین نہیں کی، آپ نے کبھی محکمہ تعلیم کی توجہ اس جانب مبذول نہیں کرائی اور آپ نے کبھی اپنی مدد آپ کے تحت ان سرکاری اسکولوں کی تزئین و آرائش نہیں کی چنانچہ آپ ملک کے تعلیمی نظام کے زوال کے ذمے دار ہیں، آپ پیٹ کاٹ کر، ڈبل شفٹ میں کام کر کے، زمین اور زیور بیچ کر اور رشوت لے کر بچوں کو پرائیویٹ تعلیم دلا لیں گے لیکن سرکاری اسکول بحال نہیں کرائیں گے اور آپ کی اس سوچ کی وجہ سے تعلیم کا جنازہ نکل گیا۔
ملک میں صحت اور ہائوسنگ کے سیکٹر میں بھی یہی ہوا، آپ سرکاری اسپتالوں میں علاج کیوں نہیں کراتے؟ ، آپ ڈاکٹر کو اسپتال میں ملنے کے بجائے اس کے پرائیویٹ کلینک کیوں جاتے ہیں؟ اس لیے کہ سرکاری اسپتال میں ڈاکٹر ہوتا ہی نہیں اور اگر ہو تو اس کے پاس مریض دیکھنے کے لیے وقت نہیں ہوتا چنانچہ آپ بھیک مانگ لیں گے مگر اپنا علاج پرائیویٹ کروائیں گے۔ سرکاری ہائوسنگ اسکیموں میں بھی کیا ہوا، سرکار سستے پلاٹ دے دیتی ہے لیکن اس میں گلی، سڑک، بجلی اور گیس نہیں دیتی جب کہ پرائیویٹ ہائوسنگ اسکیموں میں سہولتیں پہلے ملتی ہیں اور آباد کاری بعد میں ہوتی ہے، آپ نے کبھی اپنے نمایندوں کے سامنے یہ ایشو اٹھایا، آپ نے کبھی حکومت کے سامنے اس پر احتجاج کیا، آپ نے کبھی اپنے ووٹ کو اپنی سرکاری آبادیوں کی صورتحال سے نتھی کیا۔
آپ نے نہیں کیا چنانچہ آج آپ کی جیب میں ہزار روپے ہیں تو آپ ڈاکٹر کا منہ دیکھ سکتے ہیں اور آپ ایک مربع زمین بیچیں گے تو آپ دس مرلے کا گھر خرید سکیں گے۔ آپ عوام نے کبھی سوچا پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن ہم میں سے نوے فیصد لوگ سبزی، دالیں، گندم، چینی اور گھی بازار سے خریدتے ہیں، یہ ملک دنیا کے پانچ زرعی ممالک میں شمار ہوتا ہے جو خوراک اور پھل درآمد کرتا ہے، جاپان کے لوگ گملوں میں ٹماٹر، پیاز اور گوبھی اگا لیتے ہیں لیکن ہم لوگ اپنے لیے سبزی، اناج، گوشت اور فروٹ کا بندوبست نہیں کر سکتے، ہمارے دیہات تک کے لوگ شہر سے چینی، دالیں اور فروٹ خریدتے ہیں، آپ نے کبھی خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہونے کی کوشش نہیں کی۔ سرکاری ملازم ملکوں کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں، اگر محکموں میں اہل، ایماندار اور محنتی لوگ نہیں آئیں گے تو سسٹم کیسے چلے گا؟
آپ نے کبھی سوچا آپ ملکی سسٹم کو کس قسم کا ٹیلنٹ دے رہے ہیں! آپ اپنے سست ترین، نالائق ترین اور کرپٹ ترین بچے کو سرکاری ملازمت دلواتے ہیں، آپ رشوت دے کر اپنے بچوں کو پولیس، محکمہ مال، ریلوے، پی آئی اے اور سوئی گیس میں بھرتی کرواتے ہیں، آپ بچے کو پانچ پانچ، دس دس سال گھر بیٹھا لیں گے لیکن آپ اسے بھرتی سرکاری محکمے ہی میں کرائیں گے چنانچہ آپ حکومت کو جس قسم کا ٹیلنٹ دیں گے حکومت بھی اسی طرح چلے گی اور اگرحکومت میں نااہلی، کرپشن اور سستی ہو گی تو اس کا اثر آپ اور آپ کے خاندان پر بھی پڑے گا اور آپ اب یہ اثرات بھگت رہے ہیں۔
آپ نے کبھی سوچا آپ دین کو کیسا ٹیلنٹ دے رہے ہیں! آپ اپنے معذور، اندھے اور نالائق بچے مدرسوں میں بھرتی کرا دیتے ہیں، یہ بچے بعدازاں حافظ اور عالم بن جاتے ہیں، آپ اگر ایک معذور یا کم فہم شخص کو بی ایم ڈبلیو کار دے دیں گے تو وہ اس کا کیا حشر کرے گا چنانچہ یہ کم فہم اور معذور بچے دین کا وہی حشر کر رہے ہیں جس کی ان سے توقع کی جا سکتی ہے۔ آپ نے کبھی ایچی سن، صادق پبلک یا ہاورڈ اور کیمبرج کا تعلیم یافتہ بچہ دین کو دیا؟ آپ دے کر دیکھ لیجیے، اس ملک سے فرقہ واریت اور دین سے دوری ختم ہو جائے گی لیکن آپ ایسا نہیں کر رہے چنانچہ آپ اس کا نتیجہ بھی بھگت رہے ہیں اور آپ اس معاملے میں بھی مجرم ہیں۔
آپ نے کبھی سوچا معاشرے میں سکون کے لیے چار چیزیں ضروری ہوتی ہیں۔ کتابیں، کھیل، تفریح اور سوشل گیدرنگ۔ پاکستان میں کبھی ہر شہر اور ہر تعلیمی ادارے میں لائبریری ہوتی تھی، یہ لائبریریاں ختم ہو گئیں، آج کسی شہر میں لائبریری نہیں اور اگر ہے تو یہ بند پڑی ہے یا پھر اسے کوئی استعمال نہیں کر رہا۔ پاکستان کی ستر فیصد آبادی پوری زندگی کوئی کتاب نہیں خریدتی اور باقی تیس فیصد آبادی بھی زندگی میں اوسطاً آدھی کتاب خریدتی ہے۔ پاکستان کے تمام شہروں میں پارک اور کھیل کے میدان ہوتے تھے، ملک کے تمام تعلیمی اداروں، محلوں اور کمیونٹیز کی ٹیمیں ہوتی تھیں لیکن یہ ٹیمیں، کھیل کے میدان اور پارکس ختم ہو گئے۔
ان کی جگہ ہائوسنگ اسکیمیں بن گئیں یا پھر یہ قبضہ مافیا کے قبضے میں ہیں۔ تفریح کی حالت یہ ہے آج 2012ء میں بھی آپ کو اس ملک میں فلم، موسیقی اور تھیٹر کے کروڑوں مخالفین مل جائیں گے، آپ کو اس ملک میں آڈیو لائبریری، اوپن ایئر تھیٹر اور سینما نہیں ملتے اور اگر ہیں تو یہ آخری سانس لے رہے ہیں اور رہ گئی سوشل گیدرنگ تو آپ کو اس پورے ملک میں ریستوران اسٹریٹس اور کیفے ایریاز نہیں ملتے۔ اگر ہیں تو یہ خود رو ہیں اور عوام اور حکومت اس کی منصوبہ بندی میں شامل نہیں۔ ملک میں کلبز نہیں ہیں، سوئمنگ پولز نہیں ہیں، چائے خانے نہیں ہیں، کمیونٹی سینٹر نہیں ہیں اور اگر ہیں تو یہ کسی قانون اور قاعدے کے مطابق نہیں چل رہے چنانچہ آپ تمام چھوٹے بڑے شہروں میں لاکھوں کروڑوں نوجوانوں کو شام کے وقت بے مہار پھرتے دیکھتے ہیں۔
یہ کبھی اس گلی میں اکٹھے ہوتے ہیں، کبھی اس چوک میں بیٹھ جاتے ہیں اور کبھی کسی بازار کا رخ کر لیتے ہیں، نوجوانوں کی اس نقل و حرکت سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اور آپ عوام اس بگاڑ کے بھی ذمے دار ہیں کیونکہ آپ نے کبھی ان نوجوانوں کے بیٹھنے اور ان کی "سوشل گیدرنگ" کے لیے کام نہیں کیا، آپ نے شہر یا محلے میں ایسے چائے خانے یا کمیونٹی سینٹر نہیں بنائے جہاں یہ بیچارے شام گزار سکیں، آپ نے شہر میں آڈیو لائبریریاں اور چھوٹے سینما ہائوس بھی نہیں بنائے یا میونسپل کمیٹی کو بنانے کی ترغیب نہیں دی۔
آپ نے اپنے نمایندوں اور بزنس مین کو پارکس اور کھیل کے میدان بنانے اور شہر میں لائبریریاں قائم کرنے کے لیے بھی مجبور نہیں کیا چنانچہ پھر آپ اور آپ کے بچوں کی زندگی میں سکون کیسے ہو سکتا ہے، آپ کی زندگی میں اطمینان کیسے آ سکتا ہے!! آپ اس معاشرتی بے سکونی کے ذمے دار بھی ہیں، آپ معاشرتی بگاڑ، سسٹم کی خرابی، خوراک کی کمی، ہائوسنگ اسکیموں، صحت اور تعلیم کی پستی کے بھی ذمے دار ہیں، آپ اپنی ہی ذات کے مجرم ہیں اور آپ کو اس صورتحال پر رونے دھونے کا کوئی حق حاصل نہیں، آپ اس شخص کی طرح ہیں جو پہلے خود کشی کرتا ہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے اپنی بے وقت موت کا شکوہ کرتا ہے۔ (جاری ہے۔۔ )۔
نوٹ: آپ مجھ سے ٹوئٹر پر رابطہ کر سکتے ہیں (twitter.com/javedchoudhry)۔