6درخواستیں
اتاترک جدید ترکی کے بانی ہیں، ان کا شمار دنیا کے دس بڑے لیڈروں میں ہوتا تھا، والد ایک چھوٹے سے سوداگر تھے لیکن اتاترک فوج میں بھرتی ہو گئے، مصطفی کمال پاشا میں دو ایسی خوبیاں تھیں جو اللہ تعالیٰ بہت کم لوگوں کو نصیب کرتا ہے۔
یہ بے انتہا بہادر انسان اور دوسرا اللہ تعالیٰ نے انھیں انتہائی مضبوط قوت فیصلہ دے رکھی تھی، آپ ان کی بہادری کا اندازہ صرف گیلی پولی کے واقعے سے کر لیجیے، پہلی جنگ عظیم میں اتاترک فوج میں کرنل تھے، ان کی یونٹ گیلی پولی میں تعینات تھی، ان کے پاس جوانوں اور اسلحہ کی شدید کمی تھی، 25 اپریل 1915 کو اچانک برطانوی فوج کا ایک بڑا لشکر گیلی پولی پہنچ گیا۔
لشکر سمندر میں تھا جب کہ اتاترک کے جوان خشکی پر تھے اور ان چند درجن جوانوں نے برطانوی لشکر کوقبضے سے روکنا تھا، اتاترک کے جوان لڑائی کے لیے تیار نہیں تھے کیوں کہ ان کے پاس اسلحہ بھی کم تھا اور یہ تعداد میں بھی تھوڑے تھے، برطانوی فوج نے ساحل سے ترکوں کے مورچوں پر بمباری شروع کر دی، اتاترک نے اپنے فوجیوں کوگھبرائے ہوئے دیکھا تو وہ مورچے سے نکلے اور ٹہلتے ٹہلتے پانچ فٹ اونچی دیوار پر چڑھ کر بیٹھے گئے۔
انھوں نے ٹانگ کے اوپر ٹانگ چڑھائی، جیب سے سگریٹ نکالا، سلگایا اور اطمینان سے سگریٹ پینے لگے، برطانوی فوجی انھیں اپنے جہاز سے دیکھ رہے تھے، انھوں نے انھیں ٹارگٹ کیا اور ان کی طرف گولہ داغ دیا، گولہ اتاترک سے دو سو گز کے فاصلے پر گرا، بارود، پتھر اور مٹی اڑی لیکن اتاترک اطمینان سے سگریٹ پیتے رہے، اگلا گولہ ان سے سو فٹ کے فاصلے پر پھٹا لیکن وہ اطمینان سے سگریٹ پیتے رہے، تیسرا گولہ ان کے سر کے اوپر سے ہوتا ہوا ان کی پشت پر پچاس فٹ کے فاصلے پر گرا۔
ایک دھماکا ہوا اور اتاترک دھویں اور غبار میں گم ہو گئے، ان کے ساتھیوں کو محسوس ہوا کرنل مصطفی پاشا شہید ہو چکے ہیں لیکن جب دھواں ختم ہوا تو جوان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے اتاترک دیوار پر بیٹھ کر اسی طرح سگریٹ پی رہے ہیں، مصطفی کمال نے سگریٹ کا ٹوٹا نیچے پھینکا، اسے جوتے سے بجھایا، قہقہہ لگایا اور اپنے مورچوں کی طرف واپس چل پڑے، وہ مورچوں کے پاس پہنچ کر جوانوں سے بولے "میں تم لوگوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں اگر اللہ تعالیٰ کو منظور نہ ہو تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو مار نہیں سکتی" وہ رکے اور دوبارہ بولے "اور میں آپ کو یہ بھی بتا دوں موت صرف ایک بار آتی ہے، بار بار نہیں آتی چناں چہ ڈرنا اور گھبرانا بند کر دو"۔
اتاترک کے ان دو فقروں نے جادو کا کام کیا، ترک جوانوں نے حوصلہ پکڑا اور اپنے سے کئی گنا بھاری لشکر سے بھڑ گئے اور گیلی پولی برطانوی فوجیوں کا قبرستان بن گیا، یہ وہ فتح تھی جس نے مصطفی کمال پاشا کو بین الاقوامی لیڈر بنا دیا، 1921میں عثمانی خلافت ختم ہو گئی اور دنیا کی بڑی طاقتوں نے ترکی کو آپس میں تقسیم کرنا شروع کر دیا، اس وقت اتاترک نے نعرہ لگایا "میں ترک ہوں اور ترکی کے مقدر کا فیصلہ میں نے کرنا ہے" اس نعرے کے بعد انھوں نے ترک قوم کو اٹھایا اور ترکوں نے آزادی حاصل کر لی۔
قائداعظم محمد علی جناح اتاترک سے متاثر تھے، پاکستان بنا تو قائداعظم نے ملک فیروز خان نون کو اپنا نمایندہ بنا کر ترکی بھجوایا، نون صاحب نے اتا ترک کا ایک قریبی دوست اور مشیر تلاش کیا اور ان سے پوچھا "ہم پاکستان کو ایک جدید اور کام یاب ملک کیسے بنا سکتے ہیں؟ " اتاترک کے دوست نے فیروز خان نون کو دو مشورے دیے، میں آج یہ سمجھتا ہوں اگر ہم نے 1947-48 میں ان دونوں مشوروں پر عمل کیا ہوتا تو آج کا پاکستان ایک مختلف پاکستان ہوتا۔
انھوں نے کہا، ہمیں اتاترک کہا کرتے تھے، کسی بھی انقلاب کے بعد پہلے دو سال بہت اہم ہوتے ہیں، آپ شروع کے دو برسوں میں ملک کو جو بنیاد فراہم کر دیں ملک اس کے بعد اس کے مطابق چلتا ہے، میرا آپ کو بھی مشورہ ہے آپ یہ دو سال ضایع نہ ہونے دیں، آپ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں آپ پہلے دو برسوں میں کر لیں، دو برس بعد لوگوں کا جذبہ ٹھنڈا پڑ جائے گا اور یہ آپ کو پھر کچھ نہیں کرنے دیں گے اور دو، سر آپ اپنے سارے فیصلے خود کریں، کسی دوسرے ملک، کسی دوسری طاقت کو فیصلے نہ کرنے دیں، آپ کام یاب ہو جائیں گے۔
فیروز خان نون نے واپس آ کر یہ دونوں مشورے قائداعظم کے گوش گزار کر دیے لیکن افسوس قائداعظم علیل ہو گئے اور یہ بعدازاں انتقال فرما گئے ورنہ شاید ہم دو سال میں ملک کا آئین بھی بنا لیتے اورملک کی سمت بھی درست کر لیتے، ہم اگر آج پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ہمیں محسوس ہوگا ہم اس ملک میں دو بڑی غلطیاں کرتے رہے ہیں، پہلی غلطی اس ملک کی بنیاد تھی، ہماری بنیاد میں کنفیوژن ہے، ہم نے ملک کی بنیاد اور بقا دونوں کو بھارت دشمنی سے وابستہ کر دیا اور ہم دو باتیں بھول گئے۔
انسان مذہب بدل سکتا ہے لیکن یہ ہمسایہ نہیں بدل سکتا اور دوسرا نفرت وہ آگ ہوتی ہے جو دوسروں کو بعد میں اور اپنے آپ کو پہلے جلاتی ہے اور ہم اپنے آپ کو جلاتے چلے گئے، آج حالت یہ ہے اگر عمران خان دہلی جا کر نریندر مودی سے ہاتھ ملا لیں یا نریندر مودی اسلام آباد آ کر عمران خان سے گلے مل لیں پورے ملک میں عمران خان کے خلاف پوسٹر لگ جائیں گے، یہ عرش سے فرش پر آ جائیں گے جب کہ دنیا میں عرب اسرائیل سے معاہدے کر رہے ہیں اور روس اور امریکا بھائی بھائی بن رہے ہیں اور کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ دوسرا ہم نے اپنا ہر فیصلہ دوسروں کے ہاتھ میں دے دیا۔
آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے، ہم نے آج تک کون سا فیصلہ خود کیا ہے؟ ہماری حالت یہ ہے ہم میاں نواز شریف کو بھی سعودی عرب اور امریکا کے کہنے پر ملک سے باہر بھجواتے ہیں اور امریکا اور برطانیہ کے حکم پر بے نظیر بھٹو کو واپس آنے اور الیکشن لڑنے کی اجازت دیتے ہیں، ہم ایف اے ٹی ایف کے حکم پر حافظ سعید کے مدارس بند کرتے ہیں اور آئی ایم ایف کی ہدایت پر بجلی، گیس اور پٹرول کے ریٹس طے کرتے ہیں چناں چہ ہم پھنس گئے ہیں اور ہم مزید پھنستے چلے جا رہے ہیں۔
میں بقراط یا سقراط نہیں ہوں، میں صرف اور صرف ایک عام انسان ہوں، اللہ نے کرم کیا اور مجھے پڑھنے اوردنیا دیکھنے کی توفیق دے دی چناں چہ میں اپنے محدود علم کی بنیاد پر ریاست پاکستان سے چند درخواستیں کرنا چاہتا ہوں، میرا خیال ہے ہم اگر یہ کام کر لیں گے تو ہمارا باقی سفر اچھا کٹ جائے گا۔ میری پہلی درخواست، آپ یہ یاد رکھیں دنیا کی بڑی سے بڑی ریاست بھی مستقل جھگڑے برداشت نہیں کر سکتی اور ہم نے 73برسوں سے باہر اور اندر دونوں جگہوں پر محاذ کھول رکھے ہیں، ہم یہ فیصلہ کر لیں ہم 20 سال تک باہر اور اندر کوئی جنگ نہیں لڑیں گے، چین نے 41برسوں سے کوئی جنگ نہیں لڑی، اس نے تائیوان کے ایشو پر بھی گھوڑے نہیں کھولے۔
بھارت اور روس کے ساتھ اس کے اختلاف ہیں لیکن چین کبھی جھڑپوں سے آگے نہیں بڑھا، اس نے ملک کے اندر بھی قومیت کو ہوا نہیں لگنے دی چناں چہ یہ آج سپر پاور ہے، ہمیں بھی یہ پالیسی اپنا لینی چاہیے۔ دوسری درخواست، یہ ملک فوج کے بغیر بچ نہیں سکتا اور جمہوریت کے بغیر چل نہیں سکتا، ہمیں یہ حقیقت اب مان لینی چاہیے، فوج اس ملک کی بقا کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنی چین کے لیے سوشلسٹ پارٹی اگر سوشلسٹ پارٹی ختم ہو جائے گی تو چین ختم ہو جائے گا، بالکل اسی طرح جس دن ہم نے فوج ختم کر دی یہ ملک بھی ٹوٹ جائے گا۔
سیاست دانوں کو یہ حقیقت ماننا ہو گی اور فوج کو جمہوریت اور سیاست دانوں کا وجود تسلیم کرنا ہو گا، سیاست دان دل سے فوج کے خلاف بغض نکال دیں اور فوج ملک میں جمہوریت کو پنپنے دے، الیکشن آزاد ہوں اور ان میں اگر کھمبا بھی جیت کر آ جائے تو اسے مان لیں، یہ ملک بچ جائے گا۔ تیسری درخواست، مذہب انسانوں کا ہوتا ہے، ملکوں کا نہیں، حشر کے دن ہم انسانوں نے حساب دینا ہے ملک نے نہیں چناں چہ ہم مذہب کو پرائیویٹ افیئر (ذاتی معاملہ) مان لیں، ملک میں کوئی شخص کسی شخص پر اپنا مسلک تھوپنے کی کوشش نہ کرے۔
ملک کی ساری مسجدیں، مدارس اور درگاہیں ریاست کی ملکیت ہونی چاہییں، سعودی عرب، ایران اور امارات کی طرح خطبات بھی ریاست کے پابند ہونے چاہییں، ہم بچ جائیں گے ورنہ ہم ایک دوسرے کو مسلمان بناتے بناتے ختم ہو جائیں گے۔
چوتھی درخواست ملک میں قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے، ملک کا کوئی ادارہ، کوئی شخصیت قانون سے بالاتر نہیں ہونی چاہیے، ہم چار پانچ قسم کے قوانین کے ہاتھوں بھی مر رہے ہیں۔ پانچویں درخواست، دنیا کا کوئی ملک اینٹی پراگریس اور اینٹی بزنس ہو کر نہیں چل سکتا اور ہم 73 برسوں سے اینٹی بزنس بھی ہیں اور اینٹی پراگریس بھی، ہم ہر اس شخص کو عبرت کا نشان بنا دیتے ہیں جو موٹرویز، انڈر پاسز، میٹروز، ڈیم یا ایئر پورٹ بنانے کی غلطی کربیٹھتا ہے جب کہ ہم میں سے جو شخص کچھ نہیں کرتا وہ ہمارا ہیرو ہوتا ہے، یہ رویہ بھی مزید نہیں چل سکے گا۔
ہمیں یہ بھی بدلنا ہو گا اور چھٹی اور آخری درخواست، ہم پلیز پلیز اپنے فیصلے خود کریں، ہم کب تک دوسروں کے فیصلوں کی فصلیں بوتے اور کاٹتے رہیں گے، آج بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات یو اے ای کرا رہا ہے اور میاں شہباز شریف کو کوئی اور ملک باہر دیکھنا چاہتا ہے، کیوں؟ ہم یہ کب تک کرتے رہیں گے؟ ہمیں اس سے بھی باہر آنا ہوگا، ہم آخر کب تک جہانگیر ترین جیسے مہروں سے حکومتیں بدلتے رہیں گے، ہمیں عثمان بزدار منظور نہیں تو انھیں سیدھا سادا فارغ کریں، یہ کھیل کھیلنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ ملک کو مزید کھوکھلا کر دے گا۔