یادیں ہی یادیں!
رات تیسرے پہر کے ابتدائی لمحے، گاڑی موٹروے پر، اچانک سائن بورڈ پر نظر پڑی، پنڈی بھٹیاں 10 کلومیٹر، مجھ سے رہا نہ گیا، میں نے اگلی سیٹ کو پیچھے کرکے اونگھتے اقبال سلفی صاحب سے پوچھا "کیوں کیا خیال ہے، پنڈی بھٹیاں کا چکر نہ لگا لیں" سالہا سال سے جنات سے لڑائیاں لڑتے اقبال سلفی جو کار کی ہلکی ہلکی روشنی میں اس وقت خود بھی جن ہی لگ رہے تھے، بولے "ہم نے کونسا دفتر پہنچنا ہے، ضرور لگائیں چکر"، میں نے ڈرائیور سے کہا "پنڈی بھٹیاں انٹرچینج سے اتر جانا"، یہ بتاتا چلوں، ہم لاہور میں ایک دوست کے تین بھائیوں کے ولیمے میں شرکت کے بعد واپس آ رہے تھے، چند گھنٹے قبل جب اسلام آباد سے لاہور جا رہے تھے تب تو میں دل پر پتھر رکھ کر پنڈی بھٹیاں سے گزر گیا لیکن واپسی پر دل کے آگے دماغ کی ایک نہ چلی، اقبال سلفی صاحب کا بھی بتاتا جاؤں، لڑکپن یورپ میں گزار کر اور جوانی میں توبہ تائب ہوکر اب دنیا بھر میں اللہ، رسولؐ، قرآن کا پیغام پھیلاتے سلفی صاحب جادو، ٹونے، نظرِبد، جناتی بیماریوں کے روحانی علاج کے ماسٹر، یہودی، عیسائی، ہندو، جنوں سے ان کی دنگل کہانیاں بھی بڑی مزے کی، سلفی صاحب کے مریض دنیا بھر میں، مریضوں میں سیاستدان، بیورو کریٹ، بزنس مین، دانشور ہر مکتبِ فکر کے لوگ، ان کی باقی کہانی پھر کبھی۔
موٹروے سے اتر کر پنڈی بھٹیاں ٹول پلازہ پر رکے تو رات کے ساڑھے 12 بج رہے تھے، پہلے سوچا گاؤں کا چکر لگا لوں، پھر سوچا فون کروں، بہن بھائی، رائے زمان صاحب، چاچا لیاقت، ماسٹر بشیر دیوانہ، ماسٹر اعجاز، طاہر اسحٰق، محمود موہلی، فیض بھٹی سب یاد آئے مگر پھر یہ سوچ کر پنڈ جانے، فون کرنے کا ارادہ ترک کیا کہ آدھی رات، سب سو چکے ہوں گے، ٹوٹی پھوٹی، جا بجا کھڈوں والی سڑک پر تانگے کی رفتار سے گاڑی چلاتے پنڈی بھٹیاں شہر میں داخل ہوئے تو وہی جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر، ریڑھیوں، دکانوں کی تجاوزات سے بھرے فٹ پاتھ، آڑھے ترچھے بجلی کے کھمبے، کھمبوں سے لٹکتی تاریں، 30 سال گزر گئے یہی دیکھتے دیکھتے، پنڈی بھٹیاں پر بھٹیوں، تارڑوں، آرائیوں نے حکومتیں کیں مگر شہر کی حالت نہ بدلی، بلاشبہ تحصیل پنڈی بھٹیاں کے تقریباً ہر گاؤں میں بجلی، گیس پہنچ چکی، مگر شہر کا گندا پن نہ گیا، پورے شہر میں اگر کوئی سرکاری بلڈنگ کل سے آج بہترتو وہ گورنمنٹ ہائی اسکول پنڈی بھٹیاں، لیکن اس کا کریڈٹ پرنسپل رائے زمان صاحب کو جائے، اب تو وہ بھی ریٹائر ہو رہے، اکثر سوچوں ان کے بعد ہمارے اسکول کا کیا بنے گا۔
پنڈی بھٹیاں کا مکمل خاموشی میں ڈوبا مین بازار کراس کیا تو شہر کے اکلوتے چوک کے سامنے "شعلے، کا ہوٹل کھلا نظر آیا، ڈرائیور سے کہا سامنے ہوٹل پر چلو، شعلے کا ہوٹل، یادیں ہی یادیں، اسکول سے آتے جاتے یہاں سے گزرنا، رکنا، بیٹھنا، پہلے شعلے کی یہاں سائیکلوں کی دکان ہوا کرتی، پھر یہ چائے خانہ بن گیا، آج تین منزلہ ہوٹل، ویسے سچی بتاؤں مجھے بھی اس رات پتا چلا کہ"شعلے، کا اصل نام ذوالفقار، شعلہ تخلص، حیرت، پورے علاقے میں تخلص مشہور ہوگیا، اصلی نام گم ہی ہوگیا۔
گاڑی سے اتر کر ہم شعلے کے ہوٹل کے باہر سڑک کنارے کرسیوں پر بیٹھ گئے، تنور پر لگتی روٹیاں دیکھ کر 2روٹیاں اور 3کڑک دودھ پتی کا آرڈر دیا اور شعلے کے چھوٹے بھائی قیصر عباس اور وہاں بیٹھے اکمل شہزاد (جس کا پنڈی بھٹیاں میں ٹائروں کا کاروبار) سے گپ شپ شروع ہوگئی، ماسٹر بشیر دیوانہ کا ذکر چھڑا، اکمل شہزاد نے بتایا تنور والا ان کے محلے کا، میں نے فوراً اسے کہہ دیا دیوانہ صاحب کو میرا سلام دینا، باتوں باتوں میں جب یہ سنا کہ پنڈی بھٹیاں لاری اڈے پر اب بھٹیوں کا قبضہ، بھٹیوں کے علاوہ وہاں کسی اور کی بس یا ویگن کھڑی نہیں ہو سکتی تو دکھ ہوا، مجھے یاد جب غلام مصطفیٰ کھر جنرل ضیاء الحق کے جاں بحق ہونے کے بعد رہا ہوا تو اسی لاری اڈے پر ا س نے جلسہ عام سے خطاب کیا، ہم سب کلاس فیلو چھٹی کے بعد اسکول سے بستے اٹھائے سیدھے جلسہ گاہ آئے، کیا جلسہ تھا، چاروں طرف لوگ ہی لوگ، مجھے اچھی طرح یاد، کالی شلوار قیمص پہنے مصطفیٰ کھر نے جب کہا "ضیاء کہتا تھا کھر ساری زندگی جیل میں سڑے گا، خدا کی قدرت دیکھو وہ کہاں اور میں کہاں" تو ہزاروں لوگوں نے تالیاں بجا بجا، نعرے مار مار کر آسمان سر پر اُٹھا لیا۔
کڑک دودھ پتی کے ساتھ تنور کی کڑک روٹی کھاتے میں نے اکمل شہزاد سے ایسے ہی پوچھ لیا "پنڈی بھٹیاں کا سرکاری اسپتال کیسا جا رہا" بولا "شہباز شریف دور میں بہت اچھا تھا، اب تو برا حال، غریب کی کوئی شنوائی نہیں"، میں نے سوچا یہ لیگی ہوگا، تبھی شہباز شریف کی تعریفیں، اگلا سوال کیا "پچھلے الیکشن میں ووٹ کسے دیا تھا"، کہنے لگا "تحریک انصاف کو، " میں نے حیران ہوکر کہا "پھر یہ مایوسی بھری باتیں کیوں"، جواب آیا "عمران خان کی گورننس سے مایوسی ہو رہی"، اس سے پہلے میں بولتا اقبال سلفی صاحب نے بات شروع کردی کہ مایوسی گناہ، ملک پر مشکل وقت، حالات اچھے ہوں گے، مگر کچھ وقت لگے گا، اقبال سلفی بولے تو میں نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ ایک تو میں سارا دن بول بول کر تھک چکا تھا، دوسرا لاہور کا ولیمہ تو فواد چوہدری کے تھپڑ کہانیوں کی نذر ہوگیا، اب میں یہاں تنور کی کڑک روٹی اور کڑک دودھ پتی کا مزا عمران خان گورننس کی نذر نہیں کرنا چاہتا تھا، لہٰذا میں نے سر جھکایا، سارا دھیان دودھ پتی، روٹی پر کیا اور پھر اگلے 15 منٹ ہوں، ہاں کے علاوہ ایک لفظ نہ بولا۔
روٹی ختم ہوئی تو ایک کڑک دودھ پتی کا کپ اور پیا، گھنٹہ بھر سڑک کنارے بیٹھ کر گپیں ماریں، پرانی یادیں تازہ کیں اور پھر سوا دو بجے کے قریب نہ چاہتے ہوئے، خالی سڑکیں، بند دکانیں مطلب سوئے سوئے پنڈی بھٹیاں پر الوادعی نظر مارکر گاڑی میں بیٹھا، گاڑی دوبارہ موٹروے پر، منہ طرف اسلام آباد، یقین مانیے پنڈی بھٹیاں میں گزرے ان پونے دو گھنٹوں نے نہ صرف اس رات پورے دن کی تھکن اتار دی بلکہ تنور کی روٹی اور دودھ پتی کا ذائقہ ابھی تک منہ میں موجود۔