اب بھی آنکھیں کھول لیں
پریانتھا کمارا سری لنکن تھا، بودھ تھا، پروڈکشن انجینئرنگ میں گریجوایشن کی تھی، 2012 میں پاکستان آیا اور راج کو ٹیکسٹائل مل میں پروڈکشن مینیجر بھرتی ہو گیا، محنتی، منظم اور سخت مزاج تھا، ڈسپلن اور ٹائم کی پابندی پر کمپرومائز نہیں کرتا تھا، اردو بولنا اور پڑھنا نہیں جانتا تھا، انگریزی میں بات چیت کرتا تھا۔
راج کو ایک بڑی کمپنی ہے، یہ ہوزری اور لیدر جیکٹس بناتی ہے، فیکٹری میں تین ہزار ملازمین ہیں، مالک کا نام اعجاز بھٹی ہے، تین دسمبر جمعہ کی صبح اس فیکٹری میں ایک خوف ناک واقعہ پیش آیا اور پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، فیکٹری کے پروڈکشن یونٹ میں پینٹ ہو رہا تھا، پریانتھا کمارا وہاں سے گزر رہا تھا۔
اس نے دیوار پر چند اسٹیکرز دیکھے اور چلتے چلتے اسٹیکرز اتار کر پھینک دیے، مزدوروں کا کہنا تھا اسٹیکرز پر درود پڑھیں کی ہدایات لکھی تھیں، ایک اسٹیکر پر سلام یا حسین تحریر تھا اور باقی دعائیہ اسٹیکرز تھے اور لوگ عموماً اس قسم کے اسٹیکرز برکت کے لیے دروازوں اور دیواروں پر لگا دیتے ہیں، پریانتھا کو اردو پڑھنا نہیں آتی تھی لہٰذا اس نے دیوار کو پینٹ کے قابل بنانے کے لیے وہ اتار دیے، وہ معاملے کی حساسیت سے لا علم تھا ورنہ وہ کبھی یہ غلطی نہ کرتا، وہ بودھ تھا لیکن اس نے ماضی میں کبھی کسی قسم کی اختلافی بات نہیں کی تھی تاہم یہ واقعہ ہوا، چند مزدوروں نے دیکھا اور اعتراض کیا، پریانتھا معاملے کی حساسیت سے واقف نہیں تھا لہٰذا وہ واٹ ہیپن، واٹ ہیپن کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
مزدوروں نے دوسرے مزدوروں کو بتایا، وہ اکٹھے ہو گئے، پریانتھا دوبارہ ہال میں آیا تو انھوں نے اسے دھکے دینا شروع کر دیے، اسے ہلکا پھلکا مارنا بھی شروع کر دیا، بات مینجمنٹ تک پہنچی تو مالک اعجاز بھٹی کے بھائی شہباز بھٹی آئے اور اسے چھڑا کر لے گئے، معاملہ رفع دفع ہو گیا، یہ صبح ساڑھے دس بجے کا واقعہ تھا، تھوڑی دیر بعد مزدوروں نے دیگر مزدوروں کو اکٹھا کیا اور نعرے بازی شروع کر دی، پریانتھا بھاگ کر چھت پر چڑھ گیا اور سولر پینلز کے نیچے چھپ گیا، مزدور پیچھے لپکے اور اسے تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
وہ بھاگنے اور بچنے کی کوشش کرتا رہا لیکن ہجوم نے اسے نکلنے نہ دیا، کسی راہ گیر نے 11 بج کر 28 منٹ پر ون فائیو پر کال کر دی، پولیس دوڑ پڑی لیکن ہجوم اس وقت تک پریانتھا کو قتل بھی کر چکا تھا، نعش گھسیٹ کر سڑک پر بھی لا چکا تھا اور اس پر پٹرول چھڑک کر اسے آگ بھی لگا چکا تھا، لوگ آگ کو تیز کرنے کے لیے جلتی ہوئی لاش پر اپنے مفلر اور چادریں بھی پھینک رہے تھے، سیلفیاں بھی بن رہی تھیں اور وڈیوز بھی، سڑک بند تھی لہٰذاپولیس کی گاڑیاں ہجوم میں پھنس گئیں، مزدوروں نے اس کے بعد فیکٹری مالکان کو بھی قتل کرنے اور فیکٹری کو آگ لگانے کے نعرے لگانا شروع کر دیے، پولیس بہرحال پہنچی اور حالات کو کنٹرول کرنا شروع کر دیا یوں فیکٹری بھی بچ گئی اور مالکان بھی لیکن پاکستان فوت ہو گیا، انسانیت کا جنازہ نکل گیا۔
میں پریانتھا کماراکی ہرگز ہرگز وکالت نہیں کرتا، میں سردست مان لیتا ہوں وہ واقعی گناہ گار تھا اور اس نے جان بوجھ کر اسٹیکر پھاڑے تھے لیکن سوال یہ ہے کیا اسٹیکرز پھاڑنے کی سزا موت ہے اور موت بھی ایسی جس میں ہجوم دھڑکتے تڑپتے زندہ انسان کو ڈنڈوں اور اینٹوں کے ساتھ قتل کرے، اس کی کھوپڑی توڑ ے، نیم برہنہ لاش کو سڑک پر گھسیٹے اور آخر میں اسے آگ لگا دے اورپھر اس نبیؐ کے نعرے لگائے جسے اللہ نے رحمت اللعالمینؐ بنا کر بھیجا تھا اورجس نے زندگی بھرکسی جانور کی طرف بھی نفرت سے نہیں دیکھا تھا لیکن اس کے امتی رسالت کا نعرہ لگا رہے تھے اور لاش کو اینٹوں اور ڈنڈوں سے قیمہ بھی بنا رہے تھے اور آخر میں اس لاش کو سڑک پر آگ لگائی اور اس آگ کو بھانبڑ بنانے کے لیے اس میں اپنے مفلر اور چادریں پھینکتے جا رہے تھے اور پولیس اپنی جانوں کے خوف کی وجہ سے ہجوم کے قریب نہیں جا رہی تھی۔
دنیا میں اس کی کوئی جسٹی فکیشن ہے؟ کیا دنیا کا کوئی مذہب، کوئی قانون، کوئی روایت اس کی اجازت دیتا ہے؟ آج افریقہ کے ملکوں میں بھی ایسا نہیں ہوتا جب کہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کسی کو بھی گستاخ رسول ڈکلیئر کر کے اسے سڑک پر مار دیتے ہیں اور اس کی لاش تک جلا دیتے ہیں، خدا کے لیے آنکھیں کھولیں، ہمارے عوام کے دل نفرتوں سے بھرے ہوئے ہیں اور مہنگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت اس نفرت میں پٹرول بھر رہی ہے اور لوگوں کو اب مذہبی نعرہ بھی مل گیا ہے۔
یہ مذہبی نعرہ لگاتے ہیں اور کسی پر بھی حملہ کر دیتے ہیں اور ریاست تماشا دیکھنے اور ایف آئی آر درج کرنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتی، کیا ہم ملک ہیں اور کیا ہم انسان بھی ہیں؟ میری کل پولیس اہلکاروں سے گفتگو ہوئی، موقع پر پہنچنے والے پولیس اہلکاروں نے بتایا ہم نے زندگی میں اتنا وحشت ناک منظر نہیں دیکھا، سڑک پر لاش پڑی ہوئی تھی، اس کا سر اور منہ کچلا ہوا تھا، لاش جل رہی تھی اور لوگ اس پر چادریں اور مفلر پھینکتے جاتے تھے اور نعرے لگاتے جاتے تھے اور کسی شخص میں ان کا ہاتھ اور زبان روکنے کی جرات نہیں تھی اور ایشو کیا تھا، مزدوروں نے بتایا اس نے دو ایسے اسٹیکر اتار دیے تھے جن پر سلام یا حسین اور کیا آپ نے درود شریف پڑھ لیا چھپا ہوا تھا اور لوگوں نے اسے قتل کر دیا۔
میں ریاست سے پوچھنا چاہتا ہوں آپ نے یہ جن خود بوتل سے نکالا تھا، آپ اب اسے بوتل میں بند کر کے دکھائیں، یہ اب آپ کو بھی نہیں چھوڑے گا، کیوں؟ کیوں کہ اسے اب جو بھی روکنا چاہے گا اس کے قتل کے لیے بھی یہ افواہ یا یہ دعویٰ کافی ہو گا "یہ گستاخ رسول ہے یا یہ ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتا" اور لوگ اس پر بھی پل پڑیں گے، کیا ہم ملک کو یہ بنانا چاہتے تھے؟ اگر ہاں تو پھر مبارک ہو اور اگر نہیں تو پھر آگے بڑھیں، غلطیوں کا اعتراف کریں اور ملک بچائیں، یہ اب اس طرح چل سکے گا اور نہ بچ سکے گا، ہم بچپن سے یہ محاورہ سنتے آ رہے ہیں جو بوؤ گے وہ کاٹو گے، یہ محاورہ غلط ہے، انسان زندگی میں اگر ایک بیج بوتا ہے تو وہ صرف ایک بیج نہیں کاٹتا اسے سیکڑوں ہزاروں کاٹنے پڑتے ہیں۔
کیوں؟ کیوں کہ ایک بیج ایسے پودے اور درخت پیدا کر دیتا ہے جس پر سیکڑوں ہزاروں بیج اور اسٹے ہوتے ہیں، ہم نے اس ملک کی بنیاد نفرت کے بیج پر رکھی تھی لہٰذا ہم آج نفرت کے ہزاروں اسٹے کاٹ اور کھا رہے ہیں، ہمیں آج ہر نظر نفرت سے ابلتی اور کاٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور یہ سلسلہ کم نہیں ہو رہا ہے، یہ بڑھتا چلا جا رہا ہے، لڑائی آج مذہب پسندوں اور لبرلز کے درمیان ہے، یہ کل زیادہ عاشق رسولؐ اور کم عاشق رسولؐ میں تبدیل ہو جائے گی اور پھر ملک میں کسی کی بھی جان لینے کے لیے یہ کہہ دینا کافی ہو گا فلاں پورا درود شریف نہیں پڑھتا یا یہ رسول اللہ ﷺ کا نام لیتے ہوئے محمدؐ پر زور نہیں دیتا اور پھر وہ شخص بھی پریانتھا کمارا بن جائے گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس انجام سے بچائے لیکن ہم بڑی تیزی سے اس طرف دوڑ رہے ہیں اور یہ اس ملک میں ہو رہا ہے جس میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ ساری رات موچی دروازے میں تقریر کرتے تھے، گراؤنڈ کے عین سامنے شراب خانہ تھا، شرابی ساری رات وہاں شراب پیتے تھے اور شاہ صاحب کا کوئی مرید ان پر حملہ کرتا تھا اور نہ شرابی باہر نکل کر غل غپاڑہ کرتا تھا، شاہ صاحب بلا کے اسپیکر تھے، وہ رات کو دن کہہ دیتے تھے تو لوگ اپنی آنکھوں کی گواہی نہیں لیتے تھے وہ رات کو دن سمجھ لیتے تھے، وہ مجمعے کو اٹھنے کا حکم دیتے تھے۔
لوگ اٹھ کھڑے ہوتے تھے، وہ انھیں بیٹھنے کا کہتے تھے تو لوگ بیٹھ جاتے تھے، شاہ صاحب نے ایک رات مجمعے کو حکم دیا آؤ میرے پیچھے چلو، ہم قادیان جائیں گے اور مجمع اٹھ کر ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا، قادیان گرداس پور کا چھوٹا سا قصبہ ہے، مرزا غلام احمد اس قصبے سے تعلق رکھتا تھا، وہ اور اس کے جھوٹے مذہب کے جھوٹے پیروکار قادیان کی وجہ سے قادیانی اور مرزا کی مناسبت سے مرزائی کہلاتے تھے، شاہ صاحب کا قافلہ لاہور سے نکلااور راستے میں ہزاروں لوگ قافلے میں شریک ہوتے چلے گئے، یہ لوگ قادیان پہنچے، شاہ صاحب نے تقریر کر کے لوگوں کو واپس جانے کا حکم دیا اور کسی عاشق رسولؐ نے کسی قادیانی پر حملہ تو دور گملا اور پودا تک نہ توڑا، قادیان کا بازار تک کھلا رہا اور اسکول تک چلتے رہے لیکن کیا ہم آج اس ملک میں اس کا تصور کر سکتے ہیں۔
کیا آج کسی بھی شخص کو مروانے کے لیے یہ کہنا کافی نہیں ہو گا وہ پورا درود شریف نہیں پڑھتا یا وہ نماز کے دوران پاؤں زیادہ یا کم کھولتا ہے؟ ہم کنوئیں میں بند ہیں، ہمیں آج عمرے کے لیے بھی ویزے نہیں ملتے، افغانی بھی پاکستان آنا پسند نہیں کرتے اور ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن اس واقعے نے ہمارا رہا سہا بھرم بھی ختم کر دیا، ہمارے ملک میں اب سری لنکن بھی قدم نہیں رکھیں گے، ہم انتہا پسند ثابت ہوتے چلے جا رہے ہیں بس اعلان باقی ہے اور ہم اگر نہ سنبھلے تو یہ اعلان بھی ہو جائے گا۔
میں بار بار عرض کرتا رہا ہوں، میں آخری بار عرض کر رہا ہوں مذہب ایک ذاتی معاملہ ہوتا ہے، اسے صرف ذات تک محدود رہنا چاہیے، یہ جب ملک اور معاشرے تک چلا جاتا ہے تو پھر اس کا وہی نتیجہ نکلتا ہے جو اس وقت اس ملک میں نکل رہا ہے لہٰذا اب بھی جاگ جائیں، اب بھی آنکھیں کھول لیں ورنہ ہماری آنکھیں بچیں گی اور نہ ہم کھولنے کے قابل رہیں گے اور ہم میں سے ہر شخص پٹرول کا کین اٹھا کر اپنا ہدف تلاش کر رہا ہو گااور اسے لاشوں میں سے اپنی پسند کی لاش نہیں مل رہی ہو گی۔