پہلے لگتا تھا تم ہی دنیا ہو
بڑے عرصے بعد شیخو ہتھے چڑھا، علیک سلیک سے چھوٹتے ہی پوچھ لیا، وزیراعظم کی زبان کو کیا ہوگیا، معیشت کی طرح آؤٹ آف کنٹرول، بولا "تمہارا قصور نہیں، بندے کے ہاتھ میں ہتھوڑی ہو تو ہر مسئلہ کیل ہی نظر آتا ہے"۔ حیران ہو کر کہا، سوال گندم، جواب چنا، یہ بات کاٹ کر بولا "تمہیں دیکھ کر کمزور نظر والی وہ خاتون یاد آئے جو جب بھی اپنا وزن چیک کرتی 68 کلو ہوتا، ایک دن وزن چیک کرتے ہوئے عینک لگا کر دیکھا اور جب وزن 88 کلو نکلا تو بولی " اف اللہ! عینک کا وزن 20 کلو"۔ میں نے کہا: آپ تو مائنڈ کرگئے، کہتا صرف یہ بلاول کو صاحبہ کہہ دینا، جاپان کی سرحدیں جرمنی سے ملادینا، پاکستان میں ایک بلین درخت، چین میں جا کر کہہ دینا "5 بلین درخت لگادئیے"۔ وزیراعظم یہ کہے تو۔ ۔ ۔ شیخو نے پھر میری بات کاٹی، طنزیہ لہجے میں بولا "کتنے میسنے معصوم، جابر، مجبور، ظالم، مسکین لگ رہے ہو، تم وہ مکھی جو سارا صحت مند جسم چھوڑ کر زخم کے گرد منڈلاتی رہے، تم جیسے کبھی کسی سے مطمئن، خوش نہیں ہو سکتے، ویسے تم جیسوں کو خوش رکھنا ایسے ہی جیسے زندہ مینڈکوں کو تولنا، ایک کو ترازو میں بٹھاؤ، دوسرا ترازو سے کود جائے"۔
شیخو چپ ہوا تو میں نے کہا "ایک میاں بیوی کی لڑائی ہو گئی، آدھا دن چپ رہ کر بیوی میاں سے بولی: دیکھئے جی، ختم کریں یہ لڑائی، تھوڑا سا آپ سمجھوتہ کر لیں، تھوڑا سا میں سمجھوتہ کر لیتی ہوں" یہ سن کرمیاں نے کہا "کیا مطلب، مجھے کیا سمجھوتہ کرنا، تم کیا سمجھوتہ کروگی" بیوی بولی"آپ یہ سمجھوتہ کرو کہ معافی مانگ لو، میں یہ سمجھوتہ کر لیتی ہوں کہ آپ کو معاف کردوں گی"۔ شیخو پھر میری بات کاٹ کر بولا "اِس ٹھنڈے لطیفے کا مطلب؟" میں نے کہا: ٹھنڈے لطیفے کو چھوڑیں، آپ کو بار بار بات کاٹتے دیکھ کر وہ میراثی یاد آرہا جو سمندر کنارے پانی میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھا تھا کہ ایک تیز لہر آئی اور اُسے بہا کر لے گئی، غوطے کھاتے میراثی نے دل ہی دل میں کہا "یا اللہ آج بچالے، میں تیرے نام کی دیگ دوں گا" یہ سوچنے کی دیر تھی، مخالف سمت سے لہر آئی اور میراثی ساحلِ سمندر پر، جیسے ہی اُس کے اوسان بحال ہوئے تویہ بڑبڑایا " کہیڑی دیگ، کونسی دیگ" ابھی اُس نے یہ کہا تھا کہ ایک اور تیز لہر آئی اور پھر وہ سمندر کے اندر، اگلے ہی لمحے باآواز بلند بولا "اللہ میاں میری پوری گل تے سن لیندے، میں تاں پچھ رہیا سی، کہیڑی، کونسی مطلب مِٹھی دیگ یا نمکین"۔
جواب دینے کے بجائے میری بات سنی اَن سنی کر کے جب شیخو شانِ بے نیازی سے سگار سلگانے لگا تو میں نے کہا "کچھ لوگ ہوں دال چاولوں جیسے لیکن نخرے بریانی والے" سگار سلگاتے سلگاتے شیخو رک کردرشت لہجے میں بولا "کچھ لوگ عمر بھر danger کو پڑھیں ڈنگر، مگر خود کو سمجھیں ارسطو"، یہ سن کر میں نے کہا"چونکہ اپنے بابا جی نے کہہ رکھا بیٹا سیدھی انگلی سے گھی نہ نکلے تو گھی کے ڈبے کو گرم کرلو" لہٰذا No بحث، غصہ، چلو یہی بتا دیں آپ 9 ماہ کی حکومتی کارکردگی سے مطمئن، شیخو سگار کا کش مار کر بولا"اگر خان کی حکومت پی پی اور لیگی حکومتوں سے پہلے ہوتی تو آج ملک ایشین ٹائیگر بن چکا ہوتا، اِن دونوں پارٹیوں نے ملک کا سوا ستیاناس کر کے حوالے کیا، کچھ وقت تو لگے گا"، میں نے کہا "آپ کی بات سن کر وہ گل خان یاد آئے، جس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو نومولود کو اُٹھا کر، چومنے کے بعد بولا "خانہ خراب کے بچے اگر ایک سال پہلے پیدا ہو جاتا تو اپنے امی، ابو کی شادی بھی دیکھ لیتا"۔
اِس سے پہلے شیخو کوئی بھڑکیلا سا جواب دیتا، میں نے اگلا سوال کر ڈالاعمران خان نے تو کہا تھا قرضہ نہیں لوں گا، آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے خود کشی کرلوں گا، اقتدار میں آکر پٹرول، گیس، بجلی سستی کروں گا، ڈالر مہنگا نہیں ہونے دوں گا، الیکٹ ایبلز اور آزاد ممبران نہیں لوں گا، میٹرو جنگلا بس نہیں بناؤں گا، پروٹوکول لوں گا نہ لینے دوں گا، وزیراعظم ہاؤس لائبریری، یونیورسٹی، گورنر ہاؤس تعلیمی درسگاہیں بنا دوں گا، مختصر ترین کابینہ رکھوں گا، جس پر کوئی الزام ہوگا اُسے عہدہ نہیں دوں گا، ہیلی کاپٹر کے بجائے ہالینڈ کے وزیراعظم کی طرح سائیکل پر سفر کروں گا، عوام سے جھوٹ نہیں بولوں گا، جو حلقہ کہیں گے، کھول دوں گا، 50 لاکھ گھر، کروڑ نوکریاں، نیا صوبہ اور بہت کچھ، وہ سب کہاں گیا؟ ویسے اب تو کل اور آج کے عمران خان کو دیکھ کر یہ شعر یاد آئے
پہلے لگتا تھا تم ہی دنیا ہو
اب یہ لگتا ہے تم بھی دنیا ہو
سب سن کر خلافِ معمول شیخو سکون سے بولا"بڑے لیڈر حالات دیکھ کر اپنی حکمت عملی بنائیں، تبدیل کریں، اصل مقصد، منزل پر پہنچنا، حکمتِ عملی کے تحت رستہ بدل لیا جائے تو کیا ہرج۔ خان نے رستہ بدلا، منزل نہیں، سب وعدے پورے ہوں گے، کیسے، کب تک، یہ اگلی ملاقات پر، آج ایک ڈنر پر جانا اور ہاں تم چونکہ ہر وقت خوابوں کی دنیا میں رہتے ہو، لہٰذا تمہارے لئے عرض ہے کہ ایک سیٹھ نے خواب میں لڑکی کو چھیڑا، لڑکی نے خوب جوتے مارے لیکن سیٹھ اگلے ایک ہفتہ بینک نہیں گیا، کیوں، اس لئے کہ سیٹھ نے بینک کے دروازے پر یہ لکھا پڑھ رکھا تھا کہ "ہم آپ کے خوابوں کو حقیقت میں بدلتے ہیں"۔ یہ کہہ کر شیخو ہنسا اور اکیلا ہنس کر جانے کیلئے اُٹھا تو میں نے کہا "سر ایک مشورہ بلکہ مفت مشورہ"، بادلِ نخواستہ رک کر بڑی ناگواری سے بولا "عنایت فرمائیں"، میں نے کہا "پہلے جب بھی کوئی بات ہوتی تھی تو آپ یہ کہہ کر ہمیں تسلیاں دیا کرتے تھے کہ فکر نہ کرو جب اوپر عمران خان ہوگا تو نیچے جو بھی ہوں گے کوئی فرق نہیں پڑے گا، اب یہ کہہ کر ہمیں کون تسلیاں دیا کرے، جب نیچے سارے ہی نااہل، نکمے ہوں گے تو اوپر اکیلا عمران خان کیا کرے گا"۔ یہ سن کر شیخو منہ بگاڑ، ناک چڑھا کر بولا "بس، یا کچھ اور" میں نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے کہا "بس، یہی کہنا تھا" ایک چبھتی نگاہ مار کر شیخو بڑبڑاتا ہوا گاڑی میں بیٹھا، زور سے دروازہ بند کیا اور یہ جا وہ جا۔