کھیڈاں گے ناں کھیڈن دیاں گے
ڈھلتا سورج، تیز ہوا، بڑے بڑے دروازے ،اونچی اونچی دیواریں ، ان گنت لانز ، ہاتھوں میں وائر لیس پکڑے اور جدید اسلحہ لگائے تھری پیس سوٹوں میں پھرتے گارڈزاور ایئر کنڈیشنڈ ماحول میں نرم وملائم صوفوں پر اونگھتی بلیاں !
آصف زرداری سے مصافحہ کے بعد میں بمشکل بیٹھا ہی تھا کہ بشیر ریاض نے میرے کان میں سرگوشی کی "آپ پیپلز پارٹی میں شامل ہونے آئے ہیں " میں نے حیران ہو کر کہا" نہیں تو " لیکن جونہی "اچھا" کہہ کربے نظیر بھٹو کے چہیتے اور بلاول بھٹو کے میڈیا ایڈوائزر بشیر ریاض نے صوفے سے ٹیک لگا کر سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود سے باتیں کرتے زرداری صاحب کی طرف دیکھنا شروع کیاتو میں نے ان سے پوچھ لیا "آپ نے یہ کیسے اندازہ لگا لیا کہ میں پیپلز پارٹی میں شامل ہونے آیاہوں " بشیر ریاض نے میری طرف دیکھا، لمحہ بھر کیلئے سوچا اورپھر کہا "بس ویسے ہی" اس سے پہلے کہ میں اگلا سوال کرتا ،آصف زرداری نے مجھے مخاطب کیا "کیا چل رہا ہے سیاست میں ،کچھ ہمیں بھی تو بتائیں" یہ سن کر میں نے کہا" یہی کچھ تو میں آپ سے جاننے آیاہوں،بھلا جسکی عمر گزرگئی ہو سیاست میں ، اسے میں کیا بتاؤں گا ، آپ بتائیں کیا ہونے جا رہا" سابق صدر نے مسکرا کر پہلے ساتھ بیٹھے احمد محمود کی طرف دیکھا اور پھر میرے صوفے پر بشیر ریاض سے آگے بیٹھی عاصمہ ارباب عالمگیر کی طرف دیکھتے ہوئے بولے "کیا ہونا ہے ،کچھ نہیں ہونے جارہا،پارلیمنٹ موجود، جمہوریت موجود ، سب کی سیاست چمکی ہوئی مطلب سب کچھ تو ٹھیک چل رہا ،ہاں البتہ میاں صاحب پیالی میں طوفان برپا کرنے کی کوششیں کر رہے ،وہ سمجھ بیٹھے کہ جمہوریت کامطلب انکی ذات مبارک ،یعنی وہ ہیں تو جمہوریت بھی ہے، وہ نہیں تو جمہوریت بھی نہیں اور نااہلی کے بعد اب تو ان کا گیم پلان یہی کہ " "زرداری صاحب نے سندھی لہجے میں پنجابی بول کر جیسے ہی بات ختم کی تو میں نے سوال کیا"آپ اس بار میاں صاحب کور یسکیو کرنے سے کیوں کترا رہے " وہ بولے " میرے بھائی میں تو انہیں پہلے جو ریسکیو کر چکااس پر پچھتا رہا ،آپ اب کی بات کر رہے ، میاں صاحب اپنے مفاد کی خاطر جب چاہیں کسی کو چھوڑ جائیں ، جب چاہیں کسی کو بھلادیں اور جب چاہیں کسی کو اپنا لیں ، اچھا وقت ہوتوآنکھیں ماتھے پہ رکھ لیں، بُرا وقت آئے توجمہوریت بھی یاد آجائے اور سب رشتے ناتے بھی ، میں تو سمجھا تھا کہ جلاوطنی نے میاں صاحب کو کچھ سیکھا دیا ہوگا ، وہ بدل گئے ہوں گے اور سیاسی طور پر میچور ہوچکے ہوں گے مگر مجھے کیا پتا کہ بادشاہوں کے مہمان خود بھی بادشاہ بن گئے ،آج میری یہ بات لکھ لیں اور ایک دن وقت بھی یہ ثابت کر دے گا کہ" میاں صاحب کے خلاف فوج یا عدلیہ نے کوئی سازش نہیں کی ، میں تو سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ نے تو میاں صاحب پر بڑا نرم ہاتھ رکھاورنہ نااہلی کے ساتھ ساتھ جیل بھی ہو سکتی تھی " اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھتی مخدوم احمد محمود جانے کیلئے اُٹھے اور ابھی وہ کمرے سے نکل ہی رہے تھے کہ فیصل صالح حیات آگئے ،یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ جب میں کمرے داخل ہورہا تھا تب زرداری صاحب سے مل کر ڈاکٹر عاصم کمرے سے نکل رہے تھے۔
سلام دُعا کے بعد فیصل صالح حیات زرداری صاحب کے ساتھ جس صوفے پر بیٹھے ،اسی صوفے کے اوپر دیوار پر ذوالفقار بھٹو ،بی بی اور نصرت بھٹو کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں تھیں ،اوپر یہ تصویریں اورنیچے بڑی اپنائیت سے گپیں مارتے زرداری صاحب اور فیصل صالح حیات، میں یہ منظر دیکھ کر اپنی سیاست پر عش عش کر اُٹھا اور پھر پل بھر میں اس منظر نے میرے ذہن کی اسکرین پرماضی کے کئی مناظر چلا دیئے ، کیسے تھا نہ سرور روڈ کے قیدی فیصل صالح حیات وفاقی وزیر داخلہ بنے ،کیسے مشرف دور میں فیصل صالح حیات 17 ایم این ایز کے ساتھ اپنی پارٹی سے بغاوت کر کے اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنا کر جمالی حکومت کا حصہ بنے ، اور وہ بھی اس وقت جب آصف زرداری قیداور بے نظیر بھٹو جلاوطن ، پھر مخدوم صاحب اپنی سابقہ پارٹی کے خلاف کیا کیا بیان بازیاں کیا کرتے تھے ،باقی چھوڑیں گزرے زرداری دور کو ہی لے لیں ، یہ فیصل صالح حیات ہی تھے کہ جو ایک دوپہر قومی اسمبلی کے باہر صدر زرداری کو مخاطب کرکے فرمار ہے تھے کہ "آپکا صرف اور صرف ایک ہی ایجنڈ ا کہ لُٹواورلُٹو اور پھرپھُٹو"پھر وہ ٹی وی پروگرام جس میں فیصل صالح اور اس وقت کے پانی وبجلی کے وفاقی وزیر راجہ پرویز اشرف کا ٹاکرا ہو ا توفیصل صالح حیات کا راجہ صاحب سے یہ کہنا "یار اتنا ہی کمیشن کھاؤ جتنا ہضم ہو سکے ،اسی پروگرام میں فیصل صالح حیات نے قرآنی آیتوں والی ایک چھوٹی سی کتاب ہاتھ میں پکڑ کر کہا کہ" میں رمضان کے مہینے میں اس پاک کتاب کو ہاتھ میںلے کر کہہ رہا ہوں کہ یہ جو پاور پلانٹس آرہے ہیں ان میں سے زیادہ تر آصف علی زرداری اور انکے دوستوں کے ،اگر یہی پاک کتاب پکڑ کر راجہ پرویز اشرف میری اس بات کو جھٹلا دیں تو میں اپنے الزامات سے دستبردار ہو جاتاہوں "یہی نہیں پھر یہی رینٹل پاور پلانٹس کیس لے کر فیصل صالح حیات زرداری حکومت کے خلاف سپریم کورٹ بھی گئے ، اس سے پہلے کہ میرا ذہن کوئی اگلا منظر دکھاتا ،ہنستے مسکراتے زرداری صاحب نے مجھے دوبارہ مخاطب کیا، وہ بتانے لگے " ابھی تھوڑا عرصہ پہلے ایک رات یہاں سے جاتے وقت میں نے فیصل صالح حیات کو منع کیا تھا کہ رات کا سفر نہ کریں، کل دن کے وقت جھنگ چلے جانا مگر انہوں نے میری بات نہ مانی اور اسی رات جاتے ہوئے ان کا ایکسیڈنٹ ہوگیا، یہ سن کر میں نے فیصل صاحب سے کہا " آپکو تو زرداری صاحب کی باتیں آنکھیں بند کر کے ماننی چاہئیں " وہ مسکراکر بولے " مجھے رات کو سفر کرنا پسند، اسی لئے زرداری صاحب کی بات نہ مانی " زرداری صاحب نے انکی بات کاٹ کر کہا" یہ بھی سن لیں ایک رات کا سفر اور اوپر سے بھائی جان نے سیٹ بیلٹ بھی نہیں باندھی ہوئی تھی " زرداری صاحب کہنے لگے " جوانی میں ہم نے بھی راتوں کو بہت سفر کیامگر بڑھاپا آیا تو یہ سب چھوڑ دیا،لیکن فیصل صاحب یہ مان ہی نہیں رہے کہ وہ بوڑھے ہو چکے " سب نے قہقہہ لگایا تو فیصل صالح حیات بھی ہنسنے لگے۔
گو کہ اس شام دوگھنٹے کی بیٹھک میں زرداری صاحب نے خود سے جڑی کرپشن کہانیوں کے حوالے سے کھل کر بتایا، انہوں نے پی پی کے زوال پر بھی تفصیل سے بات کی ،وہ اپنی 5 سالہ صدارت میں بی بی کے قاتلوں کو کیوں نہ پکڑسکے،بلاول بھٹو کا مستقبل اور اپنی سیاسی ریٹائرمنٹ پر بھی بولے، گوکہ انہوںنے یہ گلہ بھی کیا کہ انتہائی نازک موقع پر " پاکستان کھپے " کا نعرہ لگایا، کریڈٹ کیا ملنا تھا، الٹا ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس نعرے کوہی مذاق بنا دیا گیا، گو کہ انہوںنے بار بار یہ بھی کہا کہ " گریٹر پنجاب کی سازشی تھیوری "کو سنجیدگی سے لیں " اورگو کہ زرداری صاحب نے اور بھی بہت ساری باتیں کیںمگر اس ملاقات کے بعد جو دو چیزیں میں ابھی تک نہیں بھلا سکا، ان میں پہلی تو یہ کہ وہ شخص جس نے 11 سال قیدکاٹی اور جس پر کرپشن کا ہر الزام لگ چکا، وہ اتناریلیکس کیسے اور وہ انسان جسکی روزانہ کردار کشی ہوتی ہو وہ اتنا پرسکون کیسے اور دوسری چیز جو ابھی تک میں بھلا نہیں پایا وہ زرداری صاحب کے محل نما گھر میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت کے مناظر جیسے ڈھلتا سورج، تیز ہوا، بڑے بڑے دروازے ،اونچی اونچی دیواریں ،ان گنت لانز،ہاتھوں میں وائر لیس پکڑے اور جدید اسلحہ لگائے تھری پیس سوٹو ں والے گارڈز اور ائیر کنڈیشنڈ ماحول میں نرم وملائم صوفوں پر اونگھتی بلیاں۔