یہ سب دیکھنے سے تو بچ جاتا!
کبھی کبھی سوچوں، کہاں پھنس گئے، جعلی لوگ، جعلی باتیں، ہر رشتے میں ٹھگ بازیاں، بات بات میں ہیر پھیر، قدم قدم پر فریب، منہ پر کچھ اور، بعد میں کچھ اور، کتنا اچھا ہوتا گاؤں میں ہی رہ جاتے، اس سب سے تو بچ جاتے، 1995ء میں اسلام آباد آئے، کوئی پوچھتا، بڑے فخر سے بتاتے اسلام آباد رہ رہے، سٹرکیں، پارک، قومی اسمبلی، سینیٹ، وزیراعظم ہاؤس، ایوانِ صدر، جہاں جاتے، اچھا لگتا، قومی اسمبلی پریس گیلری میں بیٹھ کر ممبران کی تقریریں سنتے، پھولے نہ سماتے، ایک ایک لفظ سچ لگتا، خیال آتا یہ نہ ہوتے تو ملک کا کیا بنتا، سیاستدان، کھلاڑی، فنکار ہاتھ ملاتے وقت سانسیں پھول جاتیں، مجھے یاد 90 کی دہائی کے آخر میں اسلام آباد، گرد و نواح میں آئے روز فلموں کی شوٹنگز ہوا کرتیں، سارا سارا دن شوٹنگز دیکھتے، ایک بار اداکارہ ریشم گھوڑے سے گری، ساری رات نیند ہمیں نہ آئی، ریمبو، صاحبہ کو آپس میں گپیں مارتے دیکھا، کئی دن خمار میں ہم رہے، شمیم آرا کو سلام کیا، انہوں نے ہاتھ ملا لیا، بے ہوش ہوتے ہوتے بچے۔
ان دنوں مشاعرے ہوا کرتے، شاعروں کو سنتے، مزا آ جاتا، وقت گزرا، فلموں کی شوٹنگز مشاعرے ناپید ہوئے، سیاست میں مزید گھُسے، پردے اُٹھے، چہرے بے نقاب، اصلیتیں ظاہر ہوئیں، پہاڑ نما انسان بونے نکلے، ٹکے سیر بکنے والے بونے، خواہشوں بھرے بونے، چند سالوں میں ہی صورتحال یہ ہوئی اسمبلی، سینیٹ جانے کا سوچ کر ہی کوفت ہونے لگی، کسی فنکشن، تقریب میں جانا مصیبت لگا، یاد نہیں پڑتا گزشتہ دس بارہ سالوں میں کسی بڑے کی کوئی تقریر شوق سے سنی ہو، کسی تقریب میں شروع سے آخر تک بیٹھے ہوں، جو اب بھی یہ کر لیتے ہیں، ان کے حوصلے کو سات سلام، ویسے سنیں بھی کیا، ایک جیسی باتیں، رٹی رٹائی تقریریں، حاصل وصول، نہ کوئی نتیجہ، ابھی کل ہی ایک ٹی وی پروگرام میں بظاہر معقول شخص بلاول کی تقریروں کی تعریفیں کرنے لگا تو ہاسہ نکل گیا، غصے سے بولا "میں نے کوئی لطیفہ سنایا ہے" میں نے کہا "بھائی جان! جو آپ سنا رہے وہ لطیفے سے بھی آگے کی چیز"، اس سے پہلے کوئی جلا بھنا جواب ملتا، صورتحال بگڑتی، میزبان نے وقفہ لیا، جان چھوٹ گئی۔
خود ہی بتائیں، دس سال ہو چکے بلاول بھٹو کو سیاست میں آئے، 10 سالوں میں کیا کِیا، صرف خوبصورت تقریریں، سندھ قبرستان بن گیا، بلاول تقریریں کر رہا، لوگ زندہ درگور ہو گئے، بلاول تقریریں کر رہا، سرے محلوں سے بات منی لانڈرنگ تک آن پہنچی، بلاول تقریریں کر رہا، 10 سالہ سیاست میں دو کام نہ کئے عوام کیلئے، بلاول تقریریں کر رہا، کراچی کوڑے کا ڈھیر، لاڑکانہ گٹر، تھر موت کی وادی، بلاول تقریریں کر رہا، کریڈٹ یہ بینظیر بھٹو کا بیٹا ہوں، کوئی بڑا کام، کوئی کارنامہ، کوئی جدوجہد، کوئی مشقت، کوئی محنت، ناں! یہ نہ پوچھو، بس چپ چاپ سنتے رہو، بلاول تقریریں کر رہا۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی، بتا رہا تھا، موجودہ قیادتوں کو دیکھ لیں، دیکھ، سن کر ہاسہ نکل جائے، پانی اپنے ملک کا پینا نہیں، علاج اپنے ملک میں کروانا نہیں، بچے یہاں پڑھوانے نہیں، جائیدادیں یہاں ہیں نہیں، دعوے ملک سے محبت کے، چالیس چالیس سال ہو گئے ملک و قوم سے چمٹے ہوئے، کوئی ریٹائر ہونے کو تیار نہیں، میاں صاحب کو دیکھ لیں، سپریم کورٹ نااہل کر چکی، صحت کا حال سب کے سامنے، کاش کہہ دیتے، اللہ نے 3دفعہ وزیراعظم بنایا، سپریم کورٹ نے نااہل کر دیا، اب خود کو عوامی قیادت کا اہل نہیں سمجھتا، زرداری صاحب کو لے لیں، چند منٹ سیدھے کھڑے ہونے سے قاصر، چند جملے روانی سے بول نہ پائیں، مائیک پکڑنا پڑ جائے تو ہاتھ کانپنے لگ جائیں مگر سیاست جاری، لیکن یہ بھی سچے، سیاست چھوڑ کر جائیں کہاں، اتنی موجیں بھلا اور کہاں، ہم جیسے چمپو انہیں اور کہاں ملیں گے۔
یہ سیاست ہی جہاں ایسے غلام، غلامیاں کہ عمران خان نے یوٹرن کو جائز قرار دیا، پوری تحریک انصاف یوٹرنوں کے فضائل بیان کرنے لگ گئی، زرداری صاحب نے اپنا نام اٹھارہویں ترمیم رکھا تو پوری پیپلز پارٹی یہی راگ الاپنے لگی، میاں صاحب بیمار کیا ہوئے پوری مسلم لیگ بیمار ہو گئی، ایسی بیان بیازیاں، دھمکیاں، بڑھکیں کہ سوچ کر ہی ہنسی آئے، خود بیماری پر سیاستیں ہو رہیں، کوئی دوسرا بات کرلے تو کہا جائے خوفِ خدا کرو، بیمار شخص کو تو بخش دو، لیکن جہاں گھن آئے جھوٹی سیاست سے، وہاں نفرت محسوس ہو اندھی عقیدتوں سے، سارا قصور لوٹنے والوں کا ہی نہیں، خوشی خوشی لٹنے والے بھی برابر کے حصہ دار، منی لانڈرنگ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد بھی ایک زرداری، سب پہ بھاری کے نعرے مارنے والے موجود، سپریم کورٹ کہہ چکی "آپ نے پارلیمنٹ، عدلیہ، عوام کو بے وقوف بنایا" پھر بھی میاں دے نعرے وجن گے پر بھنگڑے ڈالے جا رہے، پوری دنیا میں ایسی قوم نہ دیکھی، 70سالوں سے چند سوراخوں سے ڈسوا رہی، ماتھے پر شکن تک نہ آئی، تھانے کچہریوں میں جوتے، مہنگائی، بے روزگاری کے ہاتھوں جوتے، چوکوں، چوراہوں پر جوتے، جسموں پر دھوتی، بنیان رہ گئی، پھر بھی ایک زرداری سب پہ بھاری، میاں دے نعرے وجن گے، جھوٹی سیاستیں، جھوٹی تجارتیں، اوپر سے اندھی عقیدتیں، یہی ہونا تھا، جو ہو چکا، جو ہو رہا۔
اکثر سوچوں کسی عام آدمی کو یہ سہولت ہے کہ وہ رائیونڈ محل میں جاکر حمزہ سے ہی مل لے، بلاول ہاؤس جا کر بلاول سے ہاتھ ہی ملا لے، بنی گالہ جا کر عمران خان کی ایک جھلک دیکھ سکے، یہ کیسے عوامی نمائندے، جن کے گھر عوام کیلئے بند، کسی کی مجال نہیں گیٹ سے ایک قدم اندر رکھ سکے، بلکہ گیٹ سے سینکڑوں گز دور روک لیا جائے، مانا سیکورٹی مسائل، مگر سخت چیکنگ الگ، داخلے کی اجازت الگ، یہ چھوڑیں، اب تو عوامی نمائندوں کے جلسے، جلوسوں میں بھی فاصلہ اتنا، کمزور نظر والوں کو نظر ہی نہ آ سکے کہ محبوب قائد کہاں کھڑا، بیٹھا ہوا، پھر عمران خان، آصف زرداری، نواز شریف، کسی سے پوچھ لیں ٹماٹر کتنے روپے کلو، ایک من آٹا کتنے کا، آپ کا گزشتہ ماہ کا بجلی یا گیس کا بل کتنا آیا" مریم، بلاول سے پوچھ لیں، کبھی جمعہ، اتوار بازار کا منہ دیکھا، کچھ خریدا، یہ ہمارے مسائل حل کرینگے، سیاہ تے مٹی، مسائل کا پتا ہو گا تو مسائل حل کرینگے، تقریر نویس عوامی درد بھری تقریر لکھ دیتے ہیں، یہ تقریر ٹھوک دیتے ہیں، اللہ اللہ خیر صلا۔ ذرا اپنے حالات دیکھیں، پچھلی حکومت کے آخری دنوں میں، ایک سہ پہر تصور خانم کو مریم اورنگزیب کے پیچھے بھاگتے دیکھا، جی ہاں، تصور خانم، مریم اورنگزیب کے پیچھے، ہے نا قربِ قیامت کی نشانی، آگے سنیے، جس ملک میں میاں صاحب کی بیماری پر آنسو بہائے جا رہے اسی ملک میں اولمپین منصور احمد علاج کی دہائیاں دیتا مر گیا، روحی بانو پاگل ہو کر گلیوں میں پھرتی رہی، ڈاکٹر انور سجاد، نثار ناسک کے پاس علاج کیلئے پیسے نہیں، یہ سب دیکھ کر رتی بھر دماغ، چند گزی سوچ والا بھی جل جل، کڑھ کڑھ مر جائے، یہ بھی سن لیں، خیبر سے کراچی تک سب میاں صاحب کی بیماری پر متفکر، ایک دنیا ایسے ہال دہائیاں ڈال رہی جیسے حق و باطل کا معرکہ، مگر میاں صاحب کے اپنے جوان بیٹے حسن، حسین لندن میں، سکون ڈاٹ کام، ٹھنڈ پروگرام، اسی لئے تو کہا، گاؤں سے نکلتا نہ اسلام آباد آتا، کم از کم یہ سب دیکھنے سے تو بچ جاتا۔