مین سوئچ آف اور تقریر ختم
قائداعظم ؒ خراب ایمبولینس کی نذر، قائد ِ ملت قتل، قائدعوام کو پھانسی، دُختر مشرق کو دن دیہاڑے مار دیا گیااورکسی قتل کا کچھ پتا نہ چلا!
یہی نہیں بابائے اُردو مولوی عبدالحق سب کے سامنے فاقوں سے مر گئے، ہمدردِ پاکستان حکیم سعید اندھی گولی کا نشانہ بنے اور محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر کو جیتے جی بھلا دیا گیا، ہم نے کسی کو نہ بخشا، وہ فاطمہ جناح جنہیں ہم مادرِملت کہتے ہیں’مطلب قوم کی ماں ‘جو 7 بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی اور جو قائد ِ اعظمؒ کی لاڈلی، جنہوں نے بیگم جناح کی وفات کے بعد اپنے بھائی کیلئے زندگی وقف کر دی، جو بابائے قوم کی سیاسی مشیر اورصلاح کار اورجو اعلیٰ پائے کی مقرر، زیرک سیاستداں اور جن کا قیام پاکستان میں اہم کردار، اسی مادرِ ملت یعنی فاطمہ جناح کے ساتھ کیا سلوک ہوا، سنئے۔ یہ سننے لائق، قائداعظم ؒ کی وفات کے بعد2 سال تک تو انہیں اجازت ہی نہ دی گئی کہ وہ قوم سے خطاب یا عوام سے مخاطب ہو سکیں، کچھ اہم لوگوں کے دباؤ پر قائداعظم کی تیسری برسی پر جب تقریر کی اجازت ملی اورریڈیو پاکستان پر تقریر کرتے ہوئے انہوں نے جیسے ہی یہ کہاکہ ’’میرے بھائی کو خراب ایمبولینس دی گئی ‘‘تو ، پھر اسی مادرنے ملت کے ہوتے ہوئے اگلے 15 سال گمنامی میں یوں گزارے کہ کسی حکومت نے حال تک نہ پوچھا، کسی حکومتی عہدیدار نے خیریت دریافت نہ کی اورتواور عوام نے بھی پلٹ کر خبر نہ لی، خیروقت گزرا، 1965 کے صدارتی انتخابات آئے اور قوم کے پرزور اصرار پر اس وقت جب آئین معطل اور ڈکٹیٹرجوبن پر تھا، جب سیاسی جماعتوں پر پابندی اور میڈیا مکمل حکومتی کنٹرول میںتھا، جب کشمیر کے معاملے پر گھٹنے ٹیکے بیٹھی ایوب حکومت سندھ طاس ایشو پر بھی بھارت کے سامنے ہتھیار ڈال چکی تھی، تب فاطمہ جناح نہ صرف جنرل ایوب کے خلاف الیکشن میں کھڑی ہوئیں اور اُنہوں نے عوامی جلسوں میں ایوب خان کو ڈکٹیٹر کہہ کر للکارنا شروع کیا بلکہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں سینکڑوں جلسے جلوسوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے قوم سے بڑے واضح انداز میں کہا کہ ’’ قائد کے پاکستان کی طرف لوٹ آؤ ورنہ نقصان اُٹھاؤ گے ‘‘۔
2 جنوری 1965 کو انتخابات ہوئے اورابتدائی نتائج کے مطابق مشرقی پاکستان میں ہر جگہ جبکہ مغربی پاکستان کے آدھے شہروں میں مادرِ ملت کو واضح برتری حاصل تھی لیکن پھر نتائج تبدیل ہونا شروع ہوئے اور حیرت انگیز طور پر رات گئے تک ہارے ہوئے ایوب خان جیت گئے، گو کہ سقوط ِ ڈھاکہ تک پہنچے پہنچتے وقت نے ثابت کیا کہ ایک تو وہ ٹھیک کہتی تھیں کہ’’ قائد کے پاکستان کی طرف لوٹ آؤ ورنہ نقصان اُٹھاؤ گے‘‘اور دوسرا یہ انتخابی دھاندلی بھی پاکستان ٹوٹنے کی ایک بڑی وجہ بنی، لیکن یہاں دُکھ کی بات تو یہ کہ دن دیہاڑے دھاندلی ہوتے دیکھ کر اور فاطمہ جناح کو ایوبی مشینری کی طرف سے دیئے گئے بھارتی وامریکی ایجنٹ کے القاب اور سرکاری علماء سے کفر کے فتوے سن کر بھی مادر ملت ٹس سے مس تک نہ ہوئی، یہی نہیں، جب قصرِ فاطمہ کراچی میں رہائش پذیر محترمہ جناح کی زندگی یوں جہنم بناد ی گئی کہ کبھی گھر پر چھاپے تو کبھی مین گیٹ پر ہوائی فائرنگ، کبھی پانی بند تو کبھی بجلی کاٹ دی گئی تب بھی مادر کی ملت نہ جاگی ہاں البتہ 9 جولائی 1967 کی رات جبری گوشہ نشینی کے دوران جب فاطمہ جناح کا انتقال ہوا تو ایک روز قبل میر لائق علی کی بیٹی کی شادی میں شرکت کرنے والی ہشاش بشاش مس جناح کی اس پرُاسرار موت پر پہلی بار ملت بس اتنی ہی ہلی جلی کہ جنازے میں لاکھوں افرادآگئے، یہ علیحد ہ بات کہ اگر ان میں سے آدھے ہی فاطمہ جناح کی زندگی میں ان کے ساتھ کھڑے ہوجاتے تو ملک میں انقلاب آجاتااور ان میں سے اگر تین چوتھائی ہی جنازے کے بعد مادرِ ملت کی موت کی تحقیق کے مطالبے پر ڈٹ جاتے تو کم ازکم ایک سیاسی قتل کا معمہ حل ہو جاتا، مگر نہ ایسا پہلے ہوا اور نہ اُس وقت ہواکیونکہ مردہ پرست معاشروں میں ایسانہیں ہوتا۔
اب ذرا فاطمہ جناح کی موت کی روداد بھی سن لیں، 14 جنوری 1972 کو روزنامہ جنگ میں شائع خبر کے مطابق ’’کراچی کے ایڈیشنل سٹی مجسٹریٹ ممتاز محمد بیگ ایک شہری غلام سرور ملک کی درخواست سماعت کیلئے منظور کر لیتے ہیں، اس درخواست میں غلام سرور ملک کہتے ہیں کہ’’ میں پاکستان کا ایک شہری ہوں اور مجھے فاطمہ جناح سے بے انتہا عقیدت ہے، مرحومہ قوم کی معمار اور عظیم قائد تھیں، اُنہوں نے تمام زندگی بحالی جمہوریت اور قانون کی سربلندی کیلئے جدوجہد کی 1965 میں اُنہوں نے صدارتی الیکشن میں حصہ لیا تو جہاں وہ عوامی امیدوں کا مرکز بن گئیں وہاں وہ اُس ٹولے کیلئے جو ہر صورت اقتدار سے چمٹا رہنا چاہتا تھا سب سے بڑی رکاوٹ بنیں، لہٰذا اس ٹولے کے ہاتھوں دھاندلی سے انتخابات ہارنے کے بعد بھی جب مادرِملت ڈٹی رہیں تو یہ ٹولہ ان کی جان کا دشمن ہوا اور پھر ایک دن پتا چلا کہ فاطمہ جناح دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئیں، گو کہ ان کی اچانک موت پر پہلے لمحے سے ہی قوم شکوک وشبہات کا شکار تھی لیکن جب تجہیز و تکفین کے وقت عوام کو ان کے جنازے کے قریب نہ جانے دیا گیا، جب ان کے آخری دیدار کی اجازت نہ دی گئی اورجب کچھ لوگوں نے آخری دیدار کی کوشش کی تو ان پر لاٹھی چارج کیا گیا اور آنسو گیس پھینکی گئی، تب مادرِملت کی موت کے حوالے سے شکوک وشبہات کو مزید تقویت ملی، بعد ازاں حسن اے شیخ اور دیگر رہنماؤں نے اپنے اخباری بیانوں میں اس حوالے سے بات بھی کی اور اخبارات نے اس بارے میں مضامین اور اداریئے بھی لکھے ‘‘آگے چل کر غلام سرور ملک اپنی درخواست میں لکھتے ہیں کہ ’’ پھر سب کچھ سامنے آگیا اورایک مقامی اُردو روزنامے میں فاطمہ جناح کوغسل دینے والوں کے انٹرویوز شائع ہوئے، جس میں سب نے یہی کہا کہ مادرِملت کو قتل کیا گیا، ہدایت علی عرف کلّو غسال نے تو یہاں تک بتایا کہ’’فاطمہ جناح کے جسم پر زخموں کے گہرے نشانات اور پیٹ میں سوراخ تھا، جس سے مسلسل خون بہہ رہا تھا، اسی غسال کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’محترمہ جناح کے خون آلود کپڑے آج بھی اس کے پاس موجود ہیں‘‘یہ انٹرویو شائع ہونے کے باوجود نہ توحکومت نے اس کی تردید کی اورنہ ہی اس معاملے پر کسی نے کوئی انکوائری کروائی، غلام سرور ملک نے اپنی درخواست کے ساتھ اخبارات کی کاپیاں ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہوئے عدالت سے درخواست کی کہ وہ معاملے کی مکمل تحقیق کرے‘‘۔
مگر حیرت انگیز طو رپر مادرِ ملت قتل کیس کی ایک سماعت بھی نہ ہو سکی اور کسی انجانے دباؤ پر یہ معاملہ بھی سرد خانے کی نذر ہو گیا ‘لیکن دوستو!سچی بات تو یہ کہ وہاں مادرِملت کیس کا اور کیا انجام ہونا تھا کہ جہاں قائداعظم ؒ خراب ایمبولینس کی نذر، قائد ِ ملت قتل قائدعوام کو پھانسی، دُخترِ مشرق کو دن دیہاڑے مار دیاگیا اورکسی قتل کاکچھ پتا نہ چلا۔