آف شور محبتیں
جیسے میاں نواز شریف کا ’’مالی دفاع‘‘ کمزور تھا ویسے ہی عمران خان کا ’’اخلاقی دفاع‘‘ بھی کمزور، کل اور آج کا سوچ کر اور دونوں حضرات کو دیکھ کر بے اختیار منیر نیازی یاد آجائیں:۔
کجھ اُنج وی راہواں اوکھیاں سن
کجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
مجھے جھٹکا لگا، یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے کچی نیند سے جگا دیا ہو، میں نے بے چینی سے پہلو بدل کر کہا ’’آپ کا یہ کہنا کہ عائشہ گلالئی کئی ماہ سے رابطوں میں تھی، جو کچھ ہوا پہلے سے طے اور بس مناسب موقع کا انتظار ہو رہا تھا‘ مجھے تو یہی ہضم نہیں ہو رہا، اوپر سے آپ یہ بھی کہہ رہے کہ چالیس 45 بڑوں کی ’’خفیہ محبتوں‘‘ کا نہ صرف آپ کو علم بلکہ ان کے موبائل میسجز تو ایسے کہ کپتان تو ’’شریف بچے‘‘ یہ سن کر وہ ہنس کر بولے ’’اس میں حیرانی یا اچنبھے کی کیا بات بھئی ہمارے ہاں جب آف شور محبتوں کی داستانیں منظرِ عام پر آئیں گی تو لوگ آف شور کمپنیوں کی کہانیاں بھول جائیں گے، سفید پوش بے نقاب ہوں گے، پارساؤں کے راز فاش ہوں گے اور نیکوکاروں کی اصلیت کھل جائے گی اور یہ تو ایسی کہ کسی جے آئی ٹی کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی، جیسے وہ صاحب جو بیٹے کی منگیتر سے خفیہ شادی کر چکے، وہ وزیر جنہوں نے سابق ایم این اے سے خفیہ نکاح کیا ہوا، وہ لیڈر جن کی 2 خفیہ بیویاں، وہ رہنما جو نکاح خواں کے ہاتھوں ایسے بلیک میل ہو چکے کہ اسے 10 مرلے کا گھر خرید کر دینا پڑا، یہ تو چند مثالیں، ایسی اور بھی بہت، لیکن دوستو بات آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتا دوں کہ پچھلے 3 گھنٹوں سے میں اپنے اُس مہربان کے ساتھ ان کے فارم ہاؤس پر تھا کہ جو 5 سال تک ہمارے ملک کے سیاہ وسفید کے مالک رہے، جو ایک دہائی تک ہر اہم فیصلے میں شریک تھے، جن سے ہاتھ ملا کرہی بڑے بڑے خوشی سے پھولے نہ سماتے اور جن کی دوستیاں آ ج بھی عرب ممالک سے امریکہ تک پھیلی ہوئیں۔ گرمیوں کی حبس زدہ رات دوسرے پہر کے آخری لمحوں میں اب خوشگوار محسوس ہور ہی تھی، انواع و اقسام کے پھولوں، پھلدار پودوں، سبزیوں سے لدے اور امریکی گھاس سے لبالب بھرے سرسبز وشاداب فارم ہاؤس کے لان میں ڈنر کرنے، قلفیاں کھانے اور قہوہ پینے کے بعد دودھ پتی کا دور چل رہا تھا، چائے میں دیسی شکر ڈالتے اپنے میزبان سے جب میں نے پوچھا کہ ’’گلالئی کہانی کا Endکیا ہوگا‘‘ تو گزرے کل کا یہ بے تاج بادشاہ بڑی سنجیدگی سے بولا ’’اس بحث میں الجھے بنا کہ گلالئی کہانی میں کتنی صداقت اور کتنی افسانہ نگاری اور اس چکر میں پڑے بغیر کہ یہ باہمی رضا مندی تھی یا ون وے ٹریفک، یہ اِک حقیقت کہ اب اس معاملے کو بنیاد بنا کر سب عمران خان کو گھیر کر نااہل کروانے کی کوشش کر رہے، لہٰذا مجھے یہ معاملہ اتنی آسانی سے ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ عمران خان کو کسی انجام تک پہنچائے بغیر کوئی چین سے نہیں بیٹھے گا، جونہی وہ خاموش ہوئے تو میں نے سوال کیا ’’عمران خان نااہل ہو جائیں گے‘‘ وہ چائے کا ایک بڑا سا گھونٹ بھر کر بولے ’’دیکھئے وہ شخص جس نے پورے نظام کو چیلنج کر رکھا ہو، جو پورے سسٹم کا مشترکہ دشمن ہو، اسے نااہل ہونے سے بھلا کون روک سکتا ہے، آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں یہ ہوگا اور اب تو اس کی اپنی پارٹی کے وہ لوگ جو اس کے دائیں بائیں کھڑے ہوتے ہیں، ان کی بھی یہی خواہش، پھر یہ بھی مت بھولئے کہ عمران خان کا سب سے بڑا دشمن عمران خان اور ابھی تک عمران خان کو سب سے زیادہ نقصان بھی عمران خان نے ہی پہنچایا اور پھر عمران خان ابھی تک کرکٹر عمران خان اور سیاستدان عمران خان کے درمیان حد بندی نہیں کر پائے، یہی نہیں اوپر سے وہ روایتی سیاستدان نہیں، انہیں سیاست کے داؤ پیچ نہیں آتے، لہٰذا آئے روز وہ بونگیاں مارتے اور ان میں پھنستے رہیں گے، مانا کہ وہ کرپٹ نہیں، وہ محبِ وطن اور اپنے مقصد سے مخلص ایک انتھک انسان، مگر ہماری سیاست میں اسکے علاوہ بھی کچھ لوازمات ہوتے ہیں اور عمران خان ان سب لوازمات سے عاری، سونے پہ سہاگہ ان کی زبان درازی اور احسان فراموشی، مشکلیں تو پیدا ہوں گی‘‘ ان کی بات مکمل ہوئی تو میں نے پوچھ لیا ’’آپ تو میاں نواز شریف سے بھی بہت دفعہ ملے، انہیں کیسے پایا‘‘ بولے ’’سیاسی طور پر تو وہ انتہائی زیرک اور عقلمند، مگر ان کا مسئلہ یہ کہ وہ جان بوجھ کر فیصلوں میں تاخیر کریں، وہ ضدی ہو گئے، مَیں مَیں میں ڈوب چکے اور ان کے خانے Fixedہو چکے‘‘ وہ رُ ک کر کپ میں گرم چائے ڈالنے لگے تو میں نے اگلا سوال کر دیا ’’مستقبل کیسا دکھائی دے رہا ہے‘‘ کہنے لگے ’’سیاسی طور پر جہاں مجھے شریف خاندان، عمران خان اور زرداری صاحب کا ابThe end دکھائی دے رہا، وہاں مجھے ملکی تاریخ کا سنگین ترین معاشی بحران بھی نظر آرہا، اللہ کرے میں غلط ہوں مگر مجھے حالات خراب سے خراب تر ہوتے لگ رہے، بدقسمتی یہ بھی کہ ہمارے دشمن تو اکٹھے ہو چکے لیکن ہم ایسے تقسیم کہ گھر گھر divideہو چکا‘ اب تو بس اللہ سے ہی اُمید کہ وہی کوئی خاص فضل کر دے ورنہ چاروں طرف مایوسی ہی مایوسی‘‘۔ صاحبو! گو کہ اس رات میرے میزبان نے بڑوں کے معاشقوں اور خفیہ شادیوں کا بتایا، 2 صاحبوں کو گلالئی کی طرف سے بھیجے گئے میسجز بھی دکھائے، بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور زرداری صاحب سے اپنی یادگار ملاقاتوں کا حال بھی سنایا، الطاف حسین اور مولانا فضل الرحمٰن کی شخصیتوں کے چھپے پہلوؤں سے پردہ بھی اُٹھایا، ایک گلوکارہ اور سیاستدان جبکہ جینز گروپ اور دھوتی والوں کے رومانس کا بھی بتایا، 3 حسین خواتین اور نوٹوں سے بھرے بریف کیس کا قصہ، بڑے گھروں کا چھوٹا پن، خفیہ سیاسی ڈسکو کلب اور باہمی رقابتوں، چپقلشوں اور سازشوں کی دنیا کا بھی درشن کروایا، مگر سب کچھ۔ ۔ ۔ آف دی ریکارڈ کا ٹھپہ لگا کر، لہٰذا چاہتے ہوئے بھی میں یہ نہیں بتا سکتا، اور واقعی یہ سب بتانا بھی نہیں چاہئے کیونکہ اگر من و عن سب کچھ آپ کو بتا دوں تو پل بھر میں آپ کی نظر میں کئی پہاڑ، ٹیلوں میں بدل جائیں، کئی جن، زکوٹے ہو جائیں، کئی عالم چنے، کوڈو بن جائیں اور بہت سارے چہیتوں سے تو آپ ہاتھ ملانا بھی چھوڑ دیں، لہٰذا بہتری اسی میں کہ ’’پردہ نہ اُٹھاؤ، پردے میں ہی رہنے دو‘‘ باقی صاحبو! سیاست کے نام پر عقیدوں سے بھی بڑھ چکی عقیدت مندوں کی عقیدت اور بت شکنوں کی بت پرستی دیکھ کرقتیل شفائی کے یہ شعر ان سب کی نذر:۔
وعدۂ حور پہ بہلائے ہوئے لوگ ہیں ہم
خاک بولیں گے کہ دفنائے ہوئے لوگ ہیں ہم
یوں ہر ایک ظلم پہ دم سادھے کھڑے ہیں
جیسے دیوار میں چنوائے ہوئے لوگ ہیں ہم
جس کا جی چاہے وہ انگلی پہ نچا لیتا ہے
جیسے بازار سے منگوائے ہوئے لوگ ہیں ہم
جہاں تک بات ہے پاناما لیکس یا موبائل لیکس کی تو اس حوالے سے بس اتنا ہی کہنا کہ جیسے میاں نواز شریف کا ’’مالی دفاع‘‘ کمزور تھا ویسے ہی عمران خان کا ’’اخلاقی دفاع‘‘ بھی کمزور‘ لہٰذا کل اور آج کا سوچ کر یعنی دونوں حضرات کو دیکھ کر بے اختیار منیر نیازی یاد آجائیں :۔
کجھ اُنج وی راہواں اوکھیاں سن
کجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی