ازبکستانی گلنارا سے پاکستانی گلنارا تک!
تھوڑی سی توجہ، کہانی اپنی اپنی لگے گی، جانی پہچانی سی، کہانی شروع کرتے ہیں اسلام کریموف سے، ثمر قند قبیلے سے، یتیم خانے میں پلے بڑھے، کمیونسٹ پارٹی کے فرسٹ سیکریٹری بنے، پارٹی پر قبضہ کیا، روس ٹوٹا، بروقت چالیں چلیں، ازبکستان کو آزاد کروا کر فادر آف نیشن کہلائے، ازبکستان کے پہلے صدر بنے، 95 میں ریفرنڈم کروا کر دوبارہ صدر بن گئے، ازبک آئین، ایک شخص دوبار ہی صدر بن سکے، اسلام کریموف نے آئین میں تبدیلی کی، مرتے دم تک صدر رہے۔
اسلام کریموف کی دو بیٹیاں، گلنارا، لولا کریمووا لیکن فیشن ڈیزائنر، پوپ اسٹار اسٹائل کی حامل "ازبکستان کی شہزادی، کے نام سے مشہور گلنارا باپ کی جانشین، ہر لمحے ٹویٹر پر متحرک گلنارا غصیلی ایسی، سگی بہن سے بول چال بند، ماں سے تعلقات کشیدہ، افغان نژاد امریکی شہری منصور مقصودی سے پسند کی شادی کر کے علیحدہ ہو چکی، مگر ذاتی زندگی کی ناکامیوں کے باوجود گلنارا کامیاب بزنس ویمن، کئی ممالک میں کاروبار، ملک کی مشہور ترین شخصیت، کئی میڈیا ہائوسز میں سرمایہ کاری، سماجی کاموں میں آگے، لہٰذا ہر وقت خبروں میں رہتی، پورے ملک میں اس کے گن گائے جاتے، چاروں جانب دھوم مچی ہوئی۔
پھر ایک دن ازبکستان کی حزبِ اختلاف نے گلنارا کی کرپشن، منی لانڈرنگ کے اسکینڈلز عوام کے سامنے رکھ دیئے، گلنارا مکر گئی، صدر اسلام کریموف سے تحقیقات کا مطالبہ ہوا، عوامی دباؤ بڑھا، باپ نے آزادانہ احتساب کا وعدہ کیا، بیٹی کو گھر میں نظر بند کیا، تحقیقات شروع کروا دیں، اسی دوران اسلام کریموف بیمار پڑے، ایک روز دماغ کی شریان پھٹی، برین ہیمرج ہوا، اسپتال، کومہ، حالت نازک سے نازک ترین اور پھر 78 سالہ اسلام کریموف 27 سالہ اقتدار کے بعد انتقال کر گئے، اِدھر صدر نے آخری سانسیں لیں، اُدھر گلنارا کے احتساب کا عمل تیز، تحقیقات کا دائرہ وسیع ہوا، کرپشن، منی لانڈرنگ، فراڈ کے ثبوت ملے، خاندان والوں نے آنکھیں پھیریں، باپ کے قریبی ساتھی پیچھے ہٹے، گلنارا کے حمایتی میڈیا ہائوسز بدعنوانیوں میں ملوث پائے گئے، مقدمات قائم ہوئے، گلنارا کے بزنس پارٹنر، بوائے فرینڈ، رستم مادوعمروف کو گرفتار کر لیا گیا، گلنارا کا ٹویٹر اکاؤنٹ بند کر دیا گیا، تحقیقات اور آگے بڑھیں، کرپشن کی مزید الف لیلہ داستانیں نکلیں، گلنارا کو گھر سے جیل منتقل کر دیا گیا، احتساب کا عمل سخت ہوا، تحقیقات کا دائرہ امریکہ، سوئٹرز لینڈ، سویڈن، نیدر لینڈ تک جا پہنچا اور پھر چند دن پہلے گلنارا نے حکومت کو ایک ارب 20 کروڑ ڈالر دے کر رہائی کی درخواست کردی، اپنے انسٹا گرام پیغام میں گلنارا نے قوم سے معافی مانگتے ہوئے کہا "مجھے معاف کردیں، میں نے آپ کو مایوس کیا"۔
اس ازبک کہانی میں بہت کچھ پاکستان جیسا، جیسے گلنارا کاباپ اسلام کریموف قانون میں تبدیلی کر کے تیسری بار اقتدار میں آیا، جیسے گلنارا ازبک سربراہ کی بیٹی، اسکی سیاسی جانشین، سوشل میڈیا پر متحرک، میڈیا ہاؤسز مٹھی میں، باپ کے عہدے، اختیارات کا ناجائز استعمال، کرپشن الزامات لگنا، مکرجانا، جھوٹ بولنا، جائیدادوں کا نکل آنا، ٹویٹر پیغامات سے سیاسی مخالفین، ملکی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانا، اپنے خاندان سے تعلقات کشیدہ ہونا اور جیل جانا، ازبک گلنارا کا بہت کچھ پاکستانی گلنارا سے ملتا جلتا، مگر جو ازبکستان میں ہوا، پاکستان میں نہیں ہوا، وہ یہ جب بیٹی پر کرپشن الزامات لگے، صدر اسلام کریموف نے اپنی جانشین بیٹی کو نظر بند کر کے تحقیقات شروع کروا دیں، یہ نہیں ہوا کہ اسلام کریموف نے جھوٹ پہ جھوٹ بولے، جھوٹی تقریریں جھاڑیں، جب کرپشن ثبوت ملے تو اپنی پارٹی کی حکومت نے گلنارا کو جیل میں ڈال دیا، یہ نہیں کہ پوری پارٹی کرپشن کے دفاع میں ڈٹ گئی، پھر نظر بندی، جیل سے ریکوری تک، ازبکستان میں جی ٹی روڈ مارچ ہوئے نہ عوامی عدالتیں لگیں، ججز پر چڑھائیاں ہوئیں نہ فوج کی کردار کشیاں ہوئیں، نظام خطرے میں پڑا نہ جمہوریت کی دیواریں گریں، پارلیمنٹ کی بے عزتی ہوئی نہ اٹھارہویں ترمیم تھرتھر کانپی، پرنٹ میڈیا نے ضمیمے چھاپے نہ الیکٹرونک میڈیا نے میراتھن کوریج کی، ازبک عدالتوں نے گلنارا کو عورت سمجھ کر خصوصی رعایتیں دیں نہ ضمانت ملی، لہٰذا نتیجہ سامنے، ازبکستان نے گلنارا سے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر نکلوا لئے، پاکستان کو اپنی گلنارا سے چار آنے نہ ملے۔ یہاں چار آنے ملتے بھی تو کیسے، نظام کرپٹ، قوم کی نظر میں کرپشن جرم نہیں، کرپٹوں کا دفاع کرنے والے غلام موجود، قانونی سقم، پروڈکشن مزے، جمہوریت کے نام پر مکاریاں۔ ذرا اپنے احتساب کو تو دیکھیں، ڈاکٹر عاصم پر اربوں کے الزامات، جائیدادیں بیٹے کے نام کر کے خود ضمانت پر بیرون ملک، شرجیل میمن، اربوں کی مبینہ ہیرا پھیریاں، وی آئی پی جیل کاٹ کر ضمانت پر، شہباز شریف جیل میں تھے، پی اے سی چیئرمین بنے، احتساب عدالت انہیں بلاتی رہی، وہ منسٹر کالونی میں فزیوتھراپیاں کرواتے رہے، اب خیر سے ضمانت پر، حمزہ گرفتار ہو کر بھی سارا سارا دن اسمبلی میں، بے بس نیب کہے ہمیں وقت ہی نہیں ملتا تفتیش کا، زرداری صاحب ائیرکنڈیشن کمرا، ہر سہولت میسر، گھر کے کھانے، ملاقاتوں کی آزادی، شوگر، بلڈ پریشر چیک کرنے کیلئے ہر لمحہ نرس، جب چاہیں چہل قدمی کریں، اب خیر سے 6قائمہ کمیٹیوں کے ممبر، مطلب اِدھر اسمبلی اجلاس ختم اُدھر قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس شروع، یعنی وہ زیادہ تر شہباز شریف کی طرف سے بلاول کو دیئے گئے اسمبلی چیمبر میں پائے جائیں گے، مریم نواز ضمانت پر، پورے ملک کو آگے لگایا ہوا، نواز شریف، شاہانہ مزاج، شاہانہ ماحول، بھانت بھانت کی سہولتوں سے بھری جیل، فریال تالپور کا گھر جیل، آجکل سندھ اسمبلی میں پروڈکشن مزے لوٹ رہیں، سراج درانی نیب ریمانڈ والے دنوں میں بھی پروڈکشن گھوڑے پر آتے، اسپیکر کرسی پربیٹھتے، ان کیلئے پہلے اسمبلی چیمبر سب جیل، اب گھر سب جیل، خواجہ سعد رفیق گاہے گاہے پروڈکشن آرڈر پر اسمبلی آئیں، سرکاری خرچ پر قوم کو بھاشن دیں، اندازہ کریں ملزم گرفتار ہوکر نیب ریمانڈ پر، مگر پریس کانفرنسیں ہو رہیں، ٹی وی انٹرویو دیئے جا رہے، قصہ مختصر، ہرکوئی حسبِ توفیق احتساب کو چھتر مار رہا۔
اور ہاں اسحٰق ڈار، حسن، حسین، سلمان شہباز، علی عمران، پرویز مشرف، حسین حقانی، نجانے کون کون، کہاں کہاں انجوائے کررہے، عدالتیں بُلا بُلا تھک گئیں، اب بھلا بتائیں، اس مذاقیہ قانون، کمی کمین معاشرے، دوفیصد کو انڈے بچے دیتی مخولیا جمہوریت میں چارلس سوبھراجوں، جیرے بلیڈوں، سلطانہ ڈاکوؤں، الکپونوں، گاڈ فادروں کا کیا خاک احتساب ہوپائے گا، یہاں گلنار ہو گلنارا، صاحب ہو صاحبہ، ڈاکو رانی ہو یا ڈاکو راجہ، کسی کا کچھ بگاڑا جاسکتا ہے نہ کسی سے کچھ نکلوایا جاسکتا ہے۔