کچھ گاؤں کی صبحوں نے بھی ہم کو نہ پکارا
اسلام آباد کا موسم پھر خوشگوار، صبح بارش، دوپہر بادلوں بھری، شام خنکی بھری دھند، پھر سے پنڈ(گاؤں) یاد آرہا، پتا نہیں موسم خوشگوار ہو، ڈوبتا سورج دیکھ لوں، چڑھتے سورج پر نظر پڑ جائے، پنڈ کیوں یادآئے، مٹی کی کشش، بچپن کی یادیں، کچھ تو ہے، دیکھوں تو پنڈ میں کچھ نہ رہا، ماں، باپ چلے گئے، بہن، بھائی شہروں میں آگئے، یا ردوست پنڈ چھوڑ چکے، سوچوں تو سب کچھ وہیں، ماں، باپ کی قبریں، قدم قدم پر ان گنت انمول یادیں، اکثر اسلام آباد سے لاہور جاتے پنڈی بھٹیاں آئے، گاڑی خود بخود رک جائے، باہر نکلوں، لمبے لمبے سانس لوں، آنکھیں بھیگ جائیں، کئی بار ایسے ہوا، موٹروے سے اترا، پنڈی بھٹیاں شہر آیا، گاڑی ایک طرف کھڑی کی، آتے جاتے لوگوں کو دیکھتا رہا، دو چار مرتبہ یہ بھی ہوا، اپنے ہائی اسکول پہنچ گیا، اکیلا اسکول میں گھومتا رہا، دیکھتا رہا، یہاں ہماری کلاس بیٹھاکرتی، یہاں طاہر عزیز سے لڑائی ہوئی، یہاں سے دیوار پھلانگ کر میں اور فیض بھٹی بازار کی ویڈیو شاپ پرایک ایک روپیہ دیکر وی سی آر پر فلم دیکھنے جاتے، یہاں بشیر چھولے والی کی ریڑھی، کچے پیازوں، چٹنی بھرے چھولوں کا ذائقہ آج بھی نہ بھول پایا، یہاں فلاں ماسٹر سے پھینٹی لگی، یہاں صبح اسمبلی ہوتی، یہاں ہاکی کھیلی جاتی، یہاں کرکٹ کھیلتے، یہ مسجد، جہا ں پڑھائی سے بچنے کیلئے ظہر سے آدھا گھنٹہ پہلے ہی نماز پڑھنے پہنچ جاتے، کیا دن تھے، صبح سویرے پنڈ سے سٹرک پر، بس سے لٹک کر اسکول، واپسی بس کی چھت پر، فکر نہ فاقہ، عیش کر کاکا، پھر گاؤں سے نکلے، دور ہی نکل گئے، کیوں، اپنے محسن میجر عامر کے لاڈلے ناصر علی سید کا شعر یاد آگیا:
کچھ شہر کی شاموں میں بھی اک سحر تھا ناصرؔ
کچھ گاؤں کی صبحوں نے بھی ہم کو نہ پکارا
استاد ِمحترم حسن نثار اسلام آباد کو کوفہ کہیں، گریڈوں، عہدوں بھرا اسلام آباد ہے تو پاکستان کا کوفہ ہی، مگر اس کوفے کاہر موسم بے مثال، گرمیوں، سردیوں کا اپنا مزا، بہار، خزاں کا اپنا حسن اور بارشیں، لفظوں میں بیان کرنا مشکل، مگر بات وہی، پنڈ کیوں یا د آئے، یہ کیسی کشش کہ ایل کے ایڈوانی سے کلدیپ نیئرتک، سنجے دت کے والد سنیل دت سے دلیپ کمار تک بھارت میں رہ کر پاکستان میں اپنی جائے پیدائش کو یاد کریں، دلیپ کمار نشان امتیاز لینے آئے، خاص طور پر پشاور گئے، اپنے محلے میں آنکھیں بھر آئیں، گم صم گھروں، گلیوں کو دیکھتے رہے، آبائی گھر کی دیواروں کو چوما، کلدیپ نیئرکبھی سیالکوٹ نہ بھولے، شا عر، نغمہ نگار سمپورن سنگھ کا لرا المعروف گلزار کو جہلم، راج کپور، شاہ رخ کو پشاور، امریش پوری کو لاہور، سنجے دت کی ماں فاطمہ رشید المعروف نرگس کو راولپنڈی، ایل کے ایڈوانی کو سندھ اور کراچی کےا سکول کے دن کبھی نہ بھولے، من موہن سنگھ آج بھی پنجاب کو یاد کریں، استاد دامن کہا کرتے، پنڈت نہرو نے شہریت دینے کی پیشکش کی، میں نے کہا" پاکستان میں رہوں گا خواہ جیل میں رہنا پڑے" ان سب کو چھوڑیں، ان کی کیا حیثیت، کائنات کے حُسن، امام الانبیاء رحمۃ للعالمین، میرے پیارے نبی حضرت محمدﷺ مکہ سے مدینہ تو آگئے، مگر کبھی مکہ بھلا نہ پائے، ایک بارفرمایا" اے مکہ تو کتنا پیارا، تو مجھے کتنا محبوب، اگر میری قوم نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کہیں اور نہ رہتا"، ایک بار اصیل غفاری ؓ مکہ کی تعریف کرنے لگے، چند جملے سن کر فرمایا" بس کرو ہمیں مکہ کی باتیں سناکر غمزدہ نہ کرو"۔
یہ بھی سوچوں، کہیں ایسا تو نہیں ظالم موسموں والے اسلام آباد میں جنم بھومی اس لئے زیادہ یاد آئے کہ یہ سو فیصد مصنوعی شہر، فیلڈ مارشل ایوب خان کا بسا یا ہوا، یہ سن لیں، اسلام آباد کی دیکھ بھال کیلئے ایک ادارہ کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) بنا، اسکے پہلے چیئرمین جنرل یحییٰ خان، یہ بھی سنتے جائیے، 70سالوں میں ہم اسلام آباد کے علاوہ کوئی دوسرا شہرنہ بسا پائے، انگریزوں نے 90سال حکومت کی، ریلوے سسٹم، نہری نظام، پل، سڑکیں، باغ، اسپتال، بیسیوں شہر، کیا کچھ نہ دے گئے، ہم نے یہ تیر مارا کہ شہروں، سڑکوں کے نام بدل ڈالے، اداروں کے نام اپنے ناموں پر رکھ لئے، اندازہ لگائیں، ملک کے 17اداروں کے نام شریف خاندان کے ناموں پر، بھٹو، زرداری ناموں والے ادارے الگ، باقی جس کا جہاں داؤلگا، اپنے نام کی تختی لگادی، بونے، بونی سوچ، اصل دکھ یہ کہ صرف نام ہی بدلے، زرداری دور میں راولپنڈی جنرل اسپتال کا نام بے نظیر بھٹو اسپتال رکھ دیا، مگر اسپتال کی بہتری کیلئے دھیلے کا کام نہ کروایا، اسلام آباد ائیر پورٹ بے نظیر بھٹو ائیر پورٹ ہوا مگر پی پی نے اپنے پنج سالہ حکومت میں چار آنے کا اضافی کام نہ کروایا، یہاں تو حالت یہ، شہباز شریف کی تصویریں وہاں وہاں لگی دیکھیں جہاں صرف اپنا نام لکھا دیکھ کر بندہ پریشان ہوجائے۔
بات کیا کررہا تھا، با ت کیا کرنے لگا، استاد ِ گرامی حسن نثار کے کوفہ نے کسی سے وفا نہ کی، عروج میں ہرایک کو سلام، زوال میں پلٹ کر خبر نہ لے، جس کے ہاتھ میں لاٹھی یہ اسی کا، اسی لئے میں تو جب کبھی خوش ہوں یا دکھی، کوئی کامیابی ملے یا ناکامی، کوفہ مطلب اسلام آباد کے ایچ ایٹ قبرستان کا چکر لگا لوں، حضرت علی ؓ کا قول ذہن میں پھنسا ہوا" ذائقوں کو توڑ دینے والی موت کو یاد رکھو"، موت یاد رہے تو کوئی کامیابی مغرور نہیں بناتی، کوئی ناکامی بے حوصلہ نہیں کرتی، کوئی خوشی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں کرتی اور کوئی مایوسی، مایوس نہیں کرتی، اسلام آباد کے ایچ ایٹ قبرستان میں پروین شاکر، احمد فراز، کوثر نیازی، قدرت اللہ شہاب جیسوں کی قبریں دیکھ کر کون ہے جو اوقات میں نہ آجائے، اپنے اپنے زمانے کے یہ لوگ، جن سے ملنا چھوڑیں ہاتھ ملانا باعث فخر، جو جس محفل میں ہوتے اس محفل میں پھر یہی ہوتے، وہ آج منوں مٹی تلے، تنہا پڑے ہوئے، زمانہ انہیں بھلا چکا۔
مجھے گرمیوں کی وہ سہ پہر آج بھی یاد، گھنٹہ بھر قبرستان میں اِدھر اُدھر پھرنے کے بعد پسینے سے شرابور چھاؤں کی تلاش میں قبرستان کے ایک کونے میں گھنے درخت کی طرف بڑھ رہا تھا، جنگلی گھاس میںقبروں سے بچتے بچاتے درخت کے قریب پہنچ کر اچانک ٹھوکر لگی، میں گرتے گرتے بچا، ٹھوکر کیوں لگی، یہ قبر تو نہیں، یہ سوچ کردونوں ہاتھوں سے گھاس ہٹا ئی، نیچے شکستہ قبر، یہ کس کی قبر، تھوڑی سی گھا س اور ہٹائی، ٹوٹے پھوٹے کتبے پر نظر پڑی، دماغ سُن ہوگیا، کتبے پر لکھا تھا، جوش ملیح آبادی، جی ہاں شاعر جذبات وانقلاب، شبیر حسن المعروف جوش ملیح آبادی، یادوں کی بارات والے جوش، جنہیں بھارت پدما بھوشن، پاکستان ہلالِ امتیاز دے چکا، جنہیں بھارت میں رکھنے کیلئے نہرو نے منتیں ترلے کئے، جو فقرے بازایسے کہ جماعت اسلامی کے امیر مولانا مودودی جن سے دہلی کے زمانے سے دوستی تھی، ان سے ملنے لاہور گئے، مولانا صاحب سے حال احوال پوچھا، مودودی صاحب بولے "باقی سب ٹھیک، بس گردے میں پتھری تنگ کر رہی، زیرلب مسکراکر کہا" مولانا گویا اندر سے سنگسار ہور ہے ہو" مولانا مودودی بے اختیار ہنس پڑے، وہ جوش، جنگلی گھاس، شکستہ قبر، ٹوٹا پھوٹا کتبہ، یہ انجام، قبر سے دونوں ہاتھوں سے جنگلی گھاس اکھیڑتے ہوئے پتا ہی نہ چلا کب آنکھیں بھیگیں، کب آنسو بہہ نکلے۔